"JDC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں طالبان کا ایک سال

کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کو ایک سال ہوا چاہتا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ایک سال میں افغانستان نے کیا کھویا اور کیا پایا اور یہ کہ وہ امیدیں جو پاکستان نے کابل میں تبدیلی سے وابستہ کی تھیں‘ وہ کہاں تک پوری ہوئیں۔ ایک سال پہلے امریکی عسکری انخلا بڑی تیزی سے پورا ہوا تھا‘ غیر ملکی فوجی وہاں سے جلد ازجلد نکلنا چاہتے تھے اور طالبان نے ان کے انخلا میں پوری مدد کی۔ یہ ان کی دانشمندی کی دلیل تھی۔ دونوں جانب کے اسلحہ بردار طویل جنگ سے تنگ آ چکے تھے لیکن طالبان کے لیے ملک کو اجنبی عسکری مداخلت سے پاک کرنا ایک اعلیٰ قومی ہدف تھا جبکہ دوسری جانب امریکی اور ان کے حلیف فوجیوں کا صبر جواب دے چکا تھا، ان کیلئے یہ جنگ بے معنی تھی۔
افغان طالبان نے ایک سال میں پورے ملک میں امن امان بحال کر دیا ہے۔ ملک کے چپے چپے پر ان کا کنٹرول ہے۔ جرائم کی شرح کم ہو گئی ہے۔ یہ بات اس لیے بھی قابلِ تحسین ہے کہ نئی افغان پولیس فورس ا بھی تشکیل کے مراحل میں ہے۔ اسی طرح طالبان کے اقتدار کے بعد رشوت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ انگریزی کہاوت ہے کہ مچھلی اوپر سے گلنا شروع ہوتی ہے یعنی کرپشن اعلیٰ قیادت سے شروع ہوتی ہے اور پھر نیچے تک سرایت کر جاتی ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ افغان طالبان بہت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور اگر قیادت کی زندگی سادہ ہو تو اُسے رشوت اور کک بیکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج کے افغانستان کا موازنہ اشرف غنی اور حامد کرزئی کے عہد سے کریں تو کرپشن کے اعتبار سے بہت فرق پڑا ہے‘ اس ایک سال میں بہت بہتری آئی ہے۔
مگر طالبان حکومت کی انٹرنیشنل پذیرائی بہت کم ہوئی ہے۔ ابھی تک کسی ایک بھی ملک نے طالبان کے موجودہ اقتدار کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان کی پہلی حکومت کو تین ملکوں نے تسلیم کیا تھا اور اُن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ گو کہ پاکستان کا سفارت خانہ اس وقت بھی کابل میں فنکشنل ہے لیکن نئی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا اعلان ابھی باقی ہے۔ یہ صورتحال تضاد سے بھرپور لگتی ہے لیکن پاکستان کے علاوہ روس اور چین کے سفارتخانے بھی کابل میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے وہاں سفارتی وجود اس لیے بھی ضروری ہے کہ روزانہ ہزاروں لوگ دونوں جانب سے بارڈر کراس کرتے ہیں‘ پھر تجارت کے معاملات ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بعض عناصر بھی وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
لیکن ایک تاثر پاکستان میں عام ہے کہ گزشتہ سال ہم نے جو توقعات طالبان کی نئی حکومت سے وابستہ کر لی تھیں‘ وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری توقعات کچھ زیادہ ہی ہوں۔ مجھے کابل ایئر پورٹ پر لی گئی پچھلے سال انہی دنوں کی ایک تصویر یاد آ رہی ہے۔ ہمارے ایک حساس ادارے کے سربراہ مسکراتے ہوئے کافی یا چائے پی رہے تھے۔ یہ تصویر دو وجوہ کی بنا پر غیر ضروری تھی۔ ایک تو اس سے یہ تاثر گیا کہ طالبان کی فتح پر ہم بڑے خوش ہیں‘ دوسرا، نئی حکومت سے ہماری توقعات بہت بڑھ گئیں۔ حکومت پاکستان برسوں سے اس بات کاپرچار کر رہی تھی کہ تمام افغان بشمول پشتون‘ تاجک‘ ازبک اور ہزارہ ہمارے لیے برابر ہیں‘ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں۔ اس تصویر سے ہماری بہت سی محنت ضائع ہو گئی۔
حال ہی میں افغانستان میں دو اہم لوگ قتل ہوئے ہیں۔ پہلے ایمن الظواہری ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے اور پھر کالعدم ٹی ٹی پی کے لیڈر خالد خراسانی‘ جس کا اصلی نام کوئی اور تھا۔ وہ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کا ماسٹر مائنڈ بتایا جاتا ہے۔ ایمن الظواہری کے واقعے کے فوراً بعد انڈین میڈیا نے خبر لگائی کہ ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے ہوتا ہوا کابل گیا۔ حکومت پاکستان نے فوراً تردید کی۔ غیر جانبدار انٹرنیشنل میڈیا کا کہنا تھا کہ ڈرون ایک وسط ایشیائی ریاست سے کابل کیلئے اڑا لہٰذا اس ڈرون کو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی‘ لیکن انڈین میڈیا کی شرارت رنگ لائی اور اگلے ہی روز کابل میں پاکستان مخالف مظاہرہ ہوا۔ ڈرون حملے کے بعد یہ خبر بھی آئی کہ ایمن الظواہری‘ جو اسامہ بن لادن کا جانشین تھا‘ کابل کے ایک پوش علاقے میں سراج الدین حقانی کے گھر میں مقیم تھا۔ ممکن ہے کہ یہ گھر کرائے پر لیا گیا ہو لیکن یہ خبر مغربی ممالک کے طالبان کے بارے میں رویے کو مزید سخت کرے گی اور مغربی ممالک طالبان کیلئے اس لیے اہم ہیں کہ وہاں کابل حکومت کے بہت سے بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں۔
عمر خالد خراسانی کا قتل ہمارے لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ پاکستانی تھا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے بانی ارکان میں سے تھا۔ 2014 ء میں ملا فضل اللہ سے علیحدہ ہوا اور اپنی جماعت احرار بنائی۔ عمر خالد خراسانی کی موت سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔لیکن اہم سوال یہ بھی ہے کہ افغان طالبان نے دہشت گرد لیڈروں کو پناہ کیوں فراہم کی؟ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج کے طالبان انٹرنیشنل حالات سے بے خبر ہیں۔ آج کے افغان طالبان 1990ء کی دہائی والے طالبان سے کہیں زیادہ باخبر ہیں۔ آج کابل میں تقریباً پندرہ سفارت خانے اور انٹرنیشنل تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بیرونی دنیا سے بات چیت کیلئے طالبان کئی سالوں سے قطر آتے جاتے رہے ہیں۔ کیا طالبان نہیں چاہتے کہ اُن کے مغربی ممالک سے تعلقات بہتر ہوں؟ کیا وہ نہیں چاہتے کہ ہمسایہ ممالک‘ بشمول پاکستان‘ کے ساتھ دوستانہ رشتے ہوں؟ ایک مغربی مبصر کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے مابین نظریاتی اور لسانی بندھن اب بھی مضبوط ہے۔
پاکستان میں ایک سال پہلے کئی مبصرین نے بھانپ لیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی کالعدم ٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ پچھلے ایک سال میں پاکستان کی مغربی سرحد پر طالبان کی منفی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ مقامی طالبان پاکستان میں بھی افغانستان کی طرز کا نظام لانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے سوادِاعظم کو یہ نظام قبول نہیں۔ ہمارے لوگ آئینِ نو سے ڈرنے والے نہیں جبکہ طالبان قرونِ وسطیٰ میں رہنا چاہتے ہیں۔آج کا افغانستان اپنے تمام تر استحکام کے باوجود بڑے گمبھیر مسائل کا مسکن ہے۔ وہاں پچھلے ایک سال میں غربت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے والدین نے بچوں کو سکول بھیجنا بند کردیاہے کیونکہ وہ ان کی کتابوں اور سٹیشنری کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ ایک انٹرنیشنل تنظیم جو افغانستان میں آج بھی فعال ہے؛ Save the Children‘ اس کا کہنا ہے کہ آج کے افغانستان میں بچوں کی بڑی تعداد رات کو بھوکی سوتی ہے اور ان میں بیشتر لڑکیاں ہیں۔
2020ء کے دوحہ معاہدے میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بنے گا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اسی طرح وسیع تر حکومت اور خواتین کے بارے میں وعدے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوئے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاک افغان تجارت پھر سے بڑھنے لگی ہے اور ستر سال میں پہلی مرتبہ افغانستان سے پاکستان کو برآمدات درآمدات سے زائد ہیں۔ اقتصادی ترقی صنعتوں کا قیام اور جدید علوم اسلام کی نفی نہیں۔ اس سوچ کو اپنا کر طالبان نہ صرف اپنے چار کروڑ عوام کا بھلا کریں گے بلکہ ہمسایہ ممالک بشمول ایران اور پاکستان کی ترقی کا سبب بھی بنیں گے۔ افغانستان پورے خطے کیلئے تجارت کے نئے راستے کھول سکتا ہے اور انرجی کے وسائل‘ جو اس کی مغربی سرحد سے ذرا ہی دور بحیرہ قنروین (Caspian Sea) میں موجود ہیں‘ یہ افغانستان کے راستے پاکستان لائے جا سکتے ہیں اور ہماری ترقی کو مہمیز لگانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں