"JDC" (space) message & send to 7575

شہرِ اقتدار میں بڑھتے جرائم

حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا پی ڈی ایم کی‘ وزیر داخلہ شیخ رشید ہوں یا رانا ثنا اللہ‘ شہرِ اقتدار جرائم کی زد میں رہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ شیخ رشید بیشتر اوقات ٹی وی چینلز کے ساتھ محوِ مکالمہ رہتے تھے تو رانا ثنا اللہ تحریک انصاف کا مکّو ٹھپنے میں مصروف رہتے ہیں۔ 2021ء اسلام آباد میں گھناؤنے جرائم کا سال تھا۔ عثمان مرزا کا کیس سامنے آیا جو خواتین کی عریاں تصویریں بنا کر انہیں بلیک میل کرتا تھا۔ اُسے کیا سزا ملی‘ مجھے معلوم نہیں۔ نور مقدم کا بہیمانہ قتل ہوا۔ تفاصیل پڑھ کر انسان لرز جاتا ہے۔ تمام شواہد کے باوجود ہمارا نظام ملزم کو ابھی تک کیفرِ کردار نہیں پہنچا سکا۔ ہمارے سیکٹر کے رہائشی اسامہ ستی کو پولیس نے سری نگر ہائی وے پر شہید کیا۔ کشمالہ طارق کی گاڑی نے اسی سڑک پر کئی جانیں لے لیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ مجرموں کو کیا سزا ملی اور اگر ہم جرائم کے بارے میں ایسے ہی تساہل سے کام لیتے رہے تو جرائم بڑھتے رہیں گے اور یہ ہمیں صاف نظر آ رہا ہے۔
حال ہی میں چک شہزاد کے ایک فارم ہاؤس میں ایک ظالمانہ قتل ہوا ہے اگر نور مقدم کے قاتل کو قرار واقعی سزا مل چکی ہوتی تو شاید اس بنتِ حوّا کی جان بچ جاتی۔ ہمارے سیکٹر جی 13 میں چھوٹے جرائم مثلاً نقدی چھیننا اور پستول دکھا کر موبائل لے لینا عام ہیں۔ سیوریج گٹروں کے ڈھکنے تسلسل سے چرائے جاتے ہیں اور تو اور لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کی تاریں تک کاٹ لی جاتی ہیں۔ ایک دن کار چوری ہوتی ہے اور اگلے روز فون آ جاتا ہے کہ اتنے روپے لے آئیں اور فلاں جگہ سے اپنی گاڑی سے لے لیں۔ ابھی دو دن پہلے ایک چینی باشندے کی کار چوری ہوئی ہے جو اس نے رینٹ اے کار سے کرایہ پر لی ہوئی تھی۔
جرائم کی زد میں آئے ہوئے غیرمحفوظ سیکٹر کے مکینوں نے فیصلہ کیا کہ آئی جی صاحب سے مل کر انہیں صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔ ایک اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جی 13سیکٹر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو مختلف تھانوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس غلط فیصلے سے مزید مسائل نے جنم لیا ہے۔ آئی جی سیکٹر اکبر ناصر خان سے ہمارا چار رکنی وفد 19اپریل کو ملا۔ بہت پُرتپاک انداز سے ملے۔ مسائل غور سے سنے۔ فوراً ڈی آئی جی صاحب کو طلب کیا تاکہ آپریشنل لیول پر بھی مسائل کا ادراک ہو جائے۔ بات چیت کے دوران آئی جی صاحب نے دو قابلِ غور باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے شہرِ اقتدار کی آبادی بڑھی ہے‘ نئے سیکٹر بنے ہیں‘ پولیس کے نفری اور وسائل اس تناسب سے نہیں بڑھے‘ لہٰذا اگر آپ لوگ ان وسائل کے ساتھ پولیس سے فول پروف سکیورٹی کی توقع کریں گے تو یہ پولیس کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ میرا جواب یہ تھا کہ جب نئے سیکٹر آباد ہوتے ہیں تو وہاں کے مکین انکم ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس بھی دیتے ہیں‘ اس عمل سے حکومت کو اضافی ا ٓمدنی ملتی ہے‘ حکومت کا فرض ہے کہ یہ اضافی وسائل سکیورٹی کے لیے بھی شیئر کرے۔
آئی جی صاحب کا کہنا تھا کہ میں ابھی نووارد ہوں‘ اسلام آباد کی سکیورٹی کا بغور جائزہ لے رہا ہوں۔ شہرِ اقتدار کا صرف 30 فیصد کرائم ایف سیکٹرز میں ہوتا ہے جہاں متمول لوگ رہتے ہیں۔ گھر بڑے ہیں۔ اکثر مکینوں نے گھروں میں کیمرے لگائے ہوئے ہیں۔ باقی 70 فیصد جرائم جی‘ ایچ اور آئی سیکٹرز میں ہوتے ہیں۔ جہاں متوسط درجے کے لوگ رہتے ہیں۔ سکیورٹی کیمرے کم ہیں۔ منطقی بات تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ جن علاقوں میں 70 فیصد کرائم ہوتا ہے وہاں پولیس کی 70 فیصد نفری تعینات ہوتی مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ جی 13 کے پڑوس میں جی 12 ہے جہاں نہ گلیوں کے نمبر ہیں اور نہ مکانوں کے۔ متحرک آبادی (Floating population) اچھی خاصی ہے۔ یہ جرائم پیشہ لوگوں کی جنت ہے اور ان کے لیے جی 13 اور جی 14 کی حیثیت پر کٹے ہوئے پرندے یا Sitting Duck والی ہے‘ جسے آسانی سے دبوچا جا سکتا ہے۔ آئی جی صاحب کی باتوں سے ایک تاثر یہ ملا کہ ''جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا‘‘۔
اب جی 13 میں بھی لوگ دھڑا دھڑ کیمرے لگوا رہے ہیں کیونکہ پولیس پٹرولنگ بہت کم ہو گئی ہے؛ چنانچہ یہ سیکٹر وارداتیوں کی جنت بن چکا ہے۔ اسی سیکٹر میں 2010ء میں میرے گھر میں مسلح ڈکیتی کی واردات ہوئی تھی۔ ڈاکو مسروقہ موبائل فونوں کی کالز سے ٹریس ہو گئے۔ یہ اٹھمقام آزاد کشمیر کے رہائشی نکلے۔ آزاد کشمیر میں بھی اشتہاری تھے اور اسلام آباد میں بھی۔ ان میں سے ایک ڈاکو بشیر ولد اکبر گرفتار بھی ہوا۔ اڈیالہ جیل میں شناخت پریڈ میں میری بیوی نے اور میں نے علیحدہ علیحدہ اس کی شناخت کی مگر پھر اس کی ضمانت ہو گئی۔ ہمارا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ جو شخص پولیس سے تعاون کرنے کی سکت رکھتا ہو یا اچھا وکیل کر سکتا ہو وہ قانون کی گرفت میں کم ہی آتا ہے۔ آپ جیل جاکر سزا یافتہ لوگوں سے ملیں آپ کو وہاں شاید ہی کوئی امیر آدمی ملے۔ میرے گھر 2010ء میں آنے والے ڈاکو چونکہ اپنے پیشے کی بدولت خوشحال ہیں‘ لہٰذا وہ قانون کی گرفت میں شاید کبھی نہ آ سکیں۔ ہماری ایف آئی آر تھانہ گولڑہ میں کہیں دفن ہو چکی ہے۔
میں نے کئی سال مڈل ایسٹ میں گزارے ہیں‘ خلیجی ممالک میں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ پولیس مستعد اور بااختیار ہے۔ کوئی مجرم قانون کی گرفت میں آ جائے تو کوئی بڑے سے بڑا شخص اسے چھڑا نہیں سکتا۔ عدالتیں جلد فیصلے کرتی ہیں۔ فوجداری مقدمات میں سعودی عرب میں وکیل کرنے کی اجازت نہیں‘ فریقین عدالت میں خود حاضر ہو کر اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ اس وجہ سے فیصلے جلدی ہو جاتے ہیں۔ تاریخوں پر تاریخیں نہیں پڑتیں۔
خلیجی ممالک میں چونکہ میڈیا پر حکومتی کنٹرول ہے‘ لہٰذا تمام حکومتیں جرائم کے وقوعے کی تشہیر کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ اکثر جرائم کا میڈیا میں ذکر تک نہیں آتا۔ البتہ جب مجرم پکڑے جاتے ہیں اور انہیں سزا ہو جاتی ہے تو اخبارات پوری تفصیل سے لکھتے ہیں کہ مجرموں کو پولیس نے کیسے گرفتار کیا۔ جس زمانے میں مَیں ریاض میں تھا تو وہاں سزائے موت شہر کے مرکز میں‘ لوگوں کے سامنے دی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں کے جان و مال وہاں محفوظ ہیں۔
پاکستان میں جیسے ہی کوئی بڑا جرم ہوتا ہے میڈیا میں طوفان آ جاتا ہے اور پھر کوئی اُس سے بڑا جرم ہو جاتا ہے تو میڈیا پچھلے وقوعے کو بھول جاتا ہے۔ کوئی بھی فوجداری جرم دراصل ریاست کے خلاف جرم ہوتا ہے۔ ہماری اسلام آباد پولیس دھرنوں پر بھی ڈیوٹی دیتی ہے۔ اعلیٰ شخصیات کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ روٹ لگا ہو تو سینکڑوں کانسٹیبلز بڑی شخصیت کے سفری راستے پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن عام شہری کے جان و مال کی حفاظت پر ان کی توجہ کم ہی ہوتی ہے۔ میرے گھر میں واردات کرنے والے جب قانون کے شکنجے میں نہ آ سکے تو متعلقہ ڈی ایس پی نے مجھے کہا تھا: سر کیا کریں‘ آپ کی قسمت ٹھنڈی ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ پورے اسلام آباد کی قسمت ٹھنڈی ہے‘ خاص طور پر اُن لوگوں کی جو 70 فیصد جرائم والے حصّے میں مقیم ہیں۔ صرف میری ہی نہیں بے شمار ایف آئی آرز اسلام آباد کے تھانوں میں دفن ہو چکی ہیں تو چہ عجب کہ اسلام آباد میں جرائم بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور پولیس بے بس ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں