عید‘ تنہائی اور دارالحکومت

جب 1968ء نیا دارالحکومت‘ اسلام آباد بنا تو پاکستان بھر سے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے۔ایوب خان کا بسایاہوا یہ شہر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ایک ہے ۔مارگلہ ہلز‘ درخت ‘ہریالی ‘خوبصورت موسم اورجدید سہولیات اس کو منفرد بناتی ہیں۔ علاوہ ازیں اہم قومی عمارتیں‘ غیر ملکی سرمایہ کار‘سفارت کار اور بین الاقوامی ادارے یہاں موجود ہیں‘ لیکن یہ پردیسیوں کا شہر ہے‘ کیونکہ جیسے ہی عید ین کے تہوار آتے ہیں ‘لوگ آبائی علاقوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور یہ شہر‘ عید جیسے تہوار پر سائیں سائیں کرتا ہے۔
یوں تو اسلام آباد بہت ترقی یافتہ شہر ہے ‘خوبصورت ہے‘صاف ہے‘ لیکن یہ شہر رشتے نہیں بنا سکا۔ لوگ آج بھی ایک دوسرے سے فاصلے پر ہی رہتے ہیں۔میں جب بھی لاہور‘ کراچی‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ پشاور‘ چار سدہ‘ نوشہرہ ‘مری ‘ملتان یا حیدر آباد گئی‘ میں نے یہ بات محسوس کی کہ محلے دار ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں‘ ان شہروں کی الگ ہی رونقیں ہیں‘ہمسائے رشتہ داروں سے بڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہی کہ اسلام آباد کے لوگ مددگار نہیں‘ لیکن وہ ایک فاصلہ رکھتے ہیں ‘جس سے محلے داریاں یا رشتہ داریاں نہیں بنتیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے سے ہی اسلام آباد میں سیاسی ‘تجارتی‘ صحافتی ومعاشی سرگرمیاں مانند پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔سیاست دان اپنے حلقوں میں عید منانے چلے جاتے ہیں۔سرکاری بابو بھی اپنے اپنے شہروں اور گاؤں کا رخ کرجاتے ہیں۔جو لوگ یہاں(اسلام آباد) عید مناتے ہیں ‘وہ بھی تیارشیار ہوکر اونگھتے رہتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے کم ہی میل جول رکھتے ہیں۔
ان دنوں عالمگیرکوروناوائرس جیسی موذی وبا کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں کی طرح دارالحکومت اسلام آباد کے شہریوں کو کئی مشکلات کا سامنا رہا ؛کوئی تنخواہ سے محروم رہا‘ تو کوئی عید کیلئے خریداری نہ کرسکا ‘کسی کو ٹکٹ نہ ملا تو کوئی سخت معاشی حالات میں سفر کا سوچ بھی نہ سکا۔شہر میں سمارٹ لاک ڈاؤن تھا‘ تاہم جیسے ہی اس میں نرمی ہوئی اور پردیسی اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کیلئے بد قسمت طیارے پر سوار ہوئے تو منزل مقصود پر نہ پہنچ سکے۔طیارہ منزل کے قریب پہنچ کر تباہ ہوگیا اور کم و بیش ایک سو افراد جاں بحق ہو گئے‘ یوں درجنوں خاندانوں کی امسال عید سوگوار ہوگئی۔پہلے ہی کورونا کا خوف ‘معاشی بدحالی کی وجہ سے عید کی خوشیاں ماند پڑچکی تھیں ‘ اوپر سے عید سے قبل فضائی حادثے نے قوم کو مزید سوگوار کردیا۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے خوشیاں ہم سے روٹھ گئی ہیں اور سانحات ہماری مسکراہٹ چھین رہے ہیں۔
اسلام آباد میں اس وقت بہت خاموشی ہے۔ چھوٹے گھروں میں بڑے معاشی مسائل ہوتے ہیں‘ لیکن سب وہاں مل کررہتے ہیں‘ جبکہ بڑے گھروں میں چھوٹے معاشی مسائل ہوتے ہیں‘ لیکن وہاں سب زیادہ تر افراد الگ الگ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔دل کیا تو شوہر بیوی سے بات کرلے گا‘ ورنہ اس کیلئے اس کا کام اور فون ہی اہم ہے۔بیوی پیسے کی فراوانی کی وجہ سے اپنی توجہ شاپنگ پر مرکوز کردیتی ہے‘ کیونکہ شوہر سے توجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے لئے گھر اور گھر سے باہر مصروفیت ڈھونڈ لیتی ہے۔کبھی سماجی کام شروع کردیتی ہے‘ کبھی درس میں جاتی ہے‘ کبھی دنیا بھر کی نعمتیں گھر میں جمع کرلیتی ہے‘ لیکن جب شوہر کی توجہ نہیں پاتی تو عورت بجھ جاتی ہے۔ایلیٹ طبقے کی عورت کچھ کہہ بھی نہیں سکتی‘کیونکہ سوسائٹی میں اس کا بھرم ٹوٹ جائے گا ‘لیکن آنکھیں پڑھنے والے میلوں دور بھی آنکھوں کی اداسی پڑھ لیتے ہیں۔عورت چاہے جتنی ترقی کرلے ‘جتنے بڑے عہدے پر چلی جائے ‘لیکن اس کا دل اور ٓ انکھیں وفا کی متلاشی رہتی ہیں۔ہر عورت ایک سکون والے گھر کی متلاشی رہتی ہے۔
دوسرے رشتے بھی بہت حد تک کھوکھلے ہورہے ہیں‘ تنہائی زندگیوں پر غالب آرہی ہے۔گھروں میں سب سماجی کنارہ کشی کرتے ہوئے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کررہے ‘کوئی فون پر مصروف ہے ‘کوئی سوشل میڈیا پر مصروف ہے‘ کسی نے نیٹ لگا رکھا ہے‘ تو کوئی واٹس ایپ پر مصروف ہے۔سب اکٹھے تب ہی ہوتے ہیں‘ جب لائٹ چلی جائے اور یوپی ایس اور نیٹ بند ہوجائے۔یوں لگتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کتراتے ہیں‘ہمسائے ہمسایوں سے بات نہیں کرتے۔بس نوکروں کے ذریعے سے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے‘ اپنے غریب رشتہ داروں سے ملنے کا تو کوئی سوچتا ہی نہیں۔الغرض اسلام آباد ویسا شہر نہیں بن سکا ‘جس میں لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ اسلام آباد ویسے بھی بابولوگوںکا شہر ہے۔ دس مرلے سے کنال تک کی کوٹھیوں پر عہدوں کی نیم پلیٹیں لگی ہوئی ہیں‘ لیکن ان محلات نما گھروں میں رہنے والے انا کے بھرم میں ایک دوسرے سے نہیں ملتے اور یہ شہر‘ ذات برادری کے نام پر بٹا ہوام محسوس ہوتا ہے۔یہاں کے امیر لڑکے پہلے لڑکیوں کو شادی کی آس دلاتے ہیں اور جب لڑکی سنجیدہ ہوجاتی ہے تو اس کو چھوڑ کر اپنی برداری میں شادی رچالیتے ہیں۔اکثر اوقات ایسا دھوکا لڑکوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ جب لڑکیاں یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے کہا ہے کہ یہ رشتہ زیادہ دیر چل نہیں پائے گا۔سستی تفریح گاہوں اور سستے ہوٹلز کی شہر میں کمی ہے‘ متوسط طبقہ بڑے مالز اور پہاڑوں پر قائم ہوٹلز پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔
علم و ادب کی بات کریں تو یہاں ویسے محفلیں کم ہی ہوتی ہیں ‘جس میں نوجوان علم و ادب اور فنون و لطیفہ میں حصہ لیں۔اتنا بڑا کیپٹل پارک موجود ہے‘ وہاں بزرگ شاعروں‘ کہانی نویسوں اور ادیبوں کے ساتھ بچوں کی نشستیں ہوسکتی ہیں‘لوک موسیقی اور پاپ میوزک کی کلاسز ہوسکتی ہیں‘ مصور بچوں کو منظر کشی سکھا سکتے ہیں‘بچوں کو اسلامی واقعات کہانی کی صورت میں سنائے جاسکتے ہیں ‘جس سے ان کی اخلاقی تربیت ہو ‘بچوں کو کیلی گرافی سکھائی جاسکتی ہے۔کیپٹل پارک‘ جس کا اصل نام فاطمہ جناح پارک ہے‘ اس کے دروازے ہر امیرو غریب کیلئے کھلے ہیں‘ تو اس کا بامقصد استعمال بھی کیا جاناچاہیے۔جو ہنر مند افراد یہاں بچوں پر محنت کریں ‘ان کو کچھ سکھائیں‘ ان کا معاوضہ حکومت کو دینا چاہیے ۔پارک کے ایک حصے میں غریب بچوں کو شام میں مفت تعلیم دی جا سکتی ہے۔یہ سب کورونا کی وبا ختم ہونے کے بعد بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔اس سے اسلام آباد کے لوگ بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ‘تو عید میلادالنبی ﷺ کیلئے جلوس میں شرکت کرتے تھے ‘جو انجمن تاجران کی طرف سے بچوں کیلئے خصوصی طور پر نکالا جاتا تھا۔ہم سب بچے قرآن ِمجید کی تلاوت‘ نعت رسول مقبولﷺ اور سیرت النبیﷺ پر تقاریر کرتے تھے ۔ایسا کوئی بچہ نہیں ہوتا تھا کہ جو رہ جائے‘ سب کو انعام دیا جاتا تھا‘ تاکہ اگلے سال بچے مزید ذوق وشوق سے شرکت کریں۔اس وقت پلے لینڈ اور پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس بھی بچوں کیلئے بہت سے پینٹنگ کے مقابلے کرواتا تھا۔اس طرح بہت سے والدین آپس میں دوست بنے اور بہت سے بچے ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ جب ایک ہاتھی چڑیا گھر آیا تھا‘ تو ہمارا سکول اس کے ویلکم کیلئے ہم سب بچوں کو لے کرگیا تھا‘پھر دہشت گردی نے بہت کچھ بدل دیا‘ لیکن اب حالات بہتر ہیں تو ہمیں پھر سے اس شہر میں ثقافتی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہوگا۔
عید صرف بستر پر لیٹ کر ٹی وی دیکھنے کا نام نہیں۔ابھی تو کوروناوبا کی مجبوری ہے کہ سماجی کنارہ کشی کرنا پڑ رہی ہے‘ لیکن جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے‘ تو ہمیں اس تنہائی کے غبارے میں سے ہوا نکالنا ہوگی۔بچوں کو ہمیں اصل پاکستان کا ثقافتی ورثہ منتقل کرنا ہوگا ‘جس میں ہمارا لباس ہماری علاقائی زبانوں‘ ہماری روایتوں کی بہت اہمیت ہے۔یہ کب ہوگا ؟کیسے ہو گا؟کون شروع کرے گا ؟یہ ہم سب کا فرض ہے‘ ورنہ اس شہر کو زندہ دلان کا شہر بننے کیلئے مزید بہت عرصہ درکار ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں