"JDC" (space) message & send to 7575

پست معیارِ تعلیم‘ پسماندہ قوم

ایک زمانہ تھا جب ہمارا نظامِ تعلیم ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر قدیر خان‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر ریاض الدین جیسے سائنسدان پیدا کرتا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں سے اکثر اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرونِ ملک گئے لیکن ان سب کی سکول اور کالج کی تعلیم ہمارے ہاں ہی ہوئی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں ہوئی۔ اب کئی عشرے بیت چکے ہیں‘ پاکستان نے کوئی قابلِ ذکر سائنسدان پیدا نہیں کیا۔ ہمارے حصے میں اب تک سائنس کے شعبے میں صرف ایک نوبل انعام آیا ہے۔ انڈین سائنسدانوں کو چار نوبل پرائز مل چکے ہیں جبکہ اسرائیل کا سکور تیرہ ہے۔ پچھلے پانچ عشروں میں پاکستان میں تعلیم کا معیار گرا ہے‘ خاص طور پر سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت تو پریشان کن حد تک خراب ہو گئی ہے۔
پچھلے ماہ میں اپنے گاؤں گیا ہوا تھا جو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں واقع ہے۔ گاؤں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے دونوں سکول مڈل لیول تک ہیں‘ وہاں استادوں سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ان دونوں سکولوں میں صرف وہ بچے آتے ہیں جن کے والدین کی مالی حالت اچھی نہیں۔ زمیندار لوگ اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں معیارِ تعلیم سرکاری سکولوں سے بہتر ہے‘ لیکن اب پرائیویٹ سکولوں کی فیس مڈل کلاس کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر پولیس‘ انکم ٹیکس‘ ایکسائز‘ کسٹمز اور محکمہ مال کو کرپٹ محکموں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اب اس لسٹ میں محکمۂ تعلیم بھی شامل ہو چکا ہے۔ سکول انسپکٹرز کے ہوتے ہوئے گھوسٹ سکول کیسے چل سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ انسپکٹرز کو ماہانہ کچھ نہ کچھ ملتا ہے اور وہ سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہتے ہیں۔ ٹیچر اور شاگرد گھر بیٹھے رہتے ہیں اور ان کی حاضری لگتی رہتی ہے۔ رزقِ حرام کمانے والوں میں اساتذہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ رزلٹ اچھا دکھانے کیلئے نقل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ محکمۂ تعلیم میں احتساب کا عمل خاصا کمزور ہے۔ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کے مقالوں میں بھی نقل پکڑی گئی ہے کہ کمپیوٹر نے یہ کام خاصا آسان کر دیا ہے۔ آپ سوچیں کہ جو طالب علم نقل کا سہارا لے کر ڈگریاں حاصل کرے گا‘ وہ ایماندار شہری کیسے بن سکتا ہے؟ ملاوٹ کی تمام اقسام میں تعلیم میں ملاوٹ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
گزشتہ سال کی گئی درجہ بندی کے مطابق تمام دنیا میں پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں سات پاکستانی دانش گاہیں بھی شامل ہیں اور یہ امر باعثِ اطمینان ہے لیکن ہماری سب سے بہتر شمار کی گئی یونیورسٹی یعنی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا دنیا میں 213واں نمبر ہے اور اس سے آپ ہایئر ایجوکیشن کے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو ہمارے ساتھ کینیا‘ ملائیشیا‘ ویسٹ انڈیز‘ موریشس اور ترکی کے طالب علم پڑھتے تھے‘ اب ہمارے طالب علم ترکی‘ چین اور سنٹرل ایشیا جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی قائم ہوئی۔ ڈاکٹر جنید زیدی اس کے پہلے ریکٹر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی محنت‘ ذہانت اور یکسوئی سے اس ادارے کو شاندار بنا دیا اور یہ ادارہ ان سات پاکستانی دانش گاہوں میں شامل ہے‘ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ میری ڈاکٹر جنید زیدی سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ کی یونیورسٹی کا چونکہ بالواسطہ تعلق او آئی سی سے ہے لہٰذا اسلامی ممالک سے سٹوڈنٹ بھی آپ کے ہاں آنے چاہئیں۔ ان کا جواب تھا کہ پاکستان میں چونکہ سکیورٹی کے حالات مخدوش ہیں لہٰذا یہاں غیرملکی طالب علم نہیں آتے ‘لیکن میرے خیال میں اس وقت غیرملکی طالب علموں کی پاکستان نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا زوال پذیر تعلیمی معیار بھی ہے۔ میں حال ہی میں جنوبی افریقہ سے ہو کر آیا ہوں۔ امن و امان کی صورتحال وہاں بھی مخدوش ہے لیکن وہاں کے تعلیمی اداروں میں سینکڑوں عرب سٹوڈنٹ ہیں‘ اس لیے کہ وہاں تعلیمی معیار اچھا ہے۔
حکومتِ پاکستان ٹوٹل جی ڈی پی کا صرف 2.3فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے جبکہ بنگلہ دیش سرکار 10.2فیصد تعلیم کیلئے مختص کرتی ہے۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی 58فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں 74.9فیصد ہے۔ یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ پڑھی لکھی خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کا بہتر خیال رکھتی ہیں۔ 32ممالک پر محیط ایک ریسرچ پراجیکٹ نے یہ نتیجہ نکالا کہ پڑھی لکھی خواتین میں اَن پڑھ خواتین کے مقابلے میں ایڈز کی بیماری کم پائی گئی۔ پاکستان میں ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 54اپنی زندگی کا ایک سال مکمل کرنے سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 30فیصد ہے۔ہمارے ہاں شرح خواندگی خواتین میں مردوں سے کم ہے۔ بلوچستان میں غیرتعلیم یافتہ خواتین کی شرح 78فیصد ہے۔ اگر حکومت بلوچستان کی ترقی میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے خواتین کی تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ٹھوس پلان بنانا چاہیے۔ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کے لیے لازمی ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب تعلیم صوبائی حکومتوں کے اختیار میں ہے۔ صوبائی گورنر اپنے صوبے کی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں۔ صوبائی حکومتوں کا دانش گاہوں پر کنٹرول ضرورت سے زیادہ ہے۔ ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی ممتاز دانش گاہیں بڑی حد تک خود مختار ہیں لیکن ہمارے ہاں سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کیلئے صوبائی حکمرانوں کی خوشامد کرنے پر مجبور ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اٹانومی ملنی چاہیے۔ ان درسگاہوں میں مسابقت کی فضا پیدا کرنے کیلئے ان کی سرکاری فنڈنگ کو انٹرنیشنل ریٹنگ سے مشروط کیا جا سکتا ہے۔
اب ہمارے ہاں کئی پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی قائم ہیں۔ ایسی دانش گاہوں کیلئے اولین اقدام چارٹر کا حصول ہوتا ہے۔ چارٹر کی درخواست سب سے پہلے صوبائی Committee For Accreditationکے پاس جاتی ہے جو اس کی مختلف زاویوں سے چانچ پڑتال کرتی ہے اور پھر مثبت یا منفی ریمارکس کے ساتھ وزیراعلیٰ کو بھیجتی ہے۔ کہنے کو یہ سارا عمل میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے بہترین ہے لیکن ہمارے ہاں یہاں بھی گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ مجھے دو معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹی کے چارٹر کی منظوری کے لیے صوبائی لیڈروں کی مٹھی گرم کر دی جائے تو کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اب آپ سوچئے کہ جس اعلیٰ تعلیمی ادارے کا آغاز ہی رشوت سے ہو‘ وہاں میرٹ کا کیا حشر ہوگا؟چند سال ہوئے ڈاکٹر خالد آفتاب پنجاب کی Accreditation Committeeکے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب اصول کے آدمی ہیں‘ نہ کسی کی ناجائز سفارش مانتے ہیں نہ دبائو‘ لہٰذا پرائیویٹ سیکٹر اور حکومتِ پنجاب دونوں ان کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ جب پریشر زیادہ ہی بڑھ گیا تو ڈاکٹر خالد آفتاب نے استعفیٰ دے دیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ ڈاکٹر صاحب کے خلاف رِٹ پٹیشن ڈائر کر دی گئی اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گورنر پنجاب بھی پٹیشنرز میں شامل تھے۔
علم و دانش تمام انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ جب میں مسقط میں سفیر تھا تو ایمبیسی پانچ کمیونٹی سکولوں کی نگرانی کرتی تھی۔ مسقط کا سکول انٹرمیڈیٹ تک تھا اور وہاں ہر سال سائنس کی نمائش ہوتی تھی۔ سٹوڈنٹ اور استاد مل کر ماڈل تیار کرتے تھے۔ میں نے اپنے سکول کے پرنسپل کو کہا کہ نمائش میں انڈین اور سری لنکن سکولوں کو بھی شامل کیا جائے‘ کچھ مزاحمت ہوئی مگر تجربہ کامیاب رہا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں