"JDC" (space) message & send to 7575

گلگت بلتستان: چند تاثرات

ہمارے ہاں اقتدار کے لیے خوفناک جنگ یوں تو برسوں سے جاری ہے لیکن پچھلے ایک سال میں اس کے شعلے خوب بھڑکے ہیں۔ سارے دن کے تھکے ہارے شام کو ٹی وی لگائیں تو کوئی اچھی خبر شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اقتدار کی یہ جنگ وسیع تر ہو رہی ہے اور اس کے شعلوں کی تمازت اہم ترین اداروں تک پہنچ گئی ہے۔ ان حالات میں گلگت بلتستان (جی بی) میں چند روز گزارنا میدانِ جنگ سے گوشۂ عافیت میں پناہ کے مانند تھا۔ یہ خطہ صرف سیاحت کی غرض سے ہی نہیں‘ کئی اور حوالوں سے بھی بہت اہم ہے۔
سکردو میں کئی سال پہلے دیکھ چکا تھا؛ البتہ گلگت اور ہنزہ دیکھنے کی خواہش باقی تھی۔ خنجراب پاس سے ہوتے ہوئے پاک چائنا بارڈر تک جانا بھی ایک خواب تھا جو پچھلے دنوں پورا ہوا۔ اس علاقے میں دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں پورا سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ متعدد گلیشیرز ہیں جو ہمارے سب سے بڑے دریا یعنی دریائے سندھ کے پانی میں قیمتی حصہ ڈالتے ہیں لیکن خوشگوار حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہنزہ کے شہر کریم آباد میں دو ایسے تاریخی قلعے ہیں جو قلعہ روہتاس اور لاہور کے شاہی قلعے سے بھی خاصے پرانے ہیں۔ ان کی مرمت کرکے بڑی حد تک اصلی حالت میں لایا گیا ہے۔ یونیسکو ان دونوں تاریخی مقامات کو قومی ورثہ عمارتوں میں شمار کرتا ہے۔
ہنزہ کے لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔ یہ معتدل مزاج ہیں۔ خیالات اور رویوں کے اعتبار سے لبرل ہیں۔ یہاں عورت اور مرد شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ انہیں تعلیم کا شوق ہے۔ جرائم بہت کم ہیں۔ خواتین گھر سے اکیلی بھی نکلیں تو کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتیں۔ عطا آباد جھیل کے پاس میں نے چھوٹے سے گائوں میں قالین بافی کا مرکز دیکھا جسے پانچ چھ خواتین مل کر گزشتہ پچیس سال سے کامیابی سے چلا رہی ہیں۔ وہ خود ہاتھ سے گلم طرز کے قالین بناتی ہیں اور خود ہی مارکیٹنگ کرتی ہیں۔ محنت اور کامیاب کاروبار سے ان خواتین میں خود اعتمادی آئی ہے۔ ہنزہ میں آپ کو کوئی بھکاری شاذو نادر ہی نظر آئے گا۔
بلتت قلعہ کریم آباد کے مضافات میں انتہائی بلند مقام پر واقع ہے۔ یہ قلعہ 1945ء تک میر آف ہنزہ کی رہائش گاہ بھی رہا۔ ایسے قلعے بلند مقامات پر اس لیے بنائے جاتے تھے تاکہ ممکنہ حملہ آور کی حرکات و سکنات کا بروقت پتا لگ جائے۔ محافظ بھی قلعے کے اندر ہی رہتے تھے۔ عمارت کے اندر جیل بھی ہے۔ اناج کے سٹور اور باورچی خانے بھی ہیں۔ بلتت قلعہ ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے۔ 2004ء میں یونیسکو نے فیصلہ کیا کہ اس تاریخی عمارت کو اصلی حالت میں لاکر محفوظ کیا جائے۔ اس عمارت کی مرمت میں حکومتِ پاکستان اور پرنس کریم آغا خان نے دلچسپی دکھائی۔ قلعے کو اصل حالت میں لانے کے شاندار کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔
اَلتت قلعہ بھی کریم آباد میں ہی ہے‘ اس کی بلندی بلتت قلعہ سے کم ہے۔ اس قلعہ میں بھی جیل ہے جہاں دشمن کے گرفتار شدہ لوگ رکھے جاتے تھے۔ انتہائی خطرناک قیدیوں کو قلعہ سے نیچے گرایا جاتا تھا اور ان کی موت یقینی ہوتی تھی۔ التت قلعہ میں شراب کو محفوظ کرنے کے لیے ایک تہہ خانہ بھی ہے‘ میں نے گارڈ سے پوچھا کہ اس وقت کے حاکموں کی نظر میں شراب نوشی کیوں اہم تھی؟ اس کا جواب تھا کہ جب یہ قلعہ بنا تو اس خطے میں اسلام نہیں آیا تھا لہٰذا شراب نوشی معمول کی بات تھی۔ دوسری وجہ غالباً یہ تھی کہ موسم سرما میں ہنزہ میں سخت سردی پڑتی ہے۔ رات کو درجہ حرارت اکثر نقطۂ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے۔ خواب گاہوں کو گرم رکھنے کا نظام پرانے وقتوں میں اتنا اچھا نہیں تھا لہٰذا شراب کا سہارا لیا جاتا تھا۔
ہنزہ میں ہمارا قیام علی آباد کے ایک خوبصورت اور آرام دہ ریزورٹ میں تھا۔ اس ریزورٹ میں لکڑی سے تعمیر کردہ چند آرام دہ کاٹیج تھے۔ جاتے ہی ہمیں ایک بڑی گاڑی مع ڈرائیور کرائے پر مل گئی۔ امین نامی ڈرائیور نہ صرف خوش مزاج تھا بلکہ لوکل باشندہ ہونے کے ناتے وہ علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ پہلے روز امین نے ہمیں دونوں قلعے دکھائے۔ بلتت قلعہ اس قدر بلند ہے کہ وہاں پہنچنے سے پہلے مجھے اور میری بیوی کو چار پانچ دفعہ رکنا پڑا۔ دونوں قلعے دیکھنے کے بعد ہم بے تحاشا تھکے ہوئے تھے مگر امین کا مشورہ تھا کہ کریم آباد آئے ہوئے ہیں تو یہاں کے بلند ترین مقام پر بھی جانا چاہیے جہاں غروبِ آفتاب کے وقت سورج کی کرنیں جب راکا پوشی کی چوٹی پر موجود برف پر پڑتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ برف نے سنہری لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر دو شاندار ہوٹل تعمیر کیے گئے ہیں اور ان کی سطح سمندر سے بلندی دس ہزار فٹ ہے۔ ہم نے ہوٹل کی چھت پر بنائے ہوئے کیفے میں کافی منگوائی اور غروبِ آفتاب کا انتظار کرنے لگے۔
اگلے روز خنجراب پاس اور پاک چائنا بارڈر جانا تھا۔ سفر تین‘ ساڑھے تین گھنٹے کا ہے۔ راستے میں عطا آباد جھیل پر رکے جو چند سال پہلے ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ اب یہ مرغوب سیاحتی مقام ہے۔ یہاں ایک ہوٹل بھی بن گیا ہے جہاں کمرے کا حصول اتنا آسان نہیں۔ میں نے راستے میں اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ اس علاقے کے بڑے بڑے پرابلم کیا ہیں؟ امین کا جواب تھا کہ گمبھیر مسئلے دو ہیں۔ ایک روزانہ گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بیروزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک ایسا خطہ جہاں آبی وسائل کی کمی نہیں اور پن بجلی بنانے کیلئے آئیڈیل ہے‘ وہاں لمبی لوڈشیڈنگ صرف اور صرف ہماری نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بے روزگاری کو ختم یا کم کرنے کے لیے یہاں ماربل کی فیکٹریاں لگائی جا سکتی ہیں۔ نادر اور قیمتی پتھر‘ جو زیورات میں استعمال ہوتے ہیں‘ انہیں کاٹنے اور پالش کرنے کا کام یہاں ہو سکتا ہے۔ اب یہ قیمتی پتھر پشاور اور بنکاک بھیجے جاتے ہیں۔
سی پیک کے حوالے سے یہاں ملے جلے افکار سننے کو ملے۔ چند لوگوں کا کہنا تھا کہ سی پیک کا آغاز ہمارے علاقے سے ہوتا ہے لیکن ہمیں ایک سڑک کے علاوہ کچھ اور نہیں ملا لیکن کئی دوسرے سوست ڈرائی پورٹ کے فنکشنل ہونے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں‘ اس ڈرائی پورٹ کے طفیل سوست چینی مصنوعات کا مرکز بنے گا۔خنجراب میں مئی کے آغاز میں بھی برف ہی برف تھی۔ سوست سے آگے آبادی خال خال ہے۔ اس پورے علاقے میں ترقی کی لگن ہے۔ تعلیم کا شوق ہے۔ لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ جیو سٹرٹیجک لحاظ سے یہ خطہ انتہائی اہم ہے اور سی پیک کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
تعلیم کے حوالے سے یہاں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور فوجی فائونڈیشن نے خاصا کام کیا ہے۔ موجودہ چیف سیکرٹری دن رات تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی میں مصروف رہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کو مشروط طور پر پاکستان کا صوبہ بنانے کا فیصلہ چند سال پہلے ہوا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ نہایت ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کو پاکستانی وفاق میں نمائندگی ملے۔ یہ ہماری فیڈریشن میں ایک خوبصورت اضافہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں