"JDC" (space) message & send to 7575

صدر بائیڈن کا دورۂ مشرق وسطیٰ

صدر بائیڈن نے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا ہے۔ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے ڈیڑھ سال بعد اس خطے میں آئے‘ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو امریکی رائے میں مشرقِ وسطیٰ کی وہ اہمیت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ اب امریکہ خود اہم آئل پروڈیوسر ہے‘دوسرے چین کی بڑھتی قوت کی وجہ سے اب امریکہ کا فوکس مشرق بعید اور بحرالکاہل پر ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بڑا سخت رویہ اپنایا تھا اور امریکی عوام کو کہا تھا کہ منتخب ہو کر وہ سعودی عرب کو اقوام عالم میں تن تنہا کر دیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ موجودہ دورے کے دوران امریکہ میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے اور الزام لگایا گیا کہ صدر بائیڈن اپنے مفادات کی خاطر امریکی اصولوں اور اقدارکی قربانی دے رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے ذاتی عوامل تھے جو صدر بائیڈن کے دورۂ اسرائیل اور سعودی عرب وزٹ کا باعث بنے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت امریکہ میں صدر بائیڈن کی مقبولیت خاصی کم ہے؛ چنانچہ اسرائیل کے دورے کے پیچھے ایک عامل امریکہ میں یہودی لابی کو خوش کرنا تھا۔ دوسرا، یوکرین‘ روس جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ اس وقت امریکہ میں ایک گیلن تیل کی قیمت سات ڈالر کے قریب ہے اور اس وجہ سے حکومت کی عدم مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنے دورے کے دوران صدر بائیڈن نے سعودی لیڈر شپ سے کہا ہے کہ وہ تیل کی ایکسپورٹ بڑھائیں تاکہ عالمی قیمت نیچے آئے۔
ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ جدہ ایئرپورٹ پر صدر بائیڈن کو گورنر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے ریسیو کیا جبکہ اُسی روز ایک عرب سربراہ ریاست کا استقبال ایئر پورٹ پر کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے خود کیا۔ وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ایک عرصے سے صدر جو بائیڈن اور کراؤن پرنس کے مابین تناؤ کی کیفیت تھی۔
سعودی عرب سے پہلے صدر بائیڈن اسرائیل کا دورہ کر چکے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی امریکی صدر نے دو اہم جملے کہے‘ ایک تو یہ کہا کہ صہیونی (zionist)ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں یعنی میں یہودی نہیں ہوں مگر پھر بھی صہیونی ہوں۔ یہ بات ظاہر ہے اسرائیلی لیڈر شپ کو بہت اچھی لگی ہو گی لیکن کیا ایسا جملہ ایک ایسے ملک کے سربراہ کو کہنا چاہئے تھا جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین فیصلہ کرانے کی بھی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سے مجھے تو صاف لگتا ہے کہ موصوف صاف کہہ رہے ہیں کہ فلسطینی مسئلہ قصۂ پارینہ ہوا‘ اب اسے بھول جائیے۔ذرا اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ اسرائیل میں قیام کے دوران اور صدر محمود عباس سے ملاقات کے وقت صدر بائیڈن کے منہ سے غیر قانونی یہودی بستیوں کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں نکلا۔
دوسری اہم بات یہ کہی کہ امریکہ ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کے لیے پورا زور لگائے گا۔ جی سی سی ممالک اور اسرائیل اس وقت ایرانی جوہری پروگرام کی شدید مخالفت کر رہے ہیں جبکہ صدر بائیڈن کی خواہش ہے کہ 2015 ء والا معاہدہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ بحال کر لیا جائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ نئے معاہدے میں ایرانی میزائل پروگرام پر چند پابندیاں بھی شامل ہوں۔ دوسری طرف ایران اس بات پر بضد ہے کہ امریکہ اس بات کی ضمانت دے کہ آئندہ ہر امریکی حکومت معاہدے کی پابند ہوگی۔
جدہ میں صدر بائیڈن نے جی سی سی ممالک مصر‘ اردن اور عراق کے سربراہوں کی کانفرنس سے بھی خطاب کیا اس سمٹ کانفرنس کو سعودی عرب اور امریکہ نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا۔ سعودی عرب کے لیے یہ اچھا موقع تھا کہ وہ اپنے آپ کو علاقائی لیڈر کی حیثیت سے پیش کرے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں مصر اپنے آپ کو عرب دنیا کا لیڈر سمجھتا تھا۔ آج کا مصر پہلے کے مقابلے میں کمزور نظر آتا ہے۔دوسری جانب جب امریکی میڈیا صدر بائیڈن کے سعودی عرب جانے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا تو امریکی حکومت نے یہ جواز پیش کیا کہ صدربائیڈن متعدد سربراہان کو ملنے جا رہے ہیں صرف دو طرفہ دورے پر سعودی عرب نہیں جا رہے۔
جو عرب سربراہ جدہ میں اکٹھے ہوئے اُن میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ایران کا خوف۔ اردن نے اسی خطرے کی وجہ سے عرب نیٹو کا آئیڈیا پیش کیا ہے۔ ایران کا میزائل پروگرام اور ڈرون خاصے ترقی یافتہ ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2019ء میں ایک ڈرون حملہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے پر کیا گیا تھا‘ اس کی وجہ سے سعودی عرب کی تیل کی برآمدات چند روز کے لیے خاصی متاثر ہوئی تھیں۔ایران کے خوف نے چند عرب ممالک کو اسرائیل کے خاصا قریب کر دیا ہے۔ اسرائیل کو حزب اللہ سے خطرہ رہتا ہے جبکہ یمن کے حوثی سعودی عرب پر میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہتے ہیں ان دونوں نان سٹیٹ ایکٹرز کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب کا امریکہ سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے نیو کلیئر پروگرام کے مذاکرات میں اُسے بھی شامل کیا جائے۔
کیا عرب نیٹو کامیاب ہو جائے گا یا اس کی اہمیت علامتی ہی ہو گی؟ اس سے پہلے خلیج کے ممالک مشترکہ دفاع کا ہدف حاصل نہیں کر پائے تھے۔ سلطنتِ عمان کا سوال تھا کہ مشترکہ دفاع کس کے خلاف ہوگا؟ سلطنتِ عمان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھے جائیں اور ایران عمانی حدود سے خاصا قریب بھی ہے۔ اسی طرح قطر بھی شاید عرب نیٹو کا فعال ممبر نہ بن سکے۔ مشترکہ پارس گیس فیلڈ کی وجہ سے قطر کو ایرانی تعاون کی مسلسل ضرورت رہتی ہے۔ دونوں ملک اس انڈر واٹر گیس فیلڈ کو شیئر کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ میں نے جمال خاشقجی والا معاملہ سعودی ولی عہد کے ساتھ اٹھایا‘ ولی عہد کا جواب تھا کہ جب یہ افسوس ناک واقعہ ہوا تو انہیں اس کا علم نہیں تھا۔ سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے یہ معاملہ اٹھایا ہی نہیں۔ اسی طرح اس بات کا بھی ابھی تک پتا نہیں چلا کہ سعودی حکومت کس حد تک تیل کی پروڈکشن بڑھائے گی۔
امریکہ کی مڈل ایسٹ میں دلچسپی کم ہونے کا فائدہ یقینا روس اور چین نے اٹھایا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی خلیجی ملک نے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت نہیں کی۔ 2014ء میں شام میں روسی فوجی مداخلت نے صدر بشار الاسد کے اقتدار کو سہارا دیا تھا‘ چین کے خطے میں مفادات بڑی حد تک اقتصادی ہیں لیکن اقتصادی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایران کے ساتھ طویل مدت کا معاہدہ اس کا واضح ثبوت ہے مگر خلیجی ممالک ہتھیاروں کے لیے اب بھی بڑی حد تک امریکہ سے ہی رجوع کرتے ہیں۔
ایران کے خوف کا اسرائیل نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ چھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ عسکری معلومات اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اس بدلتی صورت حال پر مسلسل نظر رکھے۔ موجودہ حالات میں دوست دشمن تیزی سے بدل رہے ہیں اقتصادی مفادات سیاسی مفادات پر حاوی ہو رہے ہیں صدر بائیڈن کا دورہ مفادات پر فوکس کی واضح مثال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں