"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان:ایک بین الاقوامی مذاق

میرے ایک سینئر کولیگ نے‘ جو اہم ممالک میں پاکستانی سفیر رہے ہیں‘ حال ہی میں ایک مؤقر انگریزی روزنامہ میں پاکستان کی موجودہ صورت حال پر کالم لکھا ہے۔ اس کالم کا آخری جملہ ہے: پاکستان ایک بین الاقوامی مذاق بن چکا ہے۔یہ بات ایک سنجیدہ‘ ذہین اور تجربہ کار شخص نے کی ہے لہٰذا میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔ 1960ء کی دہائی میں تو ایک دنیا ہم پر رشک کرتی تھی اور اب بھی ہم کئی ایک ترقی پذیر ممالک سے بہتر ہیں لیکن تشویش اس بات کی ہے کہ زوال کا یہ سفر تاحال جاری ہے۔ آئیے‘ اس زوال کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے رُول آف لا اور میرٹ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ قانون کا سر چشمہ ملک کا آئین ہوتا ہے۔ ہم نے آئین پر چلنے کے بجائے نظریۂ ضرورت کو معتبر سمجھا۔ ملک میں تین مرتبہ مارشل لا لگا۔ پہلی مرتبہ 1958ء میں آئین کو معطل کیا گیا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آئین معطل نہ کیاجاتا اور 1970ء کے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کیا جاتا تو ملک دولخت نہ ہوتا۔ 1977ء میں آئین کو پھر معطل کیا گیا اور نظریۂ ضرورت کی گونج ایک مرتبہ پھر سنی گئی۔ اگر 1977ء میں آئین معطل نہ کیا جاتا تو ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر نہ جانا پڑتا اور ملک اس عمل کے بھیانک نتائج سے بھی بچ جاتا۔ 1999ء میں پھر آئین معطل ہوا اور اس مرتبہ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ تین دفعہ کے مارشل لاؤں سے سول ملٹری تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ یہ عوامی شعور مدہم پڑ گیا کہ ہم پُرامن طریقے سے اور اپنے ووٹ کی طاقت سے حکمران بدل سکتے ہیں۔ 1973ء کے آئین میں لکھا ہے کہ سکول تک مفت تعلیم ہر شہری کا حق ہے اور ہمارے ہاں دوکروڑ 30لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ آئین میں لکھا ہے کہ ایک معینہ مدت کے بعد اردو بطور سرکاری زبان نافذ کر دی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اشرافیہ کو یہ بات سوٹ نہیں کرتی۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ ایک معینہ مدت کے بعد سروسز میں کوٹہ سسٹم ختم کر دیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ آئین میں لکھا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو جائے تو نوے روز کے اندر نئے الیکشن ہوں گے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت کسی طور بھی الیکشن نہیں چاہتی‘ یہ انتہائی غیر جمہوری رویہ ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ ملک میں جاری موجودہ سیاسی رسہ کشی سے پوری دنیا میں ہمارا نہایت منفی تاثر گیا ہے اور واقعی دنیا میں ہمارا مذاق اڑ رہا ہے۔
دنیا میں ہمارا مذاق اس لیے بھی اڑ رہا ہے کہ 24کروڑ افراد کا اچھا خاصا ملک ابھی تک کشکول سے جان نہیں چھڑا سکا۔ دنیا میں دو ہی ممالک ہیں جو سب سے زیادہ آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں‘ ایک ہے پاکستان اور دوسرا ہے ارجنٹائن۔ ارجنٹائن تو ڈیفالٹ بھی کر چکا ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ارجنٹائن میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا عزم ہے اور اس کا ثبوت ارجنٹائن کی جی 20تنظیم کی ممبر شپ ہے جو امیر ممالک کا گروپ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم ٹیکس ایمانداری سے ادا کریں اور اخراجات کنٹرول کریں۔
تو کیا مالی اعتبار سے بھی ہم اس وقت مذاق بن چکے ہیں؟ جی ہاں اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں تقریباً دو سو ملک ہیں۔ ان میں سے تین ممالک ایسے ہیں جن کے پاس ہم بار بار کشکول لے کر جاتے ہیں‘ تینوں سے ہمارے تعلقات اچھے ہیں لیکن اب وہ بھی تنگ آ کر کہہ رہے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف سے اگلے قرضے کی بات پکی کر لیں اور پھر ہمارے پاس آئیں۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ادھار اور قرض محبت کی قینچی ہوتے ہیں‘ ہمیں ان تین ممالک کی سخاوت پر بھی زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے‘ وہ پہلے ہی کچھ بیزار نظر آ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف نے اپنے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے دو شرطیں لگائی تھیں‘ پہلی یہ کہ پاکستانی بیورو کریٹ اپنے اندرون اور بیرون ملک اثاثے ظاہر کریں اور صوبائی حکومتیں اپنے اخراجات کی تفصیل فراہم کریں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے صوبائی حکومتوں کے مالی حالات خاصے بہتر ہیں۔
جب ہمارے سرکاری افسر بیرونِ ملک قرض لینے جاتے ہیں تو شاندار ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اور قرض دینے والے ورطۂ حیرت میں چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارا سرکاری وفد امداد کا سوال لے کر مشرقِ بعید کے ایک ترقی یافتہ ملک میں گیا۔ وہاں ہمارے وفد سے پوچھا گیا کہ ایک طرف تو آپ امداد مانگتے ہیں لیکن دوسری جانب امداد دیتے بھی ہیں۔ استفسار سے پتہ چلا کہ اشارہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو دی گئی مدد کی جانب تھا۔
تین ماہ پہلے مریم نواز ایک مسلم لیگی کنونشن سے خطاب کرنے اسلام آباد آئیں تو انہیں سرکاری سکیورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا گیا۔ پارلیمان لاجز کے ڈی ایس پی کی نگرانی میں یہ سارا عمل سرانجام پایا۔ اب بتائیے کہ مریم نواز کے سکیورٹی اور پروٹوکول پر اخراجات میرے اور آپ کے ٹیکس سے ہونے چاہئیں؟ نیب کے ایک سینئر سابق افسر نے سرعام کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کے کیس کھنگالنے پر ایک سو ملین ڈالر خرچ ہوئے اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف دبئی میں پاکستانی اشرافیہ نے ساڑھے دس ارب ڈالر کی پراپرٹی خریدی ہے اور ہماری حکومت وہاں کشکول لے کر پہنچ جاتی ہے۔ ایک بنیادی اصول ہے کہ اقتصادیات‘ سیاست اور عقائد کو مکس اَپ نہ کریں۔ 1960ء کی دہائی میں جب پاکستان شاندار ترقی کر رہا تھا تو ہمارے پلاننگ کمیشن کے ہیڈ کا تعلق کسی اور مسلک سے تھا۔ آج متحدہ عرب امارات میں اور بحرین میں یہودی سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن وہاں کسی عالمِ دین نے اعتراض نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عاطف میاں کو‘ جو مانے ہوئے ماہر اقتصادیات ہیں اور امریکہ کی مشہور یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتے ہیں‘ ایک مشاورتی کمیٹی کا ممبر بنا دیا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ایک ہندو برطانیہ کا وزیراعظم بن چکا‘ کینیڈا کا وزیر دفاع سکھ ہے‘ لندن کا میئر مسلمان ہے لیکن ہم نظریات کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یورپ سے تجارت پر کوئی اعتراض نہیں۔ چینی ہمارے بھائی ہیں لیکن ہم مخالف نظریات کے حامل افراد کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اس انتہا پسندی سے بھی ہمارا مذاق اڑتا ہے۔
پاکستان تضادات کا مجموعہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر فحش مواد دیکھنے والوں میں بھی ہم آگے آگے ہیں اور غریبوں کو خیرات دینے والوں میں بھی۔ برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں سینما گھر کھل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بند ہو رہے ہیں۔ اسکندر مرزا سے لے کر نواز شریف تک ہمارے کتنے سابق حکمرانوں کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ ہمارے کتنے وزرائے اعظم نے کتنے مقدمات بھگتے ہیں اور کس جمہوری ملک میں ہائی کورٹ میں گھس کر ایک سابق وزیراعظم کو زبردستی پکڑا جاتا ہے؟ کس ملک میں اپنے عسکری ہیروز کے مجسمے اکھاڑے جاتے ہیں؟ پھر دنیا ہمارا مذاق کیوں نہ اڑائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں