"JDC" (space) message & send to 7575

سری لنکا کے مخدوش حالات

سری لنکا گزشتہ دو تین ماہ سے خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ بڑی وجہ معیشت کی دگرگوں حالت ہے۔ معاشی حالات کورونا کی وجہ سے خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ملک کی تیرہ فیصد قومی آمدنی ٹورازم سے آتی ہے اور کورونا کی وجہ سے سیاح کم آنے لگے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے۔ اسّی فیصد بجلی فرنس آئل سے بنتی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ حکومت کے پاس فرنس آئل امپورٹ کرنے کیلئے زرمبادلہ نہیں تھا‘ لہٰذا لوڈشیڈنگ روزمرہ کا معمول بن گئی تھی حتیٰ کہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہونے لگی۔ سیاحوں نے اس خوبصورت جزیرے کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔
اسی ہفتے نئے وزیراعظم رانیل وکرمے سنگھے نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس صرف ایک دن کا پٹرول رہ گیا ہے۔ کولمبو میں پٹرول کے لیے میلوں لمبی کاروں کی قطاریں نظر آرہی ہیں۔ دارالحکومت میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ مارے گئے۔ سابق وزیراعظم کے گھر کا گھیراؤ ہوا اور مہندا راجا پاکسا کو ایک نیول بیس میں پناہ لینا پڑی۔
سری لنکا ایک عرصے سے چائے اور چاول کا ایکسپورٹر رہا ہے۔ چائے کی پروسیسنگ کے لیے بھی انرجی درکار ہے۔ لوڈشیڈنگ سے چائے کی ایکسپورٹ بھی متاثر ہوئی۔ چاول کی اچھی فصل کیلئے کھاد کی ضرورت ہوتی ہے اور سری لنکا بڑی مقدار میں کھاد درآمد کرتا تھا۔ جب زرمبادلہ کم رہ گیا تو حکومت نے کسانوں سے کہا کہ وہ دیسی کھاد استعمال کریں۔ اس سے چاول کی پیداوار پر منفی اثر پڑا۔ سری لنکا کو پہلی مرتبہ اپنی ضروریات کے لیے چاول امپورٹ کرنا پڑا۔
اقتصادی حالات خراب ہوئے تو بہت سے لوگوں کی جابز ختم ہونا شروع ہو گئیں۔ دکانداروں کا منافع سکڑنے لگا۔ اقتصادی سرگرمیاں شرنک کرنے لگیں۔ پچھلے چھ ماہ میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک عام شہری کے لیے دو وقت پیٹ بھر کر کھانا مشکل ہو گیا ہے۔ وزیراعظم راجا پاکسا اقتدار سے الگ ہو گئے ہیں۔ نئے وزیراعظم رانیل وکرمے سنگھے کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے مرکزی بینک کوکرنسی نوٹ چھاپنے پڑیں گے‘ مگر اس سے افراط زر مزید بڑھے گا۔
سری لنکا نے انڈیا، چین اور بنگلہ دیش سے مالی مدد کی درخواست کی ہے۔ انڈیا نے پانچ کروڑ ڈالر تیل کی فوری امپورٹ کیلئے دیئے ہیں‘ مزید ایک ارب ڈالر کا ضروری اشیائے صرف کی امپورٹ کیلئے وعدہ کیا ہے۔ یہ قرضے کریڈٹ لائن کی صورت میں ہیں یعنی درآمدات انڈیا سے ہی کرنا ہوں گی۔ انڈیا دیکھ رہا ہے کہ سری لنکا میں چین کے دائرہ اثر کو کم کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔
یہاں راجا پاکسا فیملی کا ذکر ضروری ہے جو عرصے سے سری لنکا میں اقتدار میں رہی ہے۔ مہندا راجا پاکسا کے سر تیس سالہ خانہ جنگی کو ختم کرنے اور تامل باغیوں کو شکست فاش دینے کا سہرا ہے اور پھر اس خاندان کی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔ وزیر اعظم کے بھائی گوٹابایا راجا پاکسا صدر بن گئے۔ مہندا راجا پاکسا مجبوراً اقتدار سے علیحدہ ہو گئے ہیں اور عدالتی فیصلے کے مطابق ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہے۔ گوٹابایا راجا پاکسا البتہ اب بھی صدر ہیں لیکن ان کی بہت سی پاورز کم کرکے پارلیمنٹ کو دے دی گئی ہیں۔ یہ بھی ہیرو سے زیرو ہونے والی عبرت ناک کہانی ہے۔ سری لنکا 51 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور اب وہ اس قرضے کی قسط دینے کے قابل بھی نہیں رہا‘ گویا ڈیفالٹ ہو گیا ہے‘ لیکن اس سے پہلے یونان اور ارجنٹائن بھی ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔ ڈیفالٹ کرنے میں قباحت یہ ہوتی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مزید امداد کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ سری لنکا کی کہانی میں پاکستان کیلئے کیا سبق ہے کیونکہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے۔ میں ان لوگوں سے قطعی متفق نہیں ہوں۔ پاکستان کے پاس سری لنکا کے مقابلے میں زیادہ وسائل ہیں۔ پاکستان پہلے بھی اس قسم کے نامساعد حالات کا سامنا کرچکا ہے؛ البتہ ہم تساہل سے کام نہیں لے سکتے‘ ہمیں ہر وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ خدا نہ کرے‘ ہماری زندگی میں وہ دن آئے کہ پاکستان کو بھی سری لنکا کی طرح انڈیا سے مدد لینا پڑے۔
اگر پاکستان کو طویل مدت کیلئے اپنے پاؤں پر کھڑنا کرنا ہے تو ہمیں اپنے فکروعمل میں چند تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ تحریک انصاف حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ملک کیلئے اچھا نہیں تھا۔ ہر منتخب حکومت کواپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ جو سیاسی بے یقینی ہم نے ملک میں پیدا کرلی ہے وہ ہماری معیشت کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوئی ہے۔ سٹاک ایکسچینج سے لے کر روپے کی قدر تک سب کچھ متاثر ہوا ہے۔ سری لنکا کی طرح زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے ہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف پٹرولیم سبسڈی ختم کرنے کا کہہ رہا ہے۔ ہمیں یہ سبسڈی ختم کر دینی چاہئے۔ سری لنکا میں راجا پاکسا کی پارٹی نے بار بار یہ پالیسی اپنائی کہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے کم سے کم ٹیکس لگائے جائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خزانہ خالی ہوتا گیا۔ ہمیں ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا ہوگا اور اپنی معیشت کو زیادہ سے زیادہ دستاویزی بنانا ہوگا۔
ایف بی آر میں تعیناتی، پروموشن اور ٹرانسفر‘ تمام عمل میرٹ پر ہونا چاہئے۔ بنگلہ دیش نے یہ پالیسی کامیابی سے چلائی کہ زیادہ ٹیکس جمع کرنیوالے افسروں کو بہتر پوسٹنگ دی جائے۔ ہمارے ٹیکس کولیکشن کے اداروں میں سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہئے۔ مجھے ایک وزیراعظم کا علم ہے‘ جنہیں اپنی پسند کے انکم ٹیکس کمشنر اورکسٹم کلکٹر لگوانے کا شغف تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ یہ آپ کے تخیل کی پرواز پر چھوڑتا ہوں۔ ایک اور وزیراعظم ایس آر او (Statutory Regulatory Orders) ایسے طریقے سے ایشو کرتے کہ دوستوں کا بے تحاشا فائدہ ہو جاتا مگر نقصان قومی خزانے کا ہوتا تھا۔
تحریک انصاف گورنمنٹ نے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی سکیم متعارف کرائی تھی۔ آج کل بینک ڈالر اکاؤنٹ پر برائے نام منافع دیتے ہیں جبکہ اس سکیم میں سالانہ منافع بہت بہتر تھا۔ اس سکیم کی خوب پذیرائی ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ ملک کے اندر کالا دھن زرمبادلہ کی شکل میں لوگوں کے پاس تجوریوں اور بینک لاکرز میں ہے۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے کیلئے ٹیکس فائلر ہونا ضروری ہے۔ اگر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ملک کے اندر لوگوں کو کھولنے کی اجازت دے دی جائے اور بتا دیا جائے کہ ذرائع آمدنی کے بارے میں سوال نہیں ہوں گے تو شاید ہمیں کشکول لیکر دوست ممالک کے پاس نہ جانا پڑے۔
آج ملک میں سب سے بڑا کاروبار ریئل اسٹیٹ کا ہے۔ یہ مردہ سرمایہ کاری یعنی Dead Investment ہے۔ لاکھوں پلاٹوں کے پڑے پڑے مالک بدلتے رہتے ہیں اور بس۔ اگر یہی سرمایہ کاری پیداواری سرگرمیوں میں ہو تو اقتصادی ترقی کی شرح بڑھے گی‘ لوگوں کو جابز ملیں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ عرصہ دراز سے خالی پڑے پلاٹوں پر ٹیکس لگائے۔
جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے تو حکومت کا فیصلہ آ چکا ہے کہ لگژری گاڑیوں کی امپورٹ روک دی جائے گی۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں پاکستان نے پونے چار ارب ڈالر کی کاریں درآمد کیں۔ کاش یہ فیصلہ عمران خان اقتدار میں آتے ہی کر لیتے لیکن 2018 میں ان کی اقتصادی ٹیم خاصی کمزور تھی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ اب سخت فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ وہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ساتھ بٹھا کر مختصر عرصے میں بڑے سیاسی اور اقتصادی فیصلے کرنے کی ترغیب دے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آئے اور ہم کشکول سے دائمی نجات حاصل کر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں