"JDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم صاحب فی الحال ترکیہ نہ جائیے

جونہی برادر مسلم ملک ترکیہ میں تباہ کن زلزلہ آیا‘ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ میں اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی کے لیے فوراً ترکیہ جاؤں گا۔ اس اعلان سے پہلے ترکیہ کی حکومت سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے‘ انقرہ میں ہمارے سفیر ڈاکٹر جنید یوسف نان کیریئر ایمبیسڈر ہیں۔ ساری نوکری ٹریڈ اینڈ کامرس سروس میں گزاری۔ ریٹائر ہونے کے بعد حکومتی زعما سے راہ و رسم کی بنا پر ترکیہ میں سفیر لگا دیے گئے۔ گویا ایک طرح کی توسیع بھی مل گئی اور پھر مسندِ سفارت پر براجمان بھی ہو گئے‘ گویا چپڑیاں اور وہ بھی دو‘ دو۔ فارن آفس کی روایت رہی ہے کہ ترکیہ میں بطورِ سفیر کسی منجھے ہوئے کیریئر ڈپلومیٹ کو ہی بھیجا جاتا ہے جو پہلے کسی اور ملک میں بھی بطور سفارت کار خدمات انجام دے چکا ہو۔ ترکیہ میں ماضی قریب کے سفیروں میں انعام الحق‘ قاضی ہمایوں‘ شیر افگن خان‘ طارق عزیز الدین اور سائرس سجاد قاضی شامل تھے‘ جو سفارت کے وسیع تجربے کے بعد انقرہ گئے تھے۔ میں نے اپنے 35سالہ سفارتی کیریئر میں یہی دیکھا ہے کہ ایسے اہم وزٹ سے پہلے میزبان حکومت سے خاموشی سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ تاریخوں کا تعین اور دیگر تفاصیل طے کرکے میڈیا میں اعلان کیا جاتا ہے مگر یہاں معاملہ اُلٹ ہوا کیونکہ سفیر با تدبیر ناتجربہ کار تھے۔ ترک صدر اردوان‘ ان کے وزیر اور ہر چھوٹا بڑا اہلکار نہ صرف زلزلے کی تباہ کاری سے رنجیدہ تھا بلکہ فوراً ہی امدادی کارروائیوں میں مصروف بھی۔ پاکستان سے بن بلائے مہمان کی خبر سن کر ترک قیادت نے معذرت کر لی کہ ہم امدادی کاموں میں بے حد مصروف ہیں۔ اس سے ہماری حکومت کی یقینا سبکی ہوئی۔ میڈیا میں یہ خبر دی گئی کہ دورۂ ترکیہ ملتوی ہونے کی بڑی وجہ ترک قیادت کی مصروفیت کے علاوہ موسم کی خرابی تھی کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف نے متاثرہ علاقوں کا بذریعہ ہیلی کاپٹر فضائی جائزہ لینا تھا اور خراب موسم میں ہیلی کاپٹر کا سفر ممکن نہیں تھا۔
اُدھر انڈین میڈیا نے اس دورے کی منسوخی پر ڈھول پیٹنا شروع کر دیا کہ پاکستانی حکومت کی بہت سبکی ہوئی ہے۔ جلد ہی یہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ایک معروف پاکستانی صحافی‘ جو مسلم لیگ (ن) کے مخالف قطعی طور پر نہیں ہیں‘ نے لکھا کہ یہ دورہ ایک قسم کا زلزلہ سیاحت ہوتا۔ زلزلہ سیاحت کی ترکیب پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ یہ اصطلاح کیوں لکھی گئی۔ یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ وزیراعظم کے ساتھ تقریباً 75 افراد ترکیہ جانے کے لیے تیار تھے۔ اظہارِ ہمدردی کا یہ بھی ایک عجیب طریقہ تھا کہ مشکل میں گھرے برادر مسلم ملک کو 75 افراد کے پروٹوکول‘ رہائش اور دیگر امور میں اُلجھا دیا جاتا۔ بھارتی میڈیا یہ واویلا بھی کرتا رہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اس موقع کو اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
اب اس سے قدرے ملتا جلتا واقعہ سن لیجئے جو 1999ء میں پیش آیا۔ اس سال اگست میں استنبول کے گردونواح میں شدید زلزلہ آیا تھا۔ اسی طرح قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی تھی جو آج دیکھنے میں آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے‘ فوراً اظہارِ ہمدردی کے لیے ترکیہ جانے کو تیار ہو گئے۔ ایک تجربہ کار ڈپلومیٹ کرامت اللہ غوری انقرہ میں ہمارے سفیر تھے۔ وزیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے فون کرکے غوری صاحب کو بتایا کہ وزیراعظم اظہارِ ہمدردی کے لیے فوراً ترکیہ آنا چاہتے ہیں۔ سفیر صاحب نے جواب دیا کہ یہ وقت مناسب نہیں‘ میں میاں صاحب کو خود بتا دوں گا؛ چنانچہ وہ دورہ ترک حکومت کے ساتھ مشورے کے بعد ایک دو ہفتے بعد شیڈول ہوا۔ اس قصے کے راوی خود غوری صاحب ہیں جو معروف ادیب بھی ہیں لہٰذا قصہ گوئی میں بھی مشاق ہیں‘ ان کا یہ وڈیو کلپ یوٹیوب پر موجود ہے۔اس وڈیو کلپ میں ایک متوازی قصہ بھی شامل ہے‘ جو بے حد دلچسپ ہے اور وہ یہ ہے کہ میاں صاحب کو استنبول میں کباب کھانے کا شوق چرایا۔ یہ کباب استنبول کا ایک مشہور کبابچی بناتا تھا جس کا فن میاں صاحب کو بہت پسند تھا۔ اس کبابچی کو ایک مرتبہ سرکاری طور پر پاکستان میں مدعو بھی کیا گیا تھا۔ غوری صاحب نے میاں صاحب سے کہا کہ آپ یہاں اظہارِ ہمدردی کے لیے آئے ہیں‘ اچھا نہیں لگتا کہ آپ ریستورن اپنے من بھاتے کباب کھانے جائیں کیونکہ پروٹوکول اور سکیورٹی کی گاڑیاں آپ کے آگے پیچھے ہوں گی‘ سارے شہر کو پتا چل جائے گا؛ چنانچہ اگلے روز کباب بنوا کر خاموشی سے میاں صاحب کے ہوائی جہاز میں رکھوا دیے گئے جو استنبول سے انقرہ جا رہا تھا۔ اس سے ایک کہنہ مشق سفارت کار اور ایک نو آموختہ سفیر کا فرق بھی صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی نان کیریئر سفیر متعین کرنے کی روایت بھی اب ختم ہو جانی چاہیے۔ انڈیا نے یہ قدم تیس چالیس سال پہلے اٹھا لیا تھا۔
1999ء اور 2023ء کا موازنہ کریں تو تب پاکستان کے حالات کہیں بہتر تھے۔ 1999ء تک ہم آئی ایم ایف کے سامنے ایڑیاں نہیں رگڑتے تھے۔ نئے نئے ایٹمی قوت کے مالک بننے کی وجہ سے بھی ہمارا بھرم تھا۔ اب تو مرزا غالبؔ کی طرح قرض کی مے پی پی کر ہمارا بال بال مقروض ہے۔ مرزا نوشہ تو قرض خواہوں سے بچنے کے لیے کئی کئی دن گھر سے نہیں نکلتے تھے مگر ہم ہیں کہ قرض کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن ہمارے دنیا بھر کے دورے ختم نہیں ہوتے‘ ہمارے وزیر خارجہ آئے روز کسی نئے دورے پر چل نکلتے ہیں۔
دوسری طرف سنا ہے کابینہ کے اراکین نے ایک دن کی تنخواہ ترک زلزلہ ریلیف فنڈ میں دے دی ہے۔ یہ بہت اچھا قدم ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم اپنی کابینہ کا سائز آدھا کر دیں اور اس طرح بچنے والی رقم خاموشی سے ترکیہ بھیج دیں۔ میرا خیال اس وقت اُس گمنام مگر عظیم پاکستانی کی طرف جا رہا ہے جس نے تین کروڑ ڈالر جا کر ترکیہ سفارت خانۂ واشنگٹن میں جمع کرا دیے‘مگر اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ یہ بھی شنید ہے کہ وزیراعظم کا دورۂ ترکیہ ملتوی ہوا ہے مگر منسوخ نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اور کچھ دنوں میں ایک خصوصی پاکستانی طیارہ وزیراعظم اور ان کے بھاری بھر کم وفد کو لے کر ترکیہ جائے گا‘ جہاز کا تیل اور ٹی اے ڈی اے‘ صرف ان دو مدات میں لاکھوں ڈالر خرچ ہوں گے اور ہمارے پاس‘ بقول شخصے‘ زہر کھانے کو پیسے نہیں۔ ایسے میں کیا بہتر نہیں ہوگا کہ وزیراعظم اپنے مختصر سے عملے کے ساتھ خاموشی سے دو چار ہفتے بعد کمرشل فلائٹ سے ترکیہ جائیں اور اگلے روز واپس آ جائیں؟ نہ ترک حکومت پر زیادہ بوجھ ڈالیں اورنہ ہی مجھ جیسے ٹیکس دہندہ پر۔ آج سے دس گیارہ سال پہلے جب ہمارے ہاں تباہ کن سیلاب آیا تھا تو ترکش فرسٹ لیڈی نے ایک قیمتی ہار بطور امداد بھیجا تھا‘ وہ خود نہیں آئی تھیں۔ پچھلے سال کے سیلاب میں بھی ترکیہ ہماری مدد میں آگے آگے تھا لیکن ترک صدر خود نہیں آئے تھے۔
یہاں تک کالم لکھا چکا تو خبر ملی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ اسلام آباد میں ترک سفارت خانے کا تعزیتی دورہ کرتے ہوئے ترک حکام سے تباہ کن زلزلے میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور پاکستان کی جانب سے تعاون کا اعادہ کیا۔ یہ حکومتِ پاکستان کا ترک حکومت سے اظہارِ یکجہتی کا بہترین فیصلہ تھا۔ ہم اپنی سکت کے مطابق امداد ترکیہ روانہ کر چکے ہیں‘ مزید بھی کریں گے۔ ترکیہ والوں کو بھی ہماری حالت کا پتا ہے۔ وزیراعظم صاحب مگر کیا آپ نے اپنے سیلاب زدگان کو بحال کر لیا ہے؟ شنید ہے کہ چین کے لیے بھی بطورِ سفیر ایک نان کیریئر نام زیر غور ہے۔ کیا ترکیہ کا سبق کافی نہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں