لباس کا اوّلین مقصد کیا؟

کورونا کی وبا کے دوران میں نے زیادہ تر شاپنگ آن لائن کی‘ اتنی کہ اب میں کہہ سکتی ہوں کہ مجھے اس پر عبور حاصل ہوگیا ہے۔ میری بہنیں‘ دوستیں اکثر مجھے کہتی ہیں کہ ہمارے لیے بھی تم ہی آن لائن خریداری کر دیا کرو۔ اس دوران یہ بات میں نے محسوس کی کہ ڈیزائنرز اور لان کے بڑے برینڈز ہماری معاشرتی اقدار کے مطابق کپڑے نہیں بنا رہے۔ میری طرح جو ورکنگ وومن ہیں‘ وہ تو ریڈی میڈ کپڑے خریدتی ہیں کیونکہ کام کی وجہ سے اتنا وقت نہیں بچتا کہ پہلے اَن سلا سوٹ لیں پھر درزی کے پاس جائیں۔ اس لئے ہمیں سلے ہوئے کپڑے خریدنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ پاکستانی برینڈز اور ڈیزائنر کے خواتین کے سوٹ میں دوپٹہ غائب کردیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے گلے اور سر سے دوپٹہ غائب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب برینڈز دوپٹہ بنا ہی نہیں رہے تو کون جاکر بازار سے میچنگ دوپٹہ خریدے گا۔بہت کم برینڈز ایسے ہیں جو دوپٹہ بناتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو لان کے کپڑے بنائے جاتے ہیں‘ ان کے ساتھ دوپٹہ نیٹ یا شیفون کا کردیا جاتا ہے جو سر پر نہیں ٹک پاتا اور اس کواوڑھنا اورنہ اوڑھنا ایک برابر ہوتا ہے کیونکہ اس کے اندر سے سر کے بال نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ لان کے سوٹ کے ساتھ دوپٹہ بھی لان کا ہونا چاہیے۔ لان کا دوپٹہ سر پر ٹکا رہتا ہے اور بال بھی ڈھانپ لیتا ہے۔ اسی طرح کپڑے کی کوالٹی بھی گھٹا دی گئی ہے اور کپڑا اتنا باریک کردیا ہے کہ لان اب ململ لگتی ہے۔ اس پر کوئی کچھ بولتا، کیوں؟ حیرت ہوتی ہے کہ لباس کا اولین مقصد ستر پوشی ہوتا ہے، اگر اس کو پہن کر بھی یہ مقصد پورا نہ ہو تو ایسا لباس پہننے کا کیا فائدہ؟
کپڑوں کی انڈسٹری بہت بڑی ہے ،پاکستانی ملبوسات دنیا بھر میں پسند کئے جاتے ہیں؛ تاہم لان اور کپڑوں کے برینڈز اور ڈیزائنرز نے ملبوسات کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھا دی ہیں۔ لان کی شرٹ2 ہزار سے شروع ہوکر 12 ہزار کے درمیان ملتی ہے، یہ اَن سلے کپڑوں کی قیمت ہے‘ باقی سلی ہوئی قمیص 2ہزارسے شروع ہوکر 15ہزار تک جاتی ہے۔ جو ایلیٹ ڈیزائنر سوٹ ہیں‘ وہ تو قمیص ہی 18 ہزار سے شروع ہوتی ہیں جس کے ساتھ لائننگ 4 ہزار، پاجامہ 7 ہزار اوردوپٹہ 8 ہزار روپے تک میں ملتا ہے یعنی ایک عام سا سوٹ پچاس ہزار روپے تک چلاجاتا ہے‘ وجہ صرف یہ ہے کہ ڈیزائنرز کا ایک نام ہے اور وہ ایلیٹ کلاس سے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے جہیز کے خلاف ایک مہم چلائی‘ اس مقصد کے لیے جس برینڈ سے کپڑے لیے گئے‘ وہ لاکھوں روپے میں ایک سوٹ تیار کرتا ہے۔ یعنی ایک طرف خود لاکھوں روپوں کا ایک ایک سوٹ فروخت کر رہے ہیں اور دوسری طرف جہیز کے خلاف مہم میں پیش پیش ہیں۔ اگر اتنا ہی دردِ دل ہے تو ایک کائونٹر متوسط طبقے کیلئے بھی بنالیں لیکن نہیں‘ غریب تو ان کے آئوٹ لیٹ کے پاس سے بھی نہیں گزر سکتے۔
یہاں پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ ملکی خزانے میں یہ برینڈز کتنا حصہ ڈالتے ہیں۔ایف بی آر کو ضرور اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ برینڈز جن پر ایک ایک شرٹ کی قیمت 2 ہزار سے شروع ہوکر 50 ہزار پر ختم ہوتی ہے‘ وہ ٹیکس کتنا دیتے ہیں۔ اگر آپ کسی عام مارکیٹ‘ کسی ہٹی سے کپڑے خرید لیں تو وہاں بھی جوڑے ہزار روپے سے شروع ہوتے ہیں اور پندرہ ہزار تک جاتے ہیں لیکن ایسی شاپنگ کا رواج اب اس لیے کم ہوتا جا رہا ہے کہ گھر سے دور‘ کون اتنا پٹرول خرچ کرے، پھر مارکیٹس میں پارکنگ نہیں ملے گی، اس لیے خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نزدیکی مارکیٹ سے ہی شاپنگ کرلی جائے۔ اب جو ورکنگ وومن ہیں‘ وہ چاہتی ہیں کہ شرٹ ٹرائوزر کے ساتھ کوئی میچنگ سکارف لے لیا جائے مگر یہ سب مل کر چھ سے سات ہزار روپے میں پڑ جاتا ہے۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے‘ یہاں تودوپٹہ‘ سکارف جوڑے کے ساتھ مفت ملنا چاہیے؛ تاہم ایسا نہیں ہے۔ باتیں یہاں بہت کی جاتی ہیں مگر عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ یہاں پر ایسی شرٹس مل رہی ہیں جن کے بازوئوں میں سوراخ ہیں، شلواریں ایسی ہیں کہ آدھے حصے پر لیس لگی ہوتی ہے جس سے لباس پہننے کا مقصد ہی پورا نہیں ہو رہا ہوتا۔
سب سے پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کیا ہم لباس خود نمائی کیلئے پہن رہے ہیں یا سترپوشی کے لیے۔ڈیزائنرز کو بھی اس چیز کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ لباس ایسا بنائیں جو جسم کو ڈھکے اور جو پائیدار ہو۔ اب جبکہ کورونا کے باعث بہت سے لوگ آن لائن شاپنگ کررہے ہیں‘ تو سب سے پہلے معلومات میں ڈریس کے بارے میں پڑھیں ،اگرآپ کو تصویر میں ماڈل کا جسم نظر آرہا تو سوٹ مت خریدیں۔ اگر کسی دکان میں شاپنگ کررہے ہیں تو شکایت ضرور کریں کہ لباس اتنا باریک کیوں ہے‘ شلوار قمیص اور دوپٹے کا کپڑا ایسا ہونا چاہیے کہ جسم نظر نہ آئے۔ پاکستان میں چھ سے سات ماہ گرمی رہتی ہے اور ہمیں لان پہننا پڑتی ہے۔ کپڑا ایسا ہو کہ کم ازکم ایک سے دوسال تو چلے اور اس کے رنگ پکے ہوں۔
مرد بھی لان اور کاٹن پہنتے ہیں‘ لٹھے کے نام پر ان کو بھی باریک کپڑا تھما دیا جاتا ہے جوسراسر غلط ہے۔ ستر پوشی کا حکم مرد اور عورتوں دونوں کو ہے۔ اسی طریقے سے بچوں کے کپڑوں کی بات کریں تو دل بہت خفا ہوتا ہے بچے بچیوں کیلئے بھی غیر مناسب لباس بنائے جارہے ہیں۔ زیادہ تر کپڑے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی طرز پر بنائے جاتے ہیں جن میں بچیوں کے جسم نظر آرہے ہوتے ہیں، کسی میں بازو غائب‘ قمیص کا پچھلا حصہ غائب۔ والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ بچیوں کے لباس کا شروع سے خیال رکھیں، اسی طرح لڑکوں کو بہت چھوٹی شارٹس مت پہننے دیں۔ بچے اور بچیوں کو چھوٹی عمر سے زیرجامے کی عادت ڈالیں۔ ان کو بھارتی ہیروئنوں کے طرز پر لہنگے اور چولی مت پہنائیں‘ آج کل پاکستانی شادیوں میں ایک فیشن یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین اور بچیاں ساڑھیاں اور لہنگے چولی پہن رہی ہیں۔ خواتین تو کسی حد تک اپنی حفاظت سے آگاہ ہیں لیکن بچیاں زندگی کی پیچیدگی سے آگاہ نہیں ہوتیں، اس لیے مرد و خواتین، بچے‘ بچیاں پورا لباس زیب تن کریں۔ تاہم اس سے ہرگز یہ مراد نہ لیا جائے کہ لباس ریپ کی وجہ ہوتا ہے۔ پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیص ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ اس ضمن میں یہ خیال رکھے کہ شلوار قمیص عام عوام کی خرید سے باہر نہ ہو۔ وہ سوٹ جس کو پندرہ سو میں مل جانا چاہیے‘ وہ 5 سے 7 ہزار میں کیوں بک رہا ہے؟ قیمتوں میں اتنا اضافہ کیوں ہوگیا ہے؟
سب برینڈز صارفین سے 17 فیصد جی ایس ٹی چارج کر رہے ہیں۔ کیا سرکار کو ٹیکس کی مد میں اتنا پیسہ مل بھی رہا ہے یا نہیں؟ نیز ان کو پابند کیا جائے کہ خواتین کے لباس کے ساتھ سکارف اور دوپٹہ وغیرہ ضرور بنائیں۔ کپڑے ڈیزائن کرتے وقت سادگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور ڈیزائن ایسا ہونا چاہیے کہ اس میں نماز بھی پڑھی جا سکے۔ بازو نیٹ یا شیفون کے نہیں ہونے چاہئیں‘ اگر ہوں تو نیچے کپڑا لگائیں۔ آج کل ایک اور ٹرینڈ آ گیا ہے کہ بیک الگ‘ فرنٹ کی قمیص الگ، اس پر بازو الگ، گلا الگ اور لیس بھی الگ سے دی جاتی ہے۔ اس پر درزی گاہکوں سے ہزاروں روپے وصول کرلیتے ہیں۔ کم از کم گلا اور لیس تو کپڑے پر جوڑ دیں۔ صارفین کا اتنا بھی خون نہ نچوڑیں۔
کپڑے انسان کی شخصیت میں اضافہ کرتے ہیں‘ اس لیے باوقار کپڑے بنائے جائیں، لباس ملکی ثقافت کے مطابق ہونا چاہیے۔ برینڈز سندھی‘ بلوچ‘ پنجابی‘ کے پی اور شمالی علاقہ جات کے لباس کی طرز پر کپڑے بنائیں۔ علاقائی کڑھائیوں کو دنیا بھر میں روشناس کروائیں۔ جب شہزادی کیٹ پاکستان آئی تھیں‘ انہوں نے ہماری ثقافت کا خیال کرتے ہوئے خوبصورت کپڑے زیب تن کیے تھے اور ساتھ دوپٹہ بھی تھا۔ ان کا لباس مکمل اور پُرکشش تھا۔ جب ایک شہزادی ہماری ثقافت کو خوشی سے اپنا سکتی ہے اور اسے دنیا بھر میں متعارف کرواتی ہے تو ہمیں بھی اپنی ثقافت پر ناز کرنا ہوگا۔ شہزادی کیٹ نے جن ڈیزائنرز کے کپڑے پہنے تھے‘ وہ اسی وقت سولڈ آئوٹ ہوگئے تھے۔ جو پاکستانی جیولری پہنی تھی‘ وہ بہت کم قیمت تھی اور اس کا سٹاک بھی دنوں میں ختم ہو گیا تھا۔ اس لیے ہمیں بھی مہنگے برینڈز کے بجائے سادگی اختیار کرنی چاہیے، چھوٹے ڈیزائنرز کی بھی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ برینڈز اور ڈیزائنرز سے گزارش ہے کہ اچھے لباس بنائیں اور اس میں ستر پوشی کا خاص خیال رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں