"JDC" (space) message & send to 7575

اسرائیل اور عالمِ اسلام

1947ء میں اسرائیل کے قیام سے پہلے اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا پلان دیا۔ اس پلان کا مقصد فلسطین میں دو ریاستوں کا قیام تھا۔القدس کا شہر جسے یہودی یروشلم کہتے ہیں‘ کے لیے انٹرنیشنل کنٹرول تجویز کیا گیا تھا۔ عربوں نے اس تجویز کو رد کر دیا اور آج وہ وہی مانگ رہے ہیں جو 1947ء میں مسترد کر چکے تھے‘مگر اسرائیل نہیں مانتا۔
1948ء اور پھر 1967ء میں عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں جن میں اسرائیل واضح طور پر فاتح تھا۔ 1973ء کی جنگ تقریباً برابر رہی۔ 1967ء کی جنگ بہت سے عرب علاقے مثلاً گولان کی پہاڑیاں‘ دریائے اردن کا مغربی کنارہ‘ غزہ‘ صحرائے سینا اور القدس کا مشرقی حصہ اسرائیل کے قبضے میں آ گیا۔عرب لیگ کی قراردادوں کے مطابق عربوں نے ایک عرصے تک اسرائیل کا تجارتی بائیکاٹ جاری رکھا مگر آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔ آج عرب امارات بحرین اور مراکش اسرائیلیوں کو اپنے ہاں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔
1949ء میں ترکی عالم اسلام کا پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس سے اگلے سال ایران نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ایران اُس زمانے میں مغربی کیمپ میں تھا اور خطے کے عرب نیشنلسٹ لیڈروں سے خائف تھا۔ شاہ آف ایران کو اپنے قدم جمانے کے لیے امریکہ جیسی بڑی قوت کی سپورٹ درکار تھی۔ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد مصر نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا‘ اردن نے اوسلو معاہدے کے بعد 1994ء میں اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیے۔ 2020ء میں عرب امارات‘ بحرین‘ مراکش اور سوڈان بھی اسی صف میں کھڑے ہو گئے۔ خرطوم میں البتہ ابھی تک اسرائیلی سفارت خانہ نہیں کھلا کیونکہ سفارتی تعلقات کے سلسلہ میں ایک آئینی رکاوٹ حائل ہے۔
پچھلے سال مغربی کنارے پر 224 بے گناہ فلسطینی مارے گئے‘ ان میں الجزیرہ ٹی وی کی معروف رپورٹر شیریں ابو عاقلہ بھی شامل تھی۔ کیا اس دوران کسی مسلمان ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے؟ جی نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے سفیر جو 2019ء میں واپس بلا لیے گئے تھے‘ انہیں دوبارہ بھیج دیا ہے اور اس طرح تعلقات نارمل ہو گئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔ قومی مفادات کے سامنے دوسری چیزیں مثلاً نظریات اور انسانی حقوق‘ سب ہیچ ہیں۔ دراصل ترکی کو لڑاکا ہوائی جہاز چاہئیں جو امریکہ نے روکے ہوئے ہیں۔ ترکی اس سلسلے میں یہودی لابی کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ خلیجی ممالک پر ایران کا خوف طاری ہے اور وہ بیرونی سرمایہ کاری کے خواہش مند بھی ہیں۔ اسرائیل اور انڈیا سے دوستی کے بعد بیرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ دبئی اور بحرین کی خوشحالی میں خارجی سرمایہ کاری کا بڑا ہاتھ ہے۔
جنرل مشرف کے زمانے میں اسرائیل سے تعلقات نارمل کرنے کی سنجیدہ کوشش ہوئی تھی۔ 2005ء میں ترکی کے توسط سے وزیر خارجہ خورشید قصوری اور ان کے اسرائیلی ہم منصب کی استنبول میں ملاقات ہوئی تھی۔ خیال تھا کہ مزید پیش رفت بھی ہو گی لیکن پاکستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا ممکنہ ردعمل آڑے آیا۔ اب ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا خلیجی ممالک میں یا ترکی میں اسلامی ذہن کے لوگ نہیں ہیں جو قبلۂ اول پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے ملک سے دوستی کی مخالف کریں؟ وہاں یقیناً ایسے ذہن کے لوگ موجود ہیں لیکن خلیجی ممالک میں روایت یہ رہی ہے کہ حاکم کے ہر فیصلے پر آمنا و صدقنا کہا جاتا ہے اور میڈیا دوسری حکومتوں کے بارے میں آزادی سے بول سکتا ہے لیکن اپنی حکومت کی پالیسی پر تنقید نہیں کر سکتا۔ ترکی میں طیب اردوان کی حکومت اسلام کے لیے اپنے دل و دماغ میں یقیناً نرم گوشہ رکھتی ہے لیکن فارن پالیسی کے معاملے میں جذباتیت سے کام نہیں لیتی اور یہ اس کی پختگی کی دلیل ہے۔
اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے یا نہ کرے اور کرے تو کب کرے؟ ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں پاکستان میں بات کرنا اب شجرِممنوعہ کی مانند نہیں رہا۔ کھل کر دونوں جانب سے بات ہو رہی ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔اسرائیل کے تسلیم نہ کرنے کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قائداعظم نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ لیکن یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ 1993ء میں اوسلو معاہدے پر یاسر عرفات نے دستخط کیے اور اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اقوام متحدہ کے اس وقت 193 ممبر ممالک ہیں اور ان میں سے 163 نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اسرائیل اب ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ناممکن ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے چھ عرب ممالک کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے ممالک بھی ہیں اور یہ تمام مسلم ممالک ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف دوسری دلیل یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارا کشمیر پر مؤقف کمزور پڑ جائے گا۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ انڈیا کو بھی تو ہم نے شروع سے تسلیم کیا ہوا ہے‘ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں تھا کہ ہم نے کشمیر پر اپنا اصولی مؤقف ترک کر دیا تھا۔1996ء میں جب کابل میں طالبان کی حکومت بنی تو صرف تین ممالک نے اسے تسلیم کیا تھا اور پاکستان ان میں سے ایک تھا۔ اُس وقت ہماری دلیل یہ تھی کہ ہمسایہ ہونے کے ناتے ہم افغانستان سے روزانہ ڈیل کرتے ہیں‘ لہٰذا افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بغیر گزارہ نہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے بحری جہاز ہمارے علاقائی پانیوں میں سے ہوتے ہوئے خلیجی ممالک جاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جہازوں کی ہماری بندرگاہوں خصوصاً گوادر کے ساتھ پیغام رسانی ہوتی ہو گی کیونکہ بحری اور ہوائی جہازوں کے لیے یہ معمول کا عمل ہے۔ہمارے جو سفارت کار امریکہ میں کام کر چکے ہیں وہ اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ وہاں اسرائیلی لابی بہت طاقتور ہے اور ہمارے اور امریکہ کے تعاون میں متعدد بار حائل ہوئی ہے اور اب اسرائیلی لابی کے علاوہ انڈین لابی بھی امریکہ میں خاصی فعال ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کے مفادات کو پروموٹ کرنا اب اور مشکل ہو گیا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کا پہلا ملک تھا جس نے پانی کی شدید قلت کے باوجود زراعت کو ترقی دی۔ پانی کے اسراف کو روکا اور وہاں ایک پانی چار مرتبہ استعمال ہوتا ہے۔ کھیتوں کو کھلا پانی وہ نہیں لگاتے اور سیوریج کا پانی صاف کر کے پھر استعمال کرتے ہیں۔ کھیتوں اور باغات میں پانی پلاسٹک کی نالیوں میں سے ہوتا ہوا ہر پودے کو صرف اس کی ضرورت کے مطابق سیراب کرتا ہے۔ پانی کا ضیاع وہاں بہت کم ہے۔ایک اور میدان جس میں اسرائیل بہت آگے ہے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ آئی ٹی کو خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھی خوف استعمال کیا جاتا ہے۔ یو اے ای اور بحرین کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون شروع ہو گیا ہے۔میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ ہمیں اسرائیل کو فوراً تسلیم کر لینا چاہیے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ اس موضوع پر میڈیا میں بات چیت ہونی چاہیے۔ فارن پالیسی کو وقت کی قید میں منجمد نہیں کیا جا سکتا‘ ہمیں اپنے آپشن کھلے رکھنے چاہئیں اور مناسب وقت پر مناسب فیصلہ کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں