"JDC" (space) message & send to 7575

نیلسن منڈیلا کے دیس میں … (2)

تاریخ اور جغرافیہ یورپی اقوام کی دلچسپی میں ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ہالینڈ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ پرتگال اور سپین‘ سب سمندروں پر تسلط جمانے میں مصروف تھے۔ سمندری جہاز رانی کے لیے جنوبی افریقہ بہت اہم تھا۔ مشرق اور مغرب کے درمیان چلنے والے تمام جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے تھے۔ آج بھی جنوبی افریقہ میں پندرہ فیصد آبادی یورپی نژاد لوگوں کی ہے۔ تقریباً اتنی ہی تعداد میں گندمی رنگت کے لوگ بھی ہیں جو انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور بھارت سے آئے تھے یا غلاموں کی شکل میں لائے گئے تھے۔ اسی نسلی تنوع کی وجہ سے جنوبی افریقہ کو قوسِ قزح کا ملک یا Rainbow Nation کہا جاتا ہے۔ سوئز کینال بننے کے بعد جنوبی افریقہ کی سمندری تجارت کے حوالے سے اہمیت کم ضرور ہوئی لیکن یہ اب بھی کئی دوسرے حوالوں کی وجہ سے اہم ہے۔
کیپ ٹاؤن ہنستے کھیلتے اور زندہ دل لوگوں کا شہر ہے۔ جنوبی کرۂ ارض میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں کے موسم ہمارے موسموں کے برعکس ہیں۔ میں جب دسمبر کے آغاز میں وہاں پہنچا تو موسمِ گرما چل رہا تھا لیکن معتدل قسم کا۔ کیپ ٹائون میں ایئر کنڈیشنز استعمال ہی نہیں ہوتے‘ پنکھے بھی کم کم ہی چلتے ہیں‘ البتہ ہوا بہت تیز چلتی ہے جو مغرب کے وقت مزید شدید ہو جاتی ہے۔ ہم کیپ ٹائون سے باہر ڈرائیو کے لیے گئے تو دیکھا کہ گندم کی تازہ تازہ کٹائی ہوئی تھی اور گانٹھیں ابھی کھیتوں میں پڑی ہوئی تھیں۔
جنوبی افریقہ دلچسپ تضادات کا ملک ہے۔ سڑکیں عام طور پر کشادہ اور اعلیٰ کوالٹی کی ہیں۔ صفائی کا معیار بھی اچھا ہے لیکن غریب بستیوں کے باہر آپ کو کچرے کے ڈھیر بھی نظر آ جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ خوش حال ہیں‘ خاص طور پر سفید فام لوگوں کا معیارِ زندگی یورپ اور شمالی امریکہ سے کسی طور کم نہیں لیکن میں نے غریب لوگوں کو کچرے میں سے اشیائے خوردنی تلاش کرتے بھی دیکھا۔ میں نے چند ایک سیاہ فام نوجوانوں کے سامنے کے ایک دو دانت ٹوٹے دیکھے تو وجہ دریافت کی۔ ایک صاحب جو وہاں عرصے سے مقیم ہیں‘ کہنے لگے کہ یہاں شراب نوشی عام ہے‘ یہ لوگ نشے کی حالت میں لڑتے لڑتے ایک دوسرے کے دانت توڑ دیتے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی سے جنسی تشدد کو بھی فروغ ملتا ہے۔ یہ مرض اس قدر عام ہے کہ جنسی مساوات اور رواداری کو اب باقاعدہ نصاب کا حصہ بنادیا گیا ہے تاکہ اس غلط رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
جنوبی افریقہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بحر اوقیانوس اور بحر ہند یہاں ملتے ہیں۔ مچھلی اور جھینگے کی انواع و اقسام یہاں ملتی ہیں۔ میں نے تیمور کی بیگم ریشم کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ کھانا میں گھر میں پکا ہوا ہی پسند کرتا ہوں۔ اس نے بھی انواع و اقسام کے کھانے گھر میں تیار کیے لیکن جب مجھے پتا چلا کہ یہاں بعض ریستوران صرف سمندری کھانوں کے لیے مختص ہیں تو میں نے یہ قسم توڑ دی۔ وہاں اعلیٰ قسم کے ریستورانوں میں ایک کھلا تضاد صاف نظر آیا اور وہ یہ کہ کھانے کی میزوں پر بیشتر لوگ سفید فام تھے جبکہ سروس کرنے والے ویٹر عمومی طور پر سیاہ فام تھے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 1994ء سے یہاں سیاہ فام لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ وہ ترقی تو کر رہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ۔ مجھے لگا کہ یہ سہل اندام لوگ ہیں جو غربت میں بھی مست ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی طبقے میں جرائم پیشہ لوگ زیادہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کیپ ٹائون میں اے ٹی ایمز غروبِ آفتاب کے بعد بند کر دی جاتی ہیں۔
اب چلتے ہیں اُس جیل کی طرف جہاں نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے متعدد سال قیدِ تنہائی میں کاٹے۔ یہ جیل ایک جزیرے روبن آئی لینڈ پر بنائی گئی ہے۔ کیپ ٹائون سے روزانہ تین بحری جہاز سیاحوں کو لے کر اس جزیرے کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ جہاز آدھے گھنٹے میں روبن آئی لینڈ پر پہنچ جاتا ہے۔ جیل کو اب میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب یہ ریونیو کمانے کا معقول ذریعہ بن چکی ہے۔ جزیرے پر سیاحوں کے لیے چند سوونیئر کی دکانیں اور ریستوران ہیں۔ جزیرے پر جانے والے بحری جہاز میں میرے ساتھ ایک نوجوان امریکی خاتون بیٹھی تھی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سافٹ ویئر انجینئر تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ اتنی دور سیاحت کے لیے اکیلی کیسے آئی ہو؟ جواب ملا کہ میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ آئی ہوں جو اس وقت کیپ ٹائون میں ایک کانفرنس میں مصروف ہے۔ خاتون بتا رہی تھی کہ میری شادی دو سال پہلے ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا: تمہارا خاوند کیوں نہیں آیا؟ بولی: وہ ہمارے پالتو کتے کی گھر میں دیکھ بھال کر رہا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ آج کل تو پالتو کتوں کے ہاسٹل بن گئے ہیں۔ اس کا جواب تھا کہ امریکہ میں یہ سروس بہت مہنگی ہے۔ جنوبی افریقہ کے لوگ بھی کتا رکھنے کے بہت شوقین ہیں۔ شاید یہ سکیورٹی کے حالات کے پیش نظر ہو۔ دن کے وقت جب میاں بیوی کام پر اور بچے سکول روانہ ہو جاتے ہیں تو کتے کو ہاسٹل میں آٹھ دس گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن جنوبی افریقہ میں پالتو جانوروں کے ہاسٹل امریکہ اور یورپ کی نسبت سستے ہیں۔
جزیرے پر پہنچ کر ہمیں جیل دکھائی گئی۔ ہمارا گروپ تقریباً پچاس لوگوں پر مشتمل تھا۔ زیادہ تر سیاح یورپ سے آئے ہوئے تھے۔ اُس جیل میں دوطرح کے کمرے ہیں۔ بڑے کمروں میں بیس سے تیس قیدی رکھے جاتے تھے‘ انہیں دو منزلہ بیڈ بھی ملتے تھے۔ 70سالہ مسٹر موسیٰ وہاں ہمارا گائیڈ تھااور وہ اس جیل میں قید کاٹ چکا ہے۔ وہ بڑی روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ ویسے بھی یہاں تقریباً ہر شخص انگریزی جانتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں شرح خواندگی 95 فیصد ہے۔ اُس جیل میں رکھے جانے والے قیدیوں کی دو قسمیں ہوتی تھیں۔ ایک عام قیدی اور دوسرے خطرناک قیدی۔ سیاسی قیدی بھی خطرناک سمجھے جاتے تھے۔ نیلسن منڈیلا کو خطرناک قیدی تصور کیا جاتا تھا لہٰذا قید ِ تنہائی اُن کا مقدر ٹھہری۔
ہم جیل کے اُس حصے میں بھی گئے جو انتہائی مختصر کمروں پر مشتمل ہے۔ نیلسن منڈیلا کے سیل میں صرف ایک چٹائی تھی‘ لیٹنے اور سونے کے لیے اور ایک بالٹی۔ یہ بالٹی اوپر سے ڈھکی ہوئی اب بھی وہاں پڑی ہوئی ہے۔ یہ اُن کے رفع حاجت کے کام آتی تھی۔ گائیڈ کا کہنا تھا کہ اس سیل میں منڈیلا بڑی مشکل سے لیٹ سکتے تھے۔ اُن کی قیدِ تنہائی کو مزید سخت کرنے کے لیے سیل کی کھڑکی باہر سے مقفل کر دی جاتی تھی تاکہ وہ سامنے والے قیدی سے بات تک نہ کر سکیں۔
اُس جیل میں قیدیوں کو تین قسم کا کھانا ملتا تھا۔ عام قیدیوں کا کھانا نسبتاً بہتر تھا‘ انہیں کبھی کبھار مچھلی بھی مل جاتی تھی۔ دوسرا کھانا منڈیلا جیسے قیدیوں کے لیے مختص تھا۔ اس میں کسی قسم کا گوشت شامل نہیں ہوتا تھا۔ دونوں طرح کے کھانوں کی تفاصیل اب بھی دیواروں پر آویزاں ہیں اور ہاں ایک تیسری قسم کا کھانا تھا جو سزا کے طور پر ملتا تھا۔ اس میں کوئی ٹھوس اجزا شامل نہیں ہوتے تھے اور یہ صرف ابلے ہوئے چاولوں میں سے نکالا ہوا پانی ہوتا تھا۔ جیل میں قیدیوں کے لیے باسکٹ بال کھیلنے کا کورٹ بھی تھا اور یہ اب بھی موجود ہے۔ اس کے گرد اونچی چار دیواری ہے تاکہ کورٹ کے باہر کسی شخص کے ساتھ پیغام رسانی ممکن نہ ہو سکے۔ سیاسی قیدیوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ مشقت کے لیے قیدیوں کو عمارتی پتھر تراشنے کے لیے تیشے اور ہتھوڑے دیے جاتے تھے اور انہیں صبح سے شام تک کام کرنا پڑتا تھا۔ قیدیوں کے خط لکھنے اور خط وصول کرنے کی بھی شرح مقرر تھی۔ خط باقاعدہ سنسر ہوتے تھے۔
اگلے کالم میں ہم کیپ ٹائون کے وسط میں جائیں گے جہاں غلاموں کی نیلامی ہوتی تھی۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں