"JDC" (space) message & send to 7575

اشرافیہ کا شکنجہ

پچھلے کچھ عرصے سے Elite Capture کی اصطلاح پاکستان کے سیاق میں خاصی استعمال ہو رہی ہے۔ ویسے تو اس طبقے کے خلاف جذباتی بحث اور سیاسی نعرے ایک عرصے سے لگ رہے ہیں لیکن اس پر معروضی اور سائنٹیفک طریقے سے کام کم ہی ہوا ہے۔ نصف صدی پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے بائیس خاندانوں کی اصطلاح رائج کی تھی۔ بھٹو صاحب نے اسے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا۔ بہت سی صنعتیں‘ بینک حتیٰ کہ سکول اور کالج بھی قومیا لئے گئے یوں معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں پیپلز پارٹی نے پہلا بڑا قدم اٹھایا۔ سرکاری افسر صنعتیں چلانے لگے‘ مگر یہ تجربہ بُری طرح ناکام ہوا تو پیپلز پارٹی نجکاری کی پالیسی کی طرف راغب ہوئی۔
اشرافیہ سے مراد وہ طبقہ ہے جو اپنے مال و دولت یا اقتدار کی طاقت سے قومی وسائل کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ کے بارے سنجیدہ ریسرچ UNDP کی ہے۔اس میں مندرجہ ذیل طبقات یا گروپس کو اشرافیہ کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے :حکومتی کنٹرول میں انڈسٹری‘ اسٹیبلشمنٹ‘ زیادہ متمول اشخاص جو آبادی کا ایک فیصد ہیں‘ بڑے تاجر‘ بڑے برآمد کنندگان‘ بینک مالکان‘ صنعتکار اور فیوڈل لارڈ یعنی بڑے بڑے زمیندار۔ گو کہ یہ فہرست خاصی جامع ہے لیکن پاکستان کے سیاق میں بات کو زیادہ واضح کرنے کیلئے شوگر مافیا‘ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز‘ میڈیا مالکان اور معروف اینکرز‘ آئی پی پیز مالکان‘ پرائیویٹ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی مالکان کو بھی اجاگر کرنا مفید ہے۔
اپنے تمام قومی مسائل کا ذمہ دار اشرافیہ کو ٹھہرانا بھی درست طرزِ فکر نہیں۔ صنعتکار اپنی بچت سے یا بینکوں سے قرضہ لے کر انڈسٹری لگاتا ہے‘ سینکڑوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے‘ قومی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے‘ حکومت کو ایکسائز ڈیوٹی ملتی ہے‘ انکم ٹیکس ملتا ہے‘ برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے‘ لہٰذا اشرافیہ کا ایک مثبت رول بھی ہے۔انڈیا کی موجودہ ترقی میں برلا‘ ٹاٹا‘ متل‘ جندال اور امبانی جیسے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے ہاں سہگل‘ حبیب‘ داؤد‘ لاکھانی‘ اصفہانی گروپ اور کریسنٹ نے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ کس عہدے کی تنخواہ کتنی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی تنخواہیں بہت ہیں لیکن پرائیویٹ سیکٹر کی طرف دیکھیں تو آپ کو عدلیہ کی تنخواہیں بہت کم لگیں گی۔ تمام بڑے بینکوں کے ہیڈ تقریباً دو کروڑ ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں مگر ان کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کون کتنا کما رہا ہے سوال یہ ہے کہ کون کتنا ٹیکس دے رہا ہے اور کیا ٹیکس کا نظام عادلانہ ہے یا نہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ٹیکس کا نظام غیر منصفانہ ہے۔ زرعی انکم ٹیکس کا ٹوٹل ریونیو میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ 76 سال سے وڈیرے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ٹیکس آمدن کا قومی آمدنی سے تناسب جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف والے بار بار کہہ رہے ہیں کہ امیروں سے ٹیکس لو اور غریبوں پرخرچ کرو اور یہ بات اسلامی ریاست کو کہی جا رہی ہے جو بنائی ہی عدل و انصاف کیلئے گئی تھی۔
ڈائریکٹ ٹیکس کا زیادہ بوجھ صاحبِ ثروت طبقہ اٹھاتا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال انکم ٹیکس ہے۔ جو جتنا امیر ہوگا اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے گا۔ مغربی ممالک میں ٹیکس بہت زیادہ ہے لیکن لوگ اس لیے شور نہیں مچاتے کیونکہ انہیں یہ ایمانداری سے اپنی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں ویلتھ ٹیکس 1963ء میں لگایا گیا اور 2002ء میں ختم کر دیا گیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے Wealth Tax صرف اُن لوگوں پر لگتا تھا جن کے اثاثے زیادہ ہوتے تھے لیکن مراعات یافتہ طبقے کو یہ قطعاً پسند نہیں تھا‘ لہٰذا ختم کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مراعات یافتہ طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا گیا اور حکومت غریب تر‘ لہٰذا ہماری حکومت ہاتھ میں کشکول لیے در بدر پھرتی رہتی ہے۔
حکومت اور اشرافیہ کا گٹھ جوڑ پاکستان میں شدید مسائل کا سبب ہے۔ مغربی ممالک میں مصلحتوں کے ٹکراؤ (Conflict of Interest)کے قوانین سخت ہیں۔ آج کل امریکی کانگریس میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ صدر بائیڈن کے قریبی رشتہ داروں نے صدر کے عہدے کی وجہ سے مالی فوائد حاصل کئے ہیں لہٰذا صدر کا مواخذہ ہونا چاہئے جبکہ ہمارے ہاں دو خاندان اقتدار اس لیے حاصل کرتے رہے کہ اپنی دولت میں اضافہ کر سکیں۔پاکستان میں آزاد بجلی گھر(Independent Power Producers) یعنی IPPs کا سلسلہ 1994ء میں شروع ہوا‘ چالیس سے زائد IPPs ہیں‘ اس سارے دھندے میں پاکستان کی اشرافیہ بھرپور شریک ہے۔ ان کے سیاستدانوں سے ہمیشہ دوستانہ تعلقات رہے‘ بجلی کے کارخانے پاکستانی کمپنیوں نے لگائے اور ادائیگی ڈالر میں ہوتی رہی۔ حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے ادائیگی کی پابند ہے‘ امپورٹ میں IPPs کو کسٹم ڈیوٹی میں خاص رعایت ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اپنی ہی انڈسٹری کے قریب بجلی کا کارخانہ لگا لیا بجلی خود بھی استعمال کی اور اضافی انرجی حکومت کو ڈالروں میں بیچ دی یعنی اپنی انڈسٹری کیلئے بجلی تقریباً مفت مل گئی۔ یقین مانئے کہ اشرافیہ کیلئے پاکستان اب بھی جنت ہے۔
شوگر مل مالکان کو لیجئے یہ ہر سیاسی جماعت میں گھسے ہوئے ہیں۔ کبھی ذخیرہ اندوزی سے چینی کی قیمت میں اضافہ کر لیتے ہیں تو کبھی ایکسپورٹ کر کے۔ اور پھر وہی بیورو کریسی جو ایکسپورٹ کی اجازت دیتی ہے وہی افسر امپورٹ کا حکم بھی جاری کرتے ہیں یہاں سیاسی لیڈر‘ شوگر مافیا اور سرکاری افسر ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں‘ مارا صرف غریب آدمی جاتا ہے۔ ہر دفعہ بجلی کے نرخ اور پٹرول کی قیمت بڑھاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ غریب پر بوجھ کم سے کم ڈالا جائے گا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ امیر آدمی جب لینڈ کروزر میں ساٹھ ستر لٹر پٹرول ڈلواتا ہے تو اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا مگر جب ہزار روپیہ روزانہ کمانے والا اپنی موٹر سائیکل میں ایک لٹر پٹرول ڈلواتا ہے تو اس کا دل دہل جاتا ہے۔ شوگر مافیا کی طرح رئیل اسٹیٹ والے بھی سیاسی لیڈروں سے خوب بنا کر رکھتے ہیں۔ انہیں سیاسی لیڈروں سے محبت نہیں اپنے اثاثوں اور دولت میں اضافہ مقصود ہوتا ہے۔1990ء کی دہائی میں Statutory Regulatory Orders یعنی SRO بعض منظورِ نظر تاجروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے خوب استعمال ہوئے۔ طریقۂ واردات یہ تھا کہ چند امپورٹڈ آئٹمز پر مخصوص عرصے کیلئے ڈیوٹی معاف یا کم کر دی جاتی تھی اور فائدہ حاصل ہونے کے بعد بحال ہو جاتی تھی۔جو قارئین پاکستان میں کرپشن کے انوکھے طریقوں پر ریسرچ کرنا چاہتے ہیں وہProtection of Economic Reforms Actجو 1992ء میں بنا تھا‘ کا بغور مطالعہ کریں۔ لبِ لباب یہ تھا کہ باہر سے آنے والے زرمبادلہ یعنی ہارڈ کرنسی کے بارے میں سوال نہیں پوچھے جائیں گے۔ اس سے منی لانڈرنگ کے دروازے کھل گئے۔تجارت اور سیاست کا ملاپ اشرافیہ کو بہت سوٹ کرتا ہے لیکن اشرافیہ کے شکنجے کی وجہ سے ملک اور عوام گھاٹے میں رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں