"JDC" (space) message & send to 7575

ممکنہ سیاست بدری اور نتائج

قرائن بتا رہے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی شاید آئندہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں کیونکہ ان کی پانچ سالہ نااہلی کی سزا معطل ضرور ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی اور اگر یہ سزا ختم ہو بھی جاتی ہے تو بھی متعدد دیگر مقدمے ابھی باقی ہیں۔ کیا پارٹی چیئرمین کے بغیر تحریک انصاف الیکشن میں حصہ لے سکے گی‘ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ تحریک انصاف کے لیے میرے دل میں نرم گوشہ رہا ہے لیکن ایسا ہی نرم گوشہ جوانی میں پیپلز پارٹی کے لیے بھی تھا۔ دراصل بطور ووٹر یہ سیاسی سفر ایماندار لیڈر کی تلاش کا سفر تھا۔ 1970ء میں ایماندار لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نظر آیا۔ 2013ء اور 2018ء میں ہماری نظر چیئرمین تحریک انصاف پر پڑی‘ مگر وقت گزرا تو ایمانداری پیپلز پارٹی سے کافور ہو گئی اور تحریکِ انصاف کی حکومت میں بھی ریاستِ مدینہ کے سنہری اصولوں پر عمل دور دور تک نظر نہ آیا۔ کرپشن اپنی جگہ قائم رہی۔ سب کے لیے یکساں انصاف کا خواب بھی ادھورا ہی رہا۔ لہٰذا میں یہ کالم مکمل غیر جانبداری سے لکھ رہا ہوں۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں اس میں نظریاتی سیاست خاصی کمزور نظر آتی ہے۔ اب دائیں بازو کی جماعتیں بھی سیاسی اور مالی فوائد پر زیادہ نظر رکھتی ہیں‘ نظریے کی سر فرازی پر کم۔ بائیں بازوکی سیاست تو کب کی دم توڑ چکی۔ ہمارے ہاں بائیں بازو کے آخری نمایاں اور کامیاب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں ہی عوام کاقبلہ درست کرنا شروع کر دیا تھا مگر پھر بھی جیالوں نے ان کے لیے جانیں تک قربان کیں۔ پی ٹی آئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پارٹی چیئرمین کا فین کلب ہے‘ سیاسی جماعت نہیں۔ نومئی کے بعد جس طرح تحریک انصاف کے متعدد لوگ پارٹی سے علیحدہ ہوئے ہیں‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کی نظریاتی اساس بہت کمزور تھی۔ بہت سے لوگ اقتدار کی خاطر کپتان سے جڑے ہوئے تھے۔ ''جیہڑا جِتے اوہدے نال‘‘ ہمارے ہاں دوسرے درجے کے سیاسی لیڈروں کا شعار رہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی تحریکوں کی طویل تاریخ ہے لیکن آنے والی تحریک خاصی مختلف ہو گی۔ 1969ء میں ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا مطمح نظر آمریت کو ختم کرکے جمہوریت لانا تھا۔ ہمارے بنگالی بھائی آمریت کے سخت خلاف تھے۔ مغربی پاکستان میں ایئر مارشل اصغر خان اور ذوالفقار علی بھٹو اس تحریک کا فعال حصہ تھے۔ یہ تحریک زور شور سے چلی۔ ایوب خان نے ذہنی طور پر ہار مان لی‘ ان کی صحت گرنے لگی اور وہ اقتدار سپیکر نیشنل اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے۔ یہ فیصلہ غیر آئینی تھا اور اس تحریک کا نتیجہ لوگوں کی خواہشات کے برعکس نکلا۔
1977ء کی تحریک الیکشن میں دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ عوام صاف شفاف اور آزادانہ الیکشن چاہتے تھے جبکہ اصل میں کچھ اور ہوا۔ اس تحریک کو اصل طاقت تاجر طبقے نے فراہم کی جو بھٹو صاحب کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف تھا۔ نتیجہ پھر مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔ ضیا الحق نے آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی‘ مگر پیپلز پارٹی آج بھی فعال ہے۔ 1999ء میں پرویز مشرف آئے تو انہیں مسلم لیگ (ن) میں بڑی برائیاں نظر آئیں۔ احتساب کا عمل سنجیدگی سے شروع ہوا مگر بعد میں یہ عمل نہ صرف سست پڑ گیا بلکہ پرویز مشرف کو اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی مدد درکار تھی۔ مسلم لیگ(ن) نہ صرف زندہ رہی بلکہ 2013ء میں لیلائے اقتدار اس پر مہربان بھی ہو گئی۔
اسی تناظر میں ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ اگر 2024ء میں تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین الیکشن میں حصہ نہ لے سکے تو کیا پارٹی ختم ہو جائے گی؟ میرا جواب نفی میں ہوگا گو کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا سیاسی قد کاٹھ ذوالفقار علی بھٹو جیسا نہیں ہے مگر وہ سیاسی عزم کا استعارہ بن چکے ہیں۔ آئندہ آنے والی تحریک کیسی ہو گی‘ کیا وہ ماضی کی تحریکوں سے مختلف ہو گی‘ اس کے خدوخال ابھی سے نظر آ رہے ہیں۔ ملک میں ہر طرف بے چینی ہے۔ بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ ہم دن رات سنتے ہیں کہ غریب کا زندہ رہنا محال ہو گیا ہے لیکن اصلاحِ احوال کے لیے کوئی سنجیدہ پلان ہے ہی نہیں۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں سب سے بڑا کام یہی ہوا کہ اپنے کیس ختم کرا کے مخالفین پر مقدموں کی بھرمار کی گئی۔ ماضی کی تمام تحریکیں بشمول وکلا تحریک زیادہ تر مڈل کلاس کی شرکت کی وجہ سے چلیں۔ جلد ہی آنے والی تحریک میں عوامی شرکت زیادہ ہوگی۔ پہلی تحریکیں پُرامن ہوتی تھیں‘مگر اس بار فساد کی سی کیفیت ہے۔ لوگ آٹے‘ چینی کے گوداموں پر حملے کرسکتے ہیں۔ انارکی پھیل سکتی ہے۔ وار لارڈ جنم لے سکتے ہیں۔ اس صورتحال کا بہترین حل صاف شفاف الیکشن ہیں جن میں تحریک انصاف کو شرکت کا حق لازمی دیا جانا چاہیے۔
مجھے لیکن اس کے برعکس دو سیناریو نظر آ رہے ہیں ایک یہ کہ کپتان اور تحریک انصاف کو اگلے الیکشن سے مکمل طور پر دور رکھا جائے اور کسی مزاحمت کی صورت میں مزاحمت کاروں سے سختی نمٹا جائے۔ ایسی صورت میں روایتی پارٹیاں نصف سے زیادہ نشستیں جیت جائیں گی۔ آزاد امیدواروں کی بھاری اکثریت جیتے گی جو حکومت میں شامل ہو جائے گی لیکن اس طرح کے الیکشن شاید عوام کو قابلِ قبول نہ ہوں۔ حکومت میں شامل کاسہ لیس قسم کی اشرافیہ اور فیوڈل لارڈز دوبارہ ملک پر مسلط ہو جائیں گے۔ یہ ملک کے مسائل کا حل نکالنے کے بجائے خود امیر تر ہونے کی فکر میں ہوں گے۔ حکومت مخالف تحریک الیکشن کے چند ماہ بعد شروع ہو جائے گی‘ قوم کی نگاہیں قیدی نمبر 804پر ہوں گی۔ اس کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے سپورٹر کہتے ہیں کہ ان کا لیڈر رہا ہونے کے بعد مکمل ''انقلابی ‘‘ہو گا۔ اس کی سب سے زیادہ مقبولیت خیبر پختونخوا میں ہے‘ وہ وہاں جا کر نئے الیکشن کا مطالبہ کرے گا اور سویلین برتری کا نعرہ لگائے گا۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ ایچی سن کالج لاہور نے کبھی کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ دوسرا سیناریو یہ ہے کہ کپتان جیل میں ہی رہے اور تحریک انصاف کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جائے۔ اگر تحریک انصاف بیس پچیس نشستیں جیتتی ہے تو وہ حکومت کے لیے کوئی بڑا درد سر نہیں ہو گی مگر زیادہ نشستیں جیت کر وہ اپنے لیڈر کی رہائی کا بھرپور مطالبہ کرے گی اور پارلیمنٹ کو بھی شوروغوغا کا مسلسل سامنا رہے گا۔ گویا عدم استحکام باقی رہے گا۔
ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ہندو برادری پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر بیٹھ کر امن و امان مانگ رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں گروہی اختلافات مظاہروں کا سبب بنے ہیں‘ انڈین میڈیا اس پر بغلیں بجا رہا ہے۔ اب عوام کا اعتماد الیکشن سے بھی اُٹھ گیا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری اور ان کے خلاف چلنے والے مقدموں سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اگرچہ اس کی پہلی اننگز بہت عام سی تھی لیکن پی ڈی ایم نے اپنی خراب تر کارکردگی سے کپتان کو دوبارہ بطور لیڈر زندہ کیا ہے۔ ہم گلوبل ویلیج میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ کی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش ہوا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے لہٰذا امداد بند کی جائے۔ ہمارے موجودہ مسائل کا احسن حل تمام پارٹیوں کی شمولیت کے ساتھ صاف شفاف الیکشن ہی ہے۔ ورنہ طوائف الملوکی ہو گی۔ ہمارا حال شام اور برما جیسا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں