"JDC" (space) message & send to 7575

پھر برق فروزاں ہے سرِوادیٔ سینا

چند روز پہلے اسرائیل پر حماس کا اچانک حملہ پوری دنیا کو حیران کر گیا۔ اسرائیل میں یوم کپور(Yom Kippur)منایاجا رہا تھا۔ یہ دن جو اکتوبر میں آتا ہے ‘یہودیوں کیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کیلئے یہ توبہ کا دن ہے اور عام اعتقاد ہے کہ اس روز توبہ قبول ہوتی ہے‘ لیکن اب اس روز کی ایک اضافی اہمیت بھی ہے۔1973ء کی عرب اسرائیل جنگ بھی اسی روز شروع ہوئی تھی۔ یہ وہ جنگ تھی جو عربوں نے میدان میں تو خوب لڑی لیکن مذاکرات کی میز پر ہار گئے۔ اسرائیلی یوم کپور کے روز فتح کا جشن مناتے ہیں۔
پاکستان میں کئی مبصر موجودہ جنگ کو عرب اسرائیل جنگ کہہ رہے ہیں‘ مجھے اُن سے اختلاف ہے۔ اس جنگ میں تو پی ایل او بھی حماس کے ساتھ شامل نہیں۔ عرب ممالک میں سے صرف قطر نے اسرائیل کی کھل کر مذمت کی ہے۔ باقی عرب ممالک نے جنگ بندی پر زیادہ زور دیا ہے۔ ڈاکٹر طارق السویدان مشہور کویتی دانشور ہیں۔ اسلامی ذہن رکھتے ہیں‘ گو کہ ان کا اصل اختصاص صنعت اور تجارت کے فروغ کیلئے ذہن سازی اور منصوبہ بندی ہے اور اس سلسلہ میں وہ عرب ممالک میں لیکچر دیتے رہتے ہیں ان کی تازہ ترین اصطلاح''صہیونی عرب‘‘ ہے جو سوشل میڈیا میں مقبولیت پا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اشارہ اُن عرب ممالک کی طرف ہے جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔
غزہ کی جنگ تنگ آمد بجنگ آمد والا معاملہ ہے۔ غزہ کی کل آبادی 20 لاکھ سے تھوڑی ہی زیادہ ہے۔ رقبہ 140مربع میل ہے‘ محدود رقبہ ہونے کی وجہ سے غزہ گنجان آباد ہے۔ زیادہ تر آبادی بلندو بالا عمارتوں میں چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتی ہے۔ غزہ میں آنے جانے کے دو ہی راستے ہیں ایک براستہ مصر اور دوسرا بذریعہ مقبوضہ فلسطین۔ اس راستے پر سکیورٹی کنٹرول اسرائیل کا ہے۔ غزہ میں 2007ء سے حماس کی حکومت ہے۔ حکومت بھی کیا ہے بس یوں سمجھ لیجئے کہ لوکل گورنمنٹ کا نظام ہے جس کا کام صحت‘ صفائی اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ نہ اپنی کوئی منظم فوج ہے اور نہ کرنسی نہ کوئی اپنا ایئرپورٹ ہے اور نہ ہی بندرگاہ۔ مغرب میں بحیرۂ روم ہے جہاں اسرائیلی نیوی پٹرولنگ کرتی رہتی ہے۔ اس بے سرو سامانی کی حالت میں اسرائیل پر اتنا بڑا حملہ اور بھی اچنبھے کی بات ہے۔ غزہ کے اپنے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں لہٰذا زیادہ تر انحصار بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات پر ہے۔ حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین تھے جنہوں نے تنظیم کی بنیاد 1987ء میں رکھی تھی۔ شیخ احمد یٰسین نے اسرائیلی جیل کاٹی۔ اخوان المسلمین سے متاثر تھے۔ ایک اسرائیلی حملے میں ایسے زخمی ہوئے کہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے۔2004ء میں ویل چیئرپر علی الصبح ان کے معاون نماز فجر کیلئے انہیں مسجد لئے جا رہے تھے کہ اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے گولیاں برسا دیں اور وہ شہید ہو گئے۔ حماس پی ایل او کی صلح جو پالیسی کی مخالف تھی۔ اسرائیل کا قبضہ غزہ کی پٹی پر 2005ء تک رہا۔ یہ قبضہ 1967ء سے قائم تھا لیکن اسرائیل مخالف جذبات انتفادہ کی صورت میں ظاہر ہوتے رہے۔ 2007ء میں غزہ میں الیکشن ہوا۔ حماس اور پی ایل او مد مقابل تھیں۔ حماس نے وہ الیکشن واضح اکثریت سے جیتا۔
اور اب واپس آتے ہیں موجودہ صورتحال کی طرف۔ اکثر مغربی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ عرب ممالک اسرائیل کی حقیقت کا ادراک کر چکے تھے۔ ایک بڑا خلیجی ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب تھا۔ حماس اور اس کے علاقائی حامیوں کیلئے یہ صورتحال ناقابلِ قبول تھی۔ یہ حملہ اس سر تسلیم خم کرنے کی رغبت کو ختم یا ملتوی کرنے کیلئے کیا گیا۔ اس بات میں وزن ہے۔ حماس کو علم ہے کہ عرب حکمران ضرور اسرائیل کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی جانب راغب ہیں لیکن عرب عوام کی سوچ مختلف ہے۔ عوام نے پی ایل او کی صلح جوئی کی پالیسی کے ثمرات دیکھ لیے ہیں۔ مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت برائے نام ہے۔ پانچ سو سے زائد اسرائیلی چیک پوائنٹس ہیں۔ اپنی ہی سرزمین پر ان کی نقل و حرکت روزانہ چیک ہوتی ہے۔ ان کی سرزمین پر یہودی بستیاں بنی ہیں جو بڑھتی ہی گئیں۔ اوسلو معاہدے کا یہی صلہ ملنا تھا؟
صدر بائیڈن کی شدید خواہش تھی کہ اس سال یا اگلے سال کے آغاز میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات استوار ہو جائیں۔ بائیڈن کی نظریں اگلے سال کے صدارتی الیکشن پر ہیں۔ داخلی طور پر وہ کوئی بڑی کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے۔ یوکرین کی جنگ کے بھی کوئی مثبت نتائج مغربی ممالک کو ابھی تک حاصل نہیں ہوئے۔ مشرق وسطیٰ میں صلح کیلئے کوئی بڑی پیش رفت ان کی الیکشن کی پوزیشن کو شاید بہتر کر سکتی تھی لیکن وہ امید بھی غزہ کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی اور یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ صدر بائیڈن کی مقبولیت کا گراف امریکہ میں خاصا نیچے جا چکا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے مابین میزائلوں کی محدود جنگیں چار مرتبہ پہلے بھی ہو چکی ہیں لیکن موجودہ جنگ کا لیول زیادہ خطرناک ہے۔ مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے دونوں جانب سے بہت سے جنگی قیدی بنائے جا چکے ہیں۔ تادم تحریر مارے جانے والوں میں گیارہ امریکی شہری بھی ہیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کا اہم عنصر رہی ہے۔ حماس کے حملے کے جلد ہی بعد امریکہ نے اسرائیل کیلئے خطیر امداد کا اعلان کیا۔ حماس کے حملے کو امریکی میڈیا بے گناہ اسرائیلی شہریوں پر حملہ قرار دے رہا ہے لیکن وہ یہ بھول رہا ہے کہ 1948ء سے لیکر اب تک کتنے بے گناہ فلسطینی قیام اسرائیل کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ کتنے لاکھ فلسطینی آج بھی لبنان‘ شام اور اردن کے مہاجر کیمپوں میں رہے رہے اور انہیں اپنے وطن واپس جانے کا حق حاصل نہیں۔
چند ماہ پہلے چین نے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرائے تو امریکہ اور انڈیا چونک اٹھے تھے‘ امریکہ نے سعودی عرب سے اسرائیل کی صلح کی کوشش تیز تر کر دی۔ سعودی‘ امریکی اسرائیلی مثلث میں بھارت کا بھی فائدہ تھا۔ سعودی عرب نے بدلے میں امریکہ سے سکیورٹی کی ضمانت اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام مانگا۔ جی 20کے اجلاس میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ عالمی منصوبے کی نقل میں انڈیا کو تجارتی طور پر مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ سے ملانے کے روٹ کا اعلان ہوا۔ یہ روٹ اسرائیل سے گزر کر یورپ جاتا۔ اس منصوبے پر بھی غزہ کی جنگ سے کاری ضرب لگی ہے۔
پاکستان پر بھی اب اسرائیل کا تسلیم کرنے کا دبائو کم ہو جائے گا۔ پاکستان اور ترکیہ نے دو ریاستی حل کی ایک بار پھر حمایت کی ہے۔ چین کا بھی یہی مؤقف ہے۔ فلسطینی اپنا مؤقف ایک بار پھر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عرب دنیا میں تقسیم بھی ہے اور کمزوری بھی۔ بہت سے عرب ممالک آج بھی حماس سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔
اسرائیل نے لاکھوں کی تعداد جبری بھرتی والے فوجی غزہ اور لبنان کی سرحد پر کھڑے کردیئے ہیں۔ بمباری جاری ہے اور شدید محاصرہ ہو چکا ہے۔ پاکستان‘ سعودی عرب‘ ترکیہ اور مصر کو مل کر فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کرنی چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں