"JDC" (space) message & send to 7575

بچ گئے دیوالیہ ہونے سے ہم

''الحمدللہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے‘‘۔ یہ الفاظ وزیراعظم شہباز شریف کے ہیں۔ میں نے ایسے ہی الفاظ 1993ء میں بھی سنے تھے جب صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات لگا کر وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے فارغ کر دیا تھا۔ لندن والے فلیٹ شریف فیملی نے 1992ء میں خریدے تھے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں ڈیفالٹ کی جانب لے جانے والی بھی اشرافیہ ہے اور ہمارے بچاؤ پر الحمدللہ کہنے والی بھی اشرافیہ ہی ہے یعنی ہمیں بیمار کرنے والے ہی ہمارے معالج بھی ہیں۔
جب ہم ایک مرتبہ آئی ایم ایف کے ڈسپلن میں آ جاتے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ آئندہ وہاں نہ جانے کے لیے اپنی مالی حالت بہتر کریں لیکن ہم ہیں کہ اُس کوچۂ ملامت میں بار بار جاتے ہیں اور اپنی حالت کو سدھارنے کی کوئی پروا ہی نہیں۔ کشکول میں کچھ آئی ایم ایف ڈال دے تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی ہے مگر اس مرتبہ تو آئی ایم ایف نے ہمیں خوب رگڑا۔ بہت سی شرائط منوائیں۔ صبر کا بڑا امتحان لیا بلکہ موجودہ بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جا سکتا ہے اور ہم مسلسل آئی ایم ایف کی دہلیز پر کشکول لیے بیٹھے رہے۔ ہم سے اچھے تو مرزا غالب تھے کہ مفلسی کی حالت میں کمپنی بہادر کے پاس پنشن کی درخواست لے کر کلکتہ گئے۔ استقبال حسبِ منشا نہ ہوا تو ملے بغیر دہلی واپس آ گئے۔
خیر مقصد اس کالم کا خود ترسی (Self Pity) یا سینہ کوبی ہرگز نہیں۔ میں ایسے طریقوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جن کی بدولت ہم آئندہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش اب آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری قیادت کمزور رہی ہے تو بھارت اور بنگلہ دیش کی قیادت بھی تو کوئی زیادہ اعلیٰ درجے کی نہیں‘ اُن کے پاس بھی کوئی مہاتیر محمد یا لی کوان یو نہیں ہے لیکن بڑا فرق یہ ہے کہ دونوں ممالک میں سیاسی استحکام ہے۔ قیادت اپنے اپنے ملک سے مخلص ہے۔ سیاسی استحکام کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری بھی آتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری پرویز مشرف کے دور میں آئی کیونکہ ملک میں استحکام تھا۔ آج کل ملک میں سرمایہ کاری برائے نام ہے بلکہ کئی فارن بینک اور سرمایہ کار پاکستان سے جا چکے ہیں۔ تو جناب یہ مسلسل سیاسی کھینچا تانی چھوڑ دیجئے‘ملک میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے انداز کی سکیم لائیے۔ فارن کرنسی اکاؤنٹ پر شرح منافع معقول حد تک بڑھائیے۔ بہت ساری وائٹ منی یعنی قانونی طور پر کمایا ہوا فارن ایکسچینج اب بھی لوگوں نے بینکوں کے بجائے تجوریوں اور لاکرز میں رکھا ہوا ہے اور یہ بینکوں میں آ سکتا ہے۔
بھارت پاکستان کے راستے افغانستان اور سینٹرل ایشیا سے تجارت کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اگر ہم بھارت کو راہداری دے کر معقول ٹرانزٹ فیس وصول کریں تو ہمیں اچھا خاصا ریونیو مل سکتا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں میں مخاصمانہ رویے بھی شاید کم ہو سکیں‘ انرجی کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے ہمارے ہائیڈل پروجیکٹ سست روی کا شکار ہو گئے۔ آئی پی پی( IPP)‘ وہ پرائیویٹ کمپنیاں جو بجلی بنا کر حکومت کو فروخت کرتی ہیں‘ کے ساتھ معاہدوں میں لکھا ہوا ہے کہ حکومت اگر کسی وجہ سے بجلی نہیں لیتی تب بھی ادائیگی ہو گی اسی وجہ سے سرکلر قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل ایک ہی ہے اگر ہم ایٹمی قوت بن سکتے ہیں تو آئندہ پانچ چھ برسوں میں سولر قوت بھی بن سکتے ہیں۔ فقط یکسوئی کی ضرورت ہے۔ تھرکول‘ سینڈک اور ریکوڈک میں ہمارے پاس بیش بہا وسائل موجود ہیں‘ ہم اپنی ہی نالائقی سے ان سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کر سکے۔ تھر کا کوئلہ ناقص ہی سہی مگر سستی بجلی بنا سکتا ہے۔ ہرنائی میں اچھی کوالٹی کا کوئلہ ہے جو بیکار پڑا ہے۔ سینڈک سے دھاتیں نکال کر ہم بلوچستان میں خوشحالی لا سکتے ہیں‘ اس وقت سینڈک سے تانبا خام مال کی شکل میں ملک سے باہر جا رہا ہے اور یہ بڑا ظلم بھی ہے اور ہماری نالائقی کی روشن مثال بھی۔ اگر ہم سینڈک میں سمیلٹنگ( Smelting)پلانٹ لگا لیں تو ہم خود تانبا بنا کر اچھا خاصا فارن ایکسچینج کما سکتے ہیں اور ریکوڈک میں تو تانبے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی ہے۔ ریکوڈک کو ہم نے ابھی تک ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ کچھ عدالتی فیصلے آڑے آتے رہے اور پھر اٹھارہویں ترمیم کے بعد مائننگ صوبائی اختیار ہو گیا اور صوبائی حکومتوں نے گیارہ سال گزرنے کے بعد بھی اس کام کے ماہرین تیار نہیں کیے‘ پاکستان وہ غریب ملک ہے جو بیش قیمت قدرتی خزانوں پر بیکار بیٹھا ہوا ہے۔
شمالی علاقوں میں ہزاروں من فروٹ زمین پر گر کر خراب ہو جاتا ہے۔ ہم اسے ڈبوں میں محفوظ کر کے ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔ ہماری سمندری حدود میں آبی حیات یعنی مچھلی اور جھینگے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ساحلِ مکران کے مچھیرے ان کو روایتی انداز میں کشتیوں سے پکڑنے نکلتے ہیں‘ اگر ان مچھیروں کو مچھلی پکڑنے کے ماڈرن طریقے سکھائے جائیں اور آسان قرضوں پر بڑی کشتیاں لے دی جائیں تو فش ایکسپورٹ سے ہم بہت سا فارن ایکسچینج کما سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاحت کے فروغ کا بڑا سکوپ ہے۔ ہمارے مکران کوسٹ پر سردیوں میں مزیدار دھوپ ہوتی ہے۔ شمالی یورپ میں لوگ سردیوں میں دھوپ کو ترستے ہیں‘ ہمیں مکران کوسٹ پر فائیو سٹار ہوٹل بنانا چاہئیں۔ اسی طرح سے مذہبی ٹور ازم کے لیے ننکانہ صاحب اور حسن ابدال میں دو تین اچھے معیار کے ہوٹل ضروری ہیں۔ موسم گرما میں غیر ملکی سیاح ہمارے شمالی علاقوں میں شوق سے آئیں گے بس اچھی سڑکیں‘ اعلیٰ معیار کے ہوٹل اور سکیورٹی لازمی ہے۔ ٹور ازم کے فروغ سے مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اب تو برادر ملک سعودی عرب بھی سیاحت کی جانب راغب ہے۔ بحر احمر پر بننے والا نیا شہر نیوم (Neom) سعودی عرب کا ماڈرن سیاحتی مرکز ہے۔
اگر ہم نے پاکستان کو واقعی ترقی دینی ہے تو تعلیم کے شعبے پر فوکس ضروری ہے۔ آج کل دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجری وال کا ایک دلچسپ وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے۔ دہلی میں تعلیم کا معیار قابلِ رشک حد تک اچھا ہے۔ سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ وہ لوگ سکول کے بچوں کو پیشہ ورانہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ کر کمانے کے قابل ہو جائیں۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ٹھیک کرنے کے لیے اعلیٰ پائے کے ماہرینِ زراعت‘ انجینئرز اور اکانومسٹ درکار ہیں اور یہ معیاری تعلیم ہی سے ممکن ہوگا۔
پاکستان کی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آبادی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔ ہماری ورک فورس میں ہر سال تیس لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ تیس لاکھ نئے جاب پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اکانومی بہت تیز رفتار سے ترقی کرے لیکن کئی بار ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پچھلے سال ہماری اکانومی چھ فیصد کے ریٹ سے ترقی کر رہی تھی لیکن اب اندازہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ہمارا گروتھ ریٹ چار فیصد پر آ جائے گا۔ آبادی کنٹرول کرنے کی دو روشن مثالیں بنگلہ دیش او ر ایران ہیں‘ ہم اُن سے سیکھ سکتے ہیں۔
وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ آپ فوراً جاگیرداروں پر زرعی انکم ٹیکس لگائیں۔ حکومتی آمدنی کو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کا ہر وقت سوچیں‘ کشکول کو ہمیشہ کے لیے توڑنے کی سنجیدہ پلاننگ کریں۔ نقصان والے قومی اثاثوں کی نج کاری کریں تاکہ دو چار سال بعد ہمارے وزیراعظم پھر سے یہ نہ کہیں کہ ''الحمدللہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں