"JDC" (space) message & send to 7575

پاک سعودی تعلقات کا مستقبل

پاکستان اور برادر ملک سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں اور یہ رشتہ کبھی ختم نہ ہونے والا ہے۔ کروڑوں پاکستانی خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں‘ لاکھوں ہر سال حج اور عمرہ کے لیے جاتے ہیں‘ البتہ ہمارا موضوع دینی تعلق کے علاوہ مادی تعاون یعنی تجارتی سرگرمی‘ علاقائی امن کے لیے مشترکہ کوشش اور عسکری تعاون پر بھی محیط ہے۔ پچھلے ہفتے اسی موضوع پر ایک سیمینار میں ایک تجربہ کار مبصر کا کہنا تھا کہ پاک سعودی تعلقات ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ مجھے اس رائے سے اختلااف ہے۔ ہمارے دوطرفہ تعلقات کو کچھ چیلنج درپیش ہیں اور ان کا ادراک اور علاج ضروری ہے۔ حقیقت کو نظر انداز کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں قیادت کنگ عبدالعزیز کے بیٹوں سے ان کے پوتوں میں منتقل ہو رہی ہے۔ شاہ فیصل مرحوم سے لے کر موجودہ فرمانروا خادم الحرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز تک تمام حکمران پاکستان سے بخوبی واقف تھے۔ انہیں یقین تھا کہ پاکستان سعودی عرب کا دایاں بازو ہے اور مصر بایاں بازو۔ 1980ء کی دہائی میں دونوں ممالک نے افغانستان میں سوویت جارحیت کے مقابلے کے لیے خوب تعاون کیا۔ 1998ء میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو سعودی قیادت بہت خوش نظر آئی‘ لیکن آج کے معروضی حالات کچھ اور ہیں۔ اپنے سیاسی عدم استحکام اور کمزور معیشت کی وجہ سے پاکستان کی عالمی اہمیت روبہ زوال ہے۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا کا ترقی کی جانب سفر پچھلے تیس سال سے جاری ہے۔ دنیا میں کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہ انڈین اوریجن کے لوگ ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ترقی کے پنڈت نہرو کے خواب کی تعبیر نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ خلیجی ممالک کے آج کے لیڈر انڈیا کو سرمایہ کاری کے لیے محفوظ منزل سمجھتے ہیں اور اقتصادی عنصر بین الاقوامی تعلقات میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان نے مل کر ایک عرصے تک اسلامی ممالک میں تعاون بڑھانے کی کوشش کی۔ 1969ء میں یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگائی تو تمام مسلم ممالک سراپا احتجاج تھے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی بنانے میں پاکستان اور سعودی عرب آگے آگے تھے۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر جدّہ میں قائم ہوا۔ اسرائیل کا تجارتی بائیکاٹ ہوا جو لمبے عرصے تک چلا مگر آج او آئی سی کے چھ ممبر ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ خلیجی ممالک کی سوچ میں تبدیلی کا ایک اہم عنصر ایران کا خوف بھی ہے۔ مسلم ممالک کے مابین تعلقات میں نظریاتی عنصر کمزور ہوا ہے جبکہ زمینی حقائق اور خطے کی صورت حال غالب نظر آ رہی ہے۔
ماضی میں خلیجی خطے کی سکیورٹی کا ضامن بڑی حد تک امریکہ تھا۔ امریکہ اور یورپ کے انرجی وسائل زیادہ تر خلیجی ممالک سے آتے تھے۔ اب امریکہ خود آئل کا بڑا پروڈیوسر ہے۔ آج امریکہ کی سب سے بڑی ترجیح چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنا ہے۔ مقابلے کی اس دوڑ میں خلیجی ممالک نیوٹرل ہیں۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کا چین اور روس دونوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور مڈل ایسٹ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ بڑی طاقتوں کے اس کھیل سے کیا پاک سعودی تعلقات متاثر ہوں گے‘ میرا جواب یہ ہے کہ کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ہمارے چین اور روس سے بھی اچھے تعلقات ہیں لیکن 1980ء کی دہائی میں اور پھر نائن الیون کے بعد امریکہ کے لیے جو پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت بنی تھی اُس میں کمی ضرور آئی ہے‘ ان دونوں ادوار میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں بھی خاصی گرمجوشی تھی۔ اگر کبھی پاک امریکہ تعلقات میں شدید تناؤ کی کیفیت آتی تھی تو امریکہ سعودی عرب کو پیغام رسانی کے چینل کے طور پر استعمال کرتا تھا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے بدلتے حالات میں پاک سعودی تعلقات کو مستقبل میں کیسے مضبوط بنایا جائے۔ بدلتے حالات میں آپ انڈین فیکٹر کو بھی نہ بھولیں۔ 2020ء میں انڈین آرمی چیف اور بھارتی وزیراعظم کے سعودی عرب کے دورے اس بات کے غماز تھے کہ سعودی عرب اب انڈیا اور پاکستان دونوں سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور ہمیں اس نئی سوچ پر قطعاً اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے تعلقات پھر سے مضبوط تر کرنے کی حکمت عملی بنانا ہوگی۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم عنصر بیس لاکھ ورکرز ہیں جو سعودی عرب کی اکانومی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور انہی کی وجہ سے زرمبادلہ کی ہماری بیرونی ترسیلات میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ سعودی عرب کی اکانومی بھی بدل رہی ہے۔ وژن 2030ء سعودی معیشت میں تنوع پیدا کرنے پر مرکوز ہے تاکہ تیل پر انحصار کم کیا جائے۔ بحیرہ احمر پر بننے والا نیوم سٹی اپنی نوعیت کا منفرد شہر ہوگا۔ شہر کو آلودگی سے بچانے کے لیے یہاں ذاتی کاروں کا استعمال ممنوع ہوگا۔ مصنوعی ذہانت‘ کمپیوٹر انٹرنیٹ‘ روبوٹ کا استعمال عام ہوگا۔ ٹرانسپورٹ بجلی پر چلے گی۔ ہمارے لیے اب بے حد ضروری ہے کہ اس بدلتی ہوئی سعودی اکانومی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے واقف اور تربیت یافتہ ورکرز سعودی عرب کے لیے تیار کریں۔
پاک سعودی تجارت کا کل حجم دو ارب ڈالر ہے اور یہ ہمارے مضبوط سیاسی تعلقات کا عکاس نہیں۔ سعودی عرب کی برآمدات تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر ہیں جبکہ ہماری برآمدات نصف ارب ڈالرز کے مساوی ہیں‘ لہٰذا ادائیگیوں کا توازن درستی کا تقاضا کرتا ہے اور یہ اصلاح ممکن ہے‘ دونوں ممالک کے پرائیویٹ سیکٹرز کو قریب تر لانے کی اشد ضرورت ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ ہمارے سرجری کے آلات پاکستان سے برآمد ہو کر پہلے یورپ جاتے ہیں اور پھر دوسرے ممالک کو ری ایکسپورٹ ہوتے ہیں‘ اگر یہ ایکسپورٹ آئٹم ڈائریکٹ سعودی مارکیٹ میں جائے تو دونوں برادر ممالک کا فائدہ ہوگا۔
افغان امن اور استحکام میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں دلچسپی رکھتے ہیں۔ افغانستان کو گوناگوں اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مغرب میں منجمد افغان مالی اثاثوں کو ریلیز کرایا جائے اور یہ تب ممکن ہوگا جب کابل میں قائم طالبان حکومت انٹرنیشنل مطالبات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ کابل میں قائم حکومت میں تمام لسانی گروہوں کی نمائندگی ہو۔ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کا حق حاصل ہو۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں ان مطالبات کے حق میں ہیں۔ افغان حکومت کو اس جانب مائل کرنے کے لیے دونوں برادر ممالک کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔سعودی عرب سے ہمارا روحانی رشتہ ابدی ہے۔ ہر پاکستانی حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے اپنے خطے میں بحری تجارتی جہازوں کی حفاظت دونوں ممالک کا مشترکہ نصب العین ہے۔
جب سی پیک آپریشنل ہو جائے گا تو ہمارے دونوں ممالک کا چین کے ساتھ سہ فریقی تعلق ہو جائے گا۔خارجہ پالیسی اور اندرونی صورت حال ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کمزور معیشت آئیڈیل خارجہ تعلقات میں حائل ہیں۔ اگر سعودی عرب کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنا ہے تو ہمیں ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا تاکہ ہر منتخب حکومت مدت پوری کرے اور ہاں کشکول توڑنا بے حد ضروری ہے۔ بدلتی دنیا میں نئی سوچ اور نئی حکمت عملی درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں