"JDC" (space) message & send to 7575

ہمارے بے ہنگم پھیلتے شہر

جنوبی ایشیا میں اس وقت شہروں کی جانب نقل مکانی کا عمل پاکستان میں دیگر ملکوں سے تیز تر ہے۔ 2017ء میں ہماری آبادی کا 36.4 فیصدحصہ شہروں میں رہائش پذیر تھا۔ اقوام متحدہ کی پاپولیشن ڈویژن کا تخمینہ ہے کہ 2025ء میں پاکستان کی نصف آبادی شہروں کی باسی ہو گی۔ شہری تنقل (Urbanization) کی مختلف وجوہات ہیں۔ شہروں میں ملازمت کے مواقع عموماً زیادہ ہوتے ہیں۔ کئی دیہی لوگ بہتر سہولتوں مثلاً کالجوں‘ یونیورسٹیوں‘ ہسپتالوں کی وجہ سے شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ دیہی علاقوں میں امن و امان کی خرابی بھی لوگوں کو شہروں کی جانب منتقل ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک ڈیڑھ عشرہ پہلے خیبر پختونخواا ور قبائلی علاقوں سے بہت سے لوگ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی منتقل ہوئے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق دو سال بعد لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہو گی جبکہ کراچی ایک کروڑ نوے لاکھ باسیوں کا شہر ہوگا۔ اور یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ اور چند سالوں میں لاہور کا شہر قصور‘ گجرانوالہ اور شیخوپورہ سے جا ملے گا۔ تب یہ کراچی سے بھی بڑا شہر ہوگا۔اگر شہری تنقل کا عمل اقتصادی ترقی کی وجہ سے ہو اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں‘ لیکن اگر آبادی کا یہ بہاؤ بے ہنگم طریقے سے ہو تو بہت سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ زرخیز زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے تصرف میں چلی جاتی ہے۔ نئی غریب بستیاں (Slums)وجود میں آتی ہیں‘ سکولوں‘ کالجوں اور ہسپتالوں پر پریشر بڑھتا ہے‘ سڑکوں پر ٹریفک زیادہ ہو جاتی ہے‘ ہوا کی کوالٹی خراب ہوتی ہے۔ جرائم بڑھنے لگتے ہیں۔کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور اسلام آباد میں آبادی کے تنقل اور بے ہنگم پھیلاؤ سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے 1950ء اور 60ء کی دہائی میں کراچی کو عروس البلاد کہا جاتا تھا‘ حیدر آباد بھی اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے برصغیر میں مشہور تھا۔ مشرق اور مغرب کے درمیان چلنے والی ہر ایئر لائن کے ہوائی جہاز کراچی میں رکتے تھے یعنی کراچی کی وہ پوزیشن تھی جو آج دبئی کی ہے۔ میرا پشاور میں 1972ء میں چار ماہ قیام رہا۔ ہم لوگ انتظامی ٹریننگ کیلئے رورل اکیڈمی میں مقیم تھے جو یونیورسٹی کے بالمقابل ہے‘ ہم شہر جانے کے لیے سپین جماعت یعنی سفید مسجد سے بس لیتے۔ سپین جماعت سے صدر تک کھلا علاقہ تھا۔ شہر کے ایک بڑے حصّے کے چمن نہر سے ڈائریکٹ سیراب ہوتے تھے۔ موسم بہار میں یونیورسٹی ٹاؤن اور اردگرد کا علاقہ پھولوں کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا۔ اور پھر افغان مہاجرین کے سیلاب نے شہر کی صورت بدل کے رکھ دی۔
کالج کے چھ سال لاہور میں گزرے 1961ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور کی آبادی سولہ لاکھ تھی۔ اندازہ لگائیے ساٹھ سال میں لاہور کی آبادی آٹھ گنا بڑھ گئی ہے۔ آج پتا ہی نہیں چلتا کہ لا ہور کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ ڈیفنس بذات خود ایک شہر تھا۔ ہمارے کالج کے زمانے میں رائیونڈ ایک علیحدہ شہر تھا جو لاہور سے دور تصور ہوتا تھا‘یہ بسوں اور تانگوں کا زمانہ تھا‘ کار ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ مال روڈ کا دوسرا نام ٹھنڈی سڑک تھا۔ ایم اے کرنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج سول لائنز میں پڑھایا۔ اُس زمانے میں روزانہ شام کو ریگل چوک سے چیئرنگ کراس تک ہم چہل قدمی کرتے۔ فوگ یا سموگ کا نام و نشان نہیں تھا۔ لاہور اپنے باغات‘ کالجوں اور کھیل کے میدانوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ میلہ چراغاں‘ داتا صاحب کا عرس اور بسنت لاہور شہر کی پکی پکی شناخت تھے۔ موہنی روڈ پر پہلوانوں کے اکھاڑے تھے۔ ریگل اور پلازا سینما میں شاندار انگلش فلمیں لگتی تھیں۔ کالج سے ہم اکثر پیدل فلم دیکھنے جاتے تھے۔ موسم سخت ہوتا تو رکشہ لے لیتے، تمام رکشے اور ٹیکسیاں میٹر پر چلتے تھے۔ نواب کالا باغ کی گورنری کا زمانہ گڈ گورننس کا دور تھا۔
اور اب آپ کو لے چلتا ہوں اپنے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ جہاں پچھلے ماہ ایک شادی کے سلسلہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ 1947ء میں یہ ایک مختصر سا منڈی ٹاؤن تھا۔ شہر کی بیشتر سرگرمیاں غلہ منڈی اور ا س سے ملحق بازار تک محدود تھیں۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہونے کے ناتے ایک دو عدالتیں تھیں۔ پورے شہر میں تین‘ چار وکیل تھے۔ شہر کے اندر لوگ پیدل چلتے تھے۔ کسی گاؤں جانا ہو تو تانگہ کرانا پڑتا تھا۔ ہمارا گاؤں شہر سے نو میل ہے۔ تانگے والا پانچ روپے لیتا اور ہمیں گاؤں لے جاتا۔ پورے شہر میں تین‘ چار ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے ان کے داخل کردہ مریض اکثر درختوں کے نیچے چار پائیوں پر لیٹے ہوتے تھے۔ سرکاری ہسپتال سب سے بڑا تھا یہاں کا انچارج ڈاکٹر بھی عام میڈیکل گریجوایٹ ہوتا تھا۔ شہر میں کالج 1960ء کی دہائی میں بنا اور وہ بھی انٹرمیڈیٹ تک۔ سڑکیں کھلی کھلی تھیں۔ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے‘ شہر میں کار کبھی کبھار نظر آتی تھی اور وہ بھی کسی باہر سے آئے ہوئے شخص کی ہوتی تھی۔ ضرورتیں کم تھیں یا لوگ قناعت پسند تھے‘ دال روٹی پر بھی خوش تھے؛ البتہ شہر میں سیاسی شعور بہت تھا۔ دائیں اور بائیں بازو کے لوگ‘ دونوں سرگرم رہتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے زمیندار تھے‘ لہٰذا کسان کمیٹی سوشلزم کی سیاست زور شور سے کرتی تھی۔ 1965ء میں مادرِ ملت کو مغربی پاکستان میں صرف کراچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب خان سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
معاف کیجئے بات موضوع سے ہٹ گئی۔ آج ٹوبہ ٹیک سنگھ کی آبادی ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ شہر میں بہت ساری تبدیلیاں بغیر کسی منصوبہ سازی کے ہوئی ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ پرانی رہائشی گلیوں میں دکانیں بن گئی ہیں‘غلہ منڈی سے ملحقہ پرانے بازار چلے جائیں تو سڑک کے درمیان میں سینکڑوں موٹر سائیکل پارک کئے ہوئے ملتے ہیں۔ دو عدد موٹر وے اب شہر کے دونوں جانب سے گزر رہے ہیں لہٰذا نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں رجانہ روڈ‘ جھنگ روڈ اور گوجرہ روڈ پر بنتی ہی جا رہی ہیں۔ یہ نئے محلے کم از کم پانچ دیہات کی زرخیز زرعی زمین ہضم کر چکے ہیں۔ مین بازار میں اس قدر رش ہے کہ چلنا دشوار ہے۔
ٹاؤن پلاننگ کا بنیادی اصول ہے کہ رہائشی اور کمرشل علاقے الگ الگ ہونے چاہئیں مگر ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں۔ پارک‘ مساجد اور سکول ہر آبادی کی ضرورت ہیں لیکن سکول آبادی سے تھوڑا ہٹ کے ہونے چاہئیں تاکہ بچے سکون سے پڑھ سکیں اور شہری بھی ڈسٹرب نہ ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک میں غوغائی تلوث (Noise Pollutin) کوبہت برا سمجھا جاتا ہے‘ مگر وطن عزیز میں ہر نئے ایئر پورٹ کے پاس ہاؤسنگ سوسائٹیاں فوراً بننے لگتی ہیں‘ اس کی بڑی مثال اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ ہے۔پوری دنیا میں چائنا کٹنگ کو غیر قانونی عمل سمجھا جاتا ہے۔ چائنا کٹنگ کا مطلب ہے اصل نقشے کی خلاف ورزی۔ یعنی اگر ایک جگہ پارک کیلئے مختص ہوتی ہے تو وہاں رہائشی پلاٹ یا دکانیں نہیں بن سکتیں‘ انگریز نے برصغیر میں تمام نئے شہر اس اصول کو مدنظر رکھ کر بنائے تھے اور ہم اس اصول کو سامراجی باقیات سمجھ کر ختم کر رہے ہیں‘ نتیجہ شہروں کی خرابی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں پچھلے پچاس سالوں میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ زرعی زمین ختم کر چکی ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نواحی گاؤں ختم ہو رہے ہیں اور ہم گندم امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں