پاکستان اور ٹرین حادثات!

پاکستان کا متوسط طبقہ ٹرین کا سفر ہی پسند کرتا ہے۔ اس دوران انسان آرام سے کھا پی سکتا‘ آرام کرسکتا ہے اور گھر والوں کے ساتھ گپ شپ کرتا منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور سفر کا پتا بھی نہیں چلتا۔ میں نے خود بہت بار ٹرین کا سفر کیا ہے۔ اگر انسان علیحدہ کمپارٹمنٹ کے بجائے عام بوگی میں سفر کرے تو کتنے ہی خاندان دوست بن جاتے ہیں۔ مسافر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوتے ہیں‘ خاص طور پر جب سٹیشن پر ٹرین رکتی ہے تو خواتین اکثر اترنے سے اجتناب کرتی ہیں اور مرد مسافر ان کو سامان اور دیگر اشیا لا کر دیتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ جب منزلِ مقصود پر پہنچتے ہیں تو ایک دوسرے کو اپنا فون اور ایڈریس دے کر اترتے ہیں اور سفر کی حسین یادیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ میں نے ٹرین کے سفر میں پاکستان کے بہت سے علاقے اور بہت سے سٹیشن دیکھے‘ خاص طور پر حیدر آباد ، بہاولپور، ملتان اور لاہور کے ریلوے سٹیشن دیکھنے کے قابل ہیں۔ ہر شہر کی اپنی سوغاتیں ہیں‘ تمام ذائقے چکھ کر آپ اپنے سفر کا لطف دوبالا کرلیتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں فضائی سفر مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ بھی سمجھا جاتا ہے اسی لیے لوگ ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں‘ اس دوران انسان پورا ملک اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے۔
پاکستان میں ریلوے کا نظام بہت پرانا ہے۔ دنیا بھر میں اب میٹرو سٹیشن قائم ہوگئے ہیں اور تیزرفتار ٹرینیں چل رہی ہیںجن میں اے سی چل رہے ہیں‘ کوئی دھکے یا جھٹکے نہیں لگتے‘ لوگ آرام سے کام کررہے ہوتے ہیں اور چند منٹوں میں منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ٹرین سسٹم شہروں کے اندر سفر کرنے کیلئے بھی موجود ہے اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کے لیے بھی اسے ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ سب جدید سسٹم پر استوار ہے اور اس میں حادثات کی شرح بھی کم ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اب تک انگریز کے دور کا سسٹم چل رہا ہے جن میں ہاتھ سے کانٹا بدلا جاتا ہے‘ ریل کی پٹری تبدیل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ریل کے ٹریک پر لوگ بیٹھے ہوتے ہیں،چور اِن ٹریکس سے لوہا چرا کر بھاگ جاتے ہیں ،ٹرین آنے والی ہوتی ہے لیکن گاڑیاں‘ بسیں مسافروں کے ہمراہ ٹریک کراس کرتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے حادثات جنم لیتے ہیں۔ ایک بار مجھے ایک کزن کی کال آئی‘ انہوں نے کچھ لوگوں کو ٹرین کے ٹریک سے لوہا چراتے ہوئے دیکھا‘ جب انہوں نے ان چوروں کو آواز لگائی تو وہ سامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ اب ان کا سامان ان کے پاس پڑا ہے‘ وہ کیا کریں؟ میں نے مقامی رپورٹرز اور پولیس کو اطلاع دی‘ وہ موقع پر پہنچے اور میرے کزن نے نٹ بولٹس اور دیگر چیزیں ریلوے حکام کے حوالے کیں۔ حکام نے بتایا کہ اس چوری کی وجہ سے ٹرین حادثے کا شکار بھی ہوسکتی تھی۔
دنیا آگے بڑھتی گئی اور ہم پیچھے رہ گئے۔ وہ جدید ٹرین سسٹم پر منتقل ہو گئے اور ہم آج تک انگریزوں کے دیے گئے ریلوے سسٹم پر انحصار کررہے ہیں۔ اگر کوئی جدید منصوبہ یہاں شروع بھی ہوتا ہے تو کرپشن‘ کک بیکس اور مہنگے ٹینڈر‘ نتیجتاً وہ منصوبہ ملک کی معیشت کے لیے سفید ہاتھی بن جاتا ہے۔ ریلوے کا نظام اس وقت مکمل طور پر جواب دے چکا ہے اور اس پر شدید بوجھ ہے کیونکہ عوام کیلئے یہی سستی سواری کا ذریعہ ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں بہت بڑے بڑے ٹرین حادثات ہوئے ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں جو ہولناک ٹرین حادثات ہوئے‘ ان کی تفصیلات پڑھ کر دل دہل جاتا ہے کہ کیا ٹرین کا سفر اتنا غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس رمضان المبارک کے آخری دنوں میں ایک مسافر طیارہ کریش ہوکر کراچی میں آبادی پر جاگرا تھا جس سے لوگوں میں ہوائی جہاز کے سفر کے حوالے سے بہت خوف و ہراس پھیلا تھا۔ اس علاقے کے مکین اب بھی اس خوف سے باہر نہیں آ سکے ہیں اور ایئرپورٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے ہر وقت اس اندیشے کا شکار رہتے ہیں کہ کب کوئی جہاز ان پر آن گرے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اگر وہ خوف میں مبتلا ہوجائے تو اس کو بہت وقت لگتا ہے کہ وہ اس سے باہر آسکے۔
تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں 31 اکتوبر 2019ء کو رحیم یار خان میں تیزگام ٹرین میں آگ بھڑک اٹھی تھی‘ یہ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ 74 افراد زندہ جل گئے تھے۔ آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ زیادہ تر لاشیں ناقابل شناخت تھیں۔ اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید کے مطابق‘ آگ لگنے کی وجہ گیس سلنڈر کا پھٹنا تھا۔ اس کے بعد سے اس طرح کی اشیا کے ٹرین میں لے جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی؛ تاہم ہونی ہو چکی تھی اور تین بوگیاں مکمل طور پر جل گئیں سینکڑوں افراد شدید زخمی ہوئے۔ اگر گھوٹکی کے علاقے کی بات کریں تو اس پہلے بھی یہاں پر ٹرینوں کے کئی حادثے ہوچکے ہیں۔ 1991ء میں گھوٹکی میں دو ٹرینوں کے تصادم میں ہوا تھا جس میں سو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس کے بعد 1992ء میں دوبارہ گھوٹکی میں ٹرین حادثہ ہوا اور54افراد جاں بحق ہو گئے۔ پھر 2005ء میں گھوٹکی کے قریب تین ٹرینوں کے تصادم ہوا۔ اس حادثے میں انسانی غفلت نمایاں تھی، وہ ٹرینوں میں تصادم ہونے کے باوجود ٹریک کو فعال رکھا گیا اور ٹرینوں کی آمدو رفت روکی نہیں گئی جس کی وجہ سے تیسری ٹرین پہلے سے حادثے کی شکار دو ٹرینوں سے ٹکرائی اور پھرجو قیامت برپا ہوئی‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اس حادثے میں 120 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ سوموار کے روز جو قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی اس میں 65 مسافر لقمہ اجل بنے اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر کر دوسرے ٹریک پر جا گریں جہاں سرسید ٹرین سے ان کا تصادم ہوا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ ویلڈنگ جوائنٹ ٹوٹنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
بدقسمت ٹرین میں ایک برات بھی جارہی تھی اور یوں خوشیوں والا گھر ماتم میں بدل گیا۔حادثے کے بعد ہر طرف آہ و بکا تھی۔ مقامی افراد کے مطابق‘ امدادی کام دیر سے شروع ہونے کی وجہ سے بھی کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ مقامی افراد نے بھی مسافروں کو ٹرالیوں کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا۔ سندھ حکومت کے پاس تو اچھی ریسکو اور ریلیف سروس ہی نہیں‘ بس وہاں جمہوریت زندہ ہے اور باتیں ہی باتیں ہیں‘ عوام کی ان کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ سندھ ترقی کے اعتبار سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ البتہ اس حادثے کے دوران کئی اچھی مثالیں بھی قائم ہوئیں۔ مقامی لوگ مسافروں کیلئے کھانے پانی کا بندوبست کرتے رہے۔ یہ سب دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ ایسے دور میں‘ جہاں زیادہ تر لوگوں کو حادثے کے فوری بعد موبائل نکال کر وڈیو بنانے سے فرصت نہیں ہوتی‘ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بنا کسی تشہیر بس اللہ کی راہ میں زخمی مسافروں کی مدد کرتے رہے اور ریاستی مدد آنے تک ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے رہے۔
پاکستان میں ریل کا سسٹم بہت بوسیدہ ہو گیا ہے‘ انجن‘ بوگیاں‘ ریلوے ٹریکس‘ سگنلز‘ کانٹے‘ پھاٹک‘ پل‘ کراسنگ‘ سب کچھ پرانا ہے، ان کو یومیہ بنیادوں پر نگرانی کی ضرورت ہے لیکن فنڈز اور افرادی قوت کہاں سے آئیں؟ ریلوے کے حادثات کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ملک بھر کے ریلوے ٹریکس کی مرمت کی جائے اور تجربہ کار ملازمین‘ جوریٹائر کردیے گئے ہیں‘کو دوبارہ نوکریوں پر بلایا جائے کیونکہ وہی اس نظام کو سمجھ سکتے اور نئے سٹاف کو ٹریننگ دے سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریلوے حادثات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری تمام سابقہ‘ موجودہ حکمرانوں اور تمام اب تک کے تمام ریلوے وزیروں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ حادثات تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں کہ انہوں نے تین سال میں کیا اقدامات کیے ہیں؟تحریک انصاف دوسروں پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرے کہ اس کی کیا کارکردگی ہے۔ ایک ہی جگہ پر اتنے حادثات ہوگئے لیکن حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ پاکستان کے پرانے ریلوے ٹریکس تیز رفتاری کے متحمل نہیں ہیں‘ اس لئے ڈرائیورز کو بھی سپیڈ زیادہ نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر حکومت سے یہ محکمہ نہیں چل رہا تو چین سے مدد لے لیں کہ کیسے برق رفتار ٹرینیں ان کے ملک میں چل رہی ہیں۔ سفر اتنا آرام دہ کہ آپ آرام سے لیپ ٹاپ پر کام کریں کوئی شور‘ کوئی جھٹکا نہیں جبکہ ہم اب تک ''ریل گاڑی چھکا چھک‘‘ کے زمانے میں ہیں۔ حقیقت ہے کہ جس ملک کے لیڈرز امیر ہوں‘ وہ ملک ہمیشہ غریب رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں