"JDC" (space) message & send to 7575

ایک عظیم شخص کی رحلت

ڈاکٹر ہمایوں خان بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ کسی عام شخص کی دارِ فانی سے رحلت نہیں ہے بلکہ ایک ایسے بڑے انسان اور شاندار سول سرونٹ کا انتقال ہوا ہے جسے نابغۂ روزگار کہنا مبالغہ نہیں ہوگا۔ و ہ 1932ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ ایڈورڈ کالج پشاور اور کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ 1955ء کے سول سروس امتحان میں پورے پاکستان میں ٹاپ کیا۔ 1972ء میں فارن سروس جائن کی اور فارن سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے۔
سروس کا ابتدائی دور نوشہرہ‘ مالاکنڈ اور قبائلی علاقے میں گزرا۔ پھر پشاور میں ہوم سیکرٹری رہے۔ امریکہ سے پی ایچ ڈی کی تو نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگ گیا۔ اس قدر قابلیت اور ذہانت کے باوجود طبیعت میں انکسار تھا۔ اپنے جونیئر افسروں اور سٹاف کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ میں جمعرات کے روز ان کے جنازے میں شریک تھا۔ اُن کے رفقائے کار ان کی کارکردگی اور شفقت کے قصے سنا رہے تھے۔ سب سے زیادہ معلومات سابق سفیر شفقت کاکا خیل کے پاس تھیں جو نیو دہلی میں ان کے ساتھ ڈپٹی ہائی کمشنر رہے تھے۔ لوگ ہمہ تن گوش تھے اور رخصت ہونے والے عظیم شخص کے قصے سُن رہے تھے۔
ڈاکٹر ہمایوں خان ڈھاکہ‘ نیو دہلی اور لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ تینوں جگہ آج بھی ان کے کئی دوست اور مداح ہیں۔ وفات پر تعزیت کے کئی پیغامات بھارت سے آئے ہیں۔ وہ پاک بھارت امن کے بڑے داعی تھے اور تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے تھے۔ معروف بھارتی دانشور پارتھا سارتھی کے ساتھ مل کر Diplomatic Divide کتاب لکھی‘ جس میں دونوں مصنفین نے پاک بھارت مسائل پر اپنا اپنا موقف صراحت سے بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر ہمایوں خان 1984ء میں بھارت پہنچے تو اندرا گاندھی وزیراعظم تھیں۔ مختصر عرصے میں اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی سے ڈاکٹر صاحب کے دوستانہ مراسم ہو گئے۔ اسی زمانے میں بھارت نے پاکستان بارڈر پر بہت بڑی فوجی مشق کرنے کا پلان بنایا۔ یہ بھارتی آرمی چیف جنرل سندر جی کی ذہنی اختراع تھی کہ تازہ ترین اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ یہ ٹیسٹ کیا جائے کہ بھارتی فوج کتنی جلدی پاکستانی سرحد پر مورچے سنبھال سکتی ہے۔ اُدھر پاکستان نے بھی اپنی فوجیں بارڈر پر تعینات کر دیں۔ دونوں ملکوں میں شدید عسکری تناؤ تھا۔ اتنے میں وزیراعظم راجیوگاندھی کی کسی بیرون ملک دورے سے واپسی ہوئی۔ پروٹوکول یہ تھا کہ غیرملکی سفراء وزیراعظم کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ جاتے تھے۔ راجیوگاندھی نے جیسے ہی ڈاکٹر ہمایوں خان سے ہاتھ ملایا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دونوں ممالک میں تناؤ عروج پر ہے جو اچھی بات نہیں۔ راجیوگاندھی کا جواب تھا: سفیر صاحب میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب واپس ہائی کمیشن آئے اور اپنے پریس قونصلر کو کہا کہ جلد از جلد بھارتی میڈیا کو بلا کر پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر صاحب نے بھارتی میڈیا کو مطلع کیا کہ آپ کے وزیراعظم نے میری اس بات سے مکمل اتفاق کیا ہے کہ سرحدوں پر تناؤ کم ہونا چاہیے اور پھر واقعی دونوں جانب سے افواج کی واپسی شروع ہو گئی۔ اس واقعے سے جنرل ضیاء الحق ڈاکٹر ہمایوں خان کی بطور سفارت کار قابلیت سے بڑے متاثر ہوئے اور انہیں فارن سیکرٹری کے عہدے پر تعینات کیا۔
ڈاکٹر صاحب بے حد نفیس اور عزتِ نفس والے انسان تھے۔ اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی لیڈروں کے ساتھ تعلقات بنانے کا وہ سوچتے بھی نہیںتھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے اور اپنے کام کو وہ خوب جانتے تھے۔ سابق سفیر اقبال احمد خان فارن سیکرٹری کے آفس ڈائریکٹر تھے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ لندن میں برٹش فارن آفس میں مذاکرات کا راؤنڈ تھا‘میں اور ڈاکٹر صاحب لندن روانہ ہوئے‘ فلائٹ لیٹ ہو گئی اور ہمیں ہیتھرو ایئر پورٹ سے آفیشل بات چیت کے لیے سیدھا برٹش فارن آفس جانا پڑا۔ مذاکرات دو تین گھنٹے چلے۔ حسبِ معمول ڈاکٹر صاحب کی پرفارمنس شاندار تھی۔ ان کے برطانوی ہم منصب بہت متاثر ہوئے کہ اتنے طویل سفر کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب مکمل روانی سے بے تکان بولے اور اپنے ملک کی پوزیشن واضح طور پر بیان کی۔
شومئی قسمت سے ہمارے سیاسی لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ سول سرونٹ کو ان کے احکام کی فی الفور بجا آوری کرنی چاہیے‘ وہ احکامات رولز کے مطابق ہیں یا نہیں‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ 1989ء کی بات ہے۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ اسلام آباد کے ایک معروف تعلیمی ادارے کی مالکہ ان کی گہری دوست تھیں اور نیو یارک میں قونصل جنرل متعین ہونا چاہتی تھیں۔ وزیراعظم نے فارن سیکرٹری کو کہا کہ خاتون کے نیویارک کے آرڈر ایشو کیے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب اصولوں کے آدمی تھے اور نڈر بھی۔ ان کا جواب تھا کہ قونصل جنرل نیویارک کوئی حاضر سروس افسر ہی لگ سکتا ہے۔ لیڈر شپ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ ڈاکٹر صاحب کو فارن سیکرٹری کا منصب چھوڑنا پڑا لیکن ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ڈاکٹر صاحب اُن چند بڑے لوگوں میں سے تھے جن کے لیے ان کے اصول عہدوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
مرحوم ڈاکٹر صاحب‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھی زیرِ عتاب آئے۔ غالباً 1992ء کی بات ہے‘ ہمارے وزیراعظم برطانیہ کے سرکاری دورے پر گئے‘ ڈاکٹر ہمایوں خان وہاں ہائی کمشنر تھے‘ وزٹ پروگرام میں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں عشائیہ بھی شامل تھا۔ روانگی سے قبل ہی وزیراعظم آفس سے لندن ہائی کمیشن کو احکامات جاری ہوئے کہ برطانیہ میں مقیم فلاں پاکستانی بزنس مین کو مدعوئین کی لسٹ میں شامل کرایا جائے؛ چنانچہ برطانوی حکومت سے درخواست کی گئی۔ جواب ملا کہ ہمارے پروٹوکول کے مطابق یہ ممکن نہیں۔ وزیراعظم کے ذہن میں یہ بات سما گئی کہ ہائی کمیشن نے پوری کوشش ہی نہیں کی۔
اس سے آگے جو واقعہ ہوا وہ زیادہ دلچسپ ہے۔ سرکاری دوروں میں تمام تفاصیل پہلے سے طے کر لی جاتی ہیں۔ شروع میں طے تھا کہ عشائیہ کے بعد تقریریں نہیں ہوں گی لیکن جب عشائیہ کا وقت قریب آیا تو اطلاع آئی کہ برطانوی وزیراعظم مختصر سی تقریر کریں گے۔ اب میاں صاحب کے لیے انگریزی میں جوابی تقریر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ تقریر ٹائپ کرنے کا وقت بھی نہیں تھا؛ ڈاکٹر صاحب نے ایک کاغذ پکڑا اور اپنے ہاتھ سے جوابی تقریر لکھ کر عشائیہ کے دوران میاں صاحب کے سامنے رکھ دی۔ ڈاکٹر صاحب کے مشکل الفاظ اور مخصوص خط نے میاں صاحب کے لیے بڑی مشکل کھڑی کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹر صاحب کو لندن سے واپس اسلام آباد بلا لیا گیا۔ انگریز ان کی قابلیت سے بخوبی واقف تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد انہیں کامن ویلتھ آفس میں اعلیٰ عہدہ مل گیا۔
ڈاکٹر صاحب قابل افسر ہونے کے علاوہ ایک انتہائی شفیق سینئر بھی تھے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے افسر اور سٹاف ممبران کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی شفقت کا تجربہ تب ہوا جب ہماری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ لمبا قصہ ہے پھر کبھی مذکور ہوگا۔ ایک بات یقینی ہے کہ مرحوم ان لوگوں میں سے تھے جو صرف خیر ہی خیر پھیلاتے ہیں اور ان کی وجہ سے کبھی دشمن کو بھی نقصان نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب نے نوے سال کی طویل عمر پائی لیکن نجانے کیوں یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ جلدی داغِ مفارقت دے گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں