"JDC" (space) message & send to 7575

نجکاری اب ناگزیر

آپ نے آکاس بیل ضرور دیکھی ہو گی۔ اس طفیلی بیل کی جڑیں زمین میں نہیں ہوتیں۔ یہ بڑے سے بڑے درخت پر شیطان کی آنت کی طرح پھیل جاتی ہے۔ درخت سے ہی اپنی خوراک حاصل کرتی ہے۔قدآور درخت کمزور ہونے لگتا ہے جبکہ آکاس بیل دیکھتے ہی دیکھتے چوٹی تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ سمجھ لیں کہ پاکستان وہ تنو مند درخت تھا جس پر طرح طرح کی آکاس بیلوں نے قبضہ کر لیا۔ اس کی ٹہنیوں کا کچھ رس کرپشن نے چوس لیا مگر حکومتی تحویل میں چلنے والے اداروں نے بھی کچھ کم نہیں کیا۔ ان میں سے چند ادارے روزانہ کروڑوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کو زندہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً امدادی فنڈز کی صورت میں آکسیجن فراہم کی جاتی ہے جو ٹیکس دہندہ کی جیب سے جاتی ہے۔ ایسے اداروں کی نجکاری اس مخدوش حالت کا واحد حل ہے لیکن نجکاری کا عمل 2006ء کے بعد بے حد سست روی کا شکار ہے۔
پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل ملز‘ پاکستان ریلویز اور دیگر سرکاری اداروں کا مجموعی خسارہ اس وقت دو اعشاریہ پانچ کھرب روپے سالانہ ہے جو تقریباً آٹھ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر بنتا ہے۔ آپ سوچیں کہ اگر یہ ادارے حکومت کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہوتے تو نہ ہمیں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن لینا پڑتی اور نہ ہی ملکوں ملکوں کشکول لے کر جانا پڑتا۔
صرف پی آئی اے‘ جو ایک زمانے میں فخرِ پاکستان ہوتی تھی‘ اور جسے مسز جیکولین کینڈی نے Great people to fly with جیسے ستائشی جملے سے نوازا تھا‘ آج چھ سو ارب روپے سالانہ کے خسارے سے چل رہی ہے۔ پچھلے دس روز میں پی آئی اے کی تین سو پروازیں کینسل ہو چکی ہیں کیونکہ ایئر لائن کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہزاروں مسافر ایئر پورٹ پر انتظار کرتے رہے اور یہ صورتحال صرف ملکی پروازوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ بہت ساری غیر ملکی پروازیں بھی کینسل ہوئی ہیں۔ یعنی ہماری ایئر لائن کے کنگال ہونے کی داستان پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ دوسری جانب دیکھیں تو پچھلے چند برسوں میں دو تین ایئر لائنز پرائیویٹ سیکٹر میں آئی ہیں اور یہ سب منافع میں چل رہی ہیں‘ ورنہ کب کی بند ہو چکی ہوتیں۔ ان کی انتظامیہ‘ پائلٹ‘ کیبن کا عملہ سب پاکستانی ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ سٹاف ضرورت کے مطابق ہے اور بھرتیاں میرٹ پر ہوئی ہیں۔
یورپ میں نجکاری کو مقبول کرنے کا سہرا سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے سر ہے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ صنعتی اور تجارتی ادارے چلانا حکومتوں کا کام نہیں۔ حکومت کو اپنی سرگرمیاں ان شعبوں تک محدود کرنی چاہئیں جہاں پرائیویٹ سیکٹر کام نہیں کر سکتا۔ مثلاً دفاع‘ امن و امان‘ ٹیکس کا نظام‘ مواصلات اور آبپاشی وغیرہ۔ اس کے بعد اکثر حکمرانوں نے اس سوچ کو اپنا لیا کہ بینک اور انشورنس کے علاوہ صنعتی ادارے پرائیویٹ سیکٹر کے پاس رہیں تو بہتر چلتے ہیں۔ البتہ حکومت کو ریگولیٹر کا رول ضرور ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان میں متعدد انڈسٹریل یونٹ اور بینک ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں قومیا لیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی سرمایہ کار بھی دوسرے ممالک کا رُخ کرنے لگے۔ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (BECO) ہمارا قابلِ فخر ادارہ تھا۔ سی ایم لطیف اس کے مالک تھے۔ چین کے وزیراعظم چو این لائی پاکستان آئے تو اس شاندار ادارے کو دیکھنے گئے۔ اسے بھی قومی تحویل میں لے لیا گیا اور نیا نام پاکستان انجینئرنگ کمپنی (PECO)رکھا گیا۔ سی ایم لطیف دلبرداشتہ ہو کر پاکستان سے باہر چلے گئے اور یہ ادارہ تباہ و برباد ہو گیا۔ صدر ضیا الحق کی حکومت آئی تو نجکاری کا عمل شروع ہوا۔ شریف فیملی کو اس کے صنعتی یونٹ واپس کیے گئے۔ اس کے بعد آنے والی ہر حکومت نے نجکاری کے عمل میں حصہ ڈالا لیکن رفتار سست رہی۔ صدر پرویز مشرف کے عہد میں مؤثر نجکاری ہوئی۔ تین بڑے بینک پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ دیے گئے۔ یونائیٹڈ بینک‘ حبیب بینک اور مسلم کمرشل بینک نجی سیکٹر میں جانے کے بعد کامیابی سے چلے۔ پرائیویٹ بینکوں میں خراب قرضوں یعنی Bad Loans کا حجم سرکاری بینکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرکاری بینک کئی قرضے سیاسی سفارشات پر دیتے ہیں۔ قارئین کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ خراب قرض وہ قرض ہوتا ہے جو بینک کو واپس نہ ملے۔سیاسی حکومتوں میں نجکاری کا عمل سست اس لیے بھی ہوتا ہے کہ نجکاری کا سنتے ہی مزدور یونینز حرکت میں آ جاتی ہیں۔ اپوزیشن کو اپنا ہم نوا بنا لیتی ہیں اور نجکاری کے خلاف بیان بازی شروع ہو جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ بھی سوچتی ہیں کہ مزدوروں کی مخالفت سے ووٹوں کا نقصان ہوگا۔ لہٰذا نجکاری کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔ صدر پرویز مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر عشرت حسین گورنر سٹیٹ بینک تھے اور حفیظ شیخ نجکاری کے وزیر‘ تینوں کو ووٹوں کی ضرورت نہیں تھی‘لہٰذا نجکاری کا عمل کامیابی سے چلا۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ نجکاری کا عمل کامیابی سے چلتا رہتا تو کتنے لوگوں کو روزگار ملتا‘ کتنے سکول اور کالج مزید کھلتے‘ ہمارا صحت کا شعبہ بھی کتنا بہتر ہوتا۔ شروع میں یہ لگتا ہے کہ نجکاری سے ہزاروں لوگوں کی نوکریاں جائیں گی۔ بے روزگاری پھیلے گی لیکن تحقیق اور تجربہ دونوں یہ بتاتے ہیں کہ نجکاری سے بالآخر فائدہ عوام کا ہوتا ہے۔ پرائیویٹ ادارے بہتر سروس دیتے ہیں۔ ایک زمانے میں ٹیلی فون لائن لگوانے کے لیے مہینوں نہیں برسوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ آپس میں مقابلے کی وجہ سے پرائیویٹ بینک‘ پرائیویٹ بس کمپنیاں اور پرائیویٹ ایئر لائنز کی سروس بہتر ہوئی ہے۔ 2017ء میں پی آئی اے میں فی جہاز 550 ملازم تھے۔ ان میں سے کتنے سفارشی تھے‘ یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ تمام کی تمام تقرریاں سو فیصد میرٹ پر نہیں ہوتی تھیں۔ اس کے مقابلے ترکش ایئر لائن میں فی جہاز تقریباً سو ملازم ہیں‘ تو پھر چہ عجب کہ ترکش ایئر لائن دنیا کے کونے کونے میں اڑانیں بھر رہی ہے جبکہ پی آئی اے زمین بوس ہے۔
جیسا کہ اوپر مذکور ہے‘ پاکستان میں نجکاری کا عمل 2006ء سے سخت سست روی کا شکار ہے اور بنیادی سبب عدالتِ عظمیٰ کا جون 2006ء کا پاکستان سٹیل ملز کے بارے میں فیصلہ ہے جسے کبھی بھی سنہری حروف میں نہیں لکھا جائے گا۔ جیسے ہی نجکاری کی بات شروع ہوئی تو پاکستان سٹیل ملز کی ورکرز یونین نے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردی۔ ہائی کورٹ نے پٹیشن مسترد کر دی تو ورکرز یونین نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ اس دفعہ فیصلہ یونین کے حق میں آیا۔ سپریم کورٹ بنچ کی قیادت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کر رہے تھے۔ اس فیصلے کے بعد کوئی بڑا سرمایہ کار پاکستان نہیں آیا۔ پاکستان سٹیل ملز 2015ء سے بند پڑی ہے۔ کسی سیاسی حکومت نے اس سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں کی۔ لوگ فارغ بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اور اب وزیر نجکاری فواد حسن فواد کہہ رہے ہیں کہ اگلے دو ماہ میں پی آئی اے کی نجکاری کر دی جائے گی۔ ماہرین کی رائے ہے کہ کامیاب اور مفید نجکاری کے لیے پانچ سے چھ ماہ درکار ہوتے ہیں۔ پہلا قدم تو کسی انٹرنیشنل لیول کے فنانشل ایڈوائزر کا تقرر ہے۔ اگر آپ PEPRAرولز کے مطابق اخباروں میں اشتہار دیں گے تو کوئی کمزور اور نااہل پارٹی بھی ٹھیکہ لے سکتی ہے۔ اس کام کے لیے ورلڈ بینک سے مدد لیں اور جلد بازی نہ کریں۔ جلد بازی کا انجام شاذو نادر ہی اچھا ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں