چار سو میں وہ ایک

جہاں ہمارے ملک میں ایسے مرد پائے جاتے ہیں جو گرمی کی طویل لائنوں میں خواتین کو پہلے بل جمع کروانے کی جگہ دے دیتے ہیں ‘ کسی خاتون کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوجائے اس کوٹائر تک تبدیل نہیں کرنے دیتے خود تبدیل کرتے دیتے ہیں‘ نہ اپنا نام بتاتے ہیں نہ خواتین کا نام پوچھتے ہیں‘ بس مدد کرکے چلے جاتے ہیں۔میرے اور بہن کے ساتھ پمز ہسپتال میں ہوچکا ہے‘ ہم دونوں امی کے ساتھ ایمرجنسی میں تھیں کہ ایک صاحب نے کہا‘ چونکہ آپ کے ساتھ کوئی مرد نہیں تو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو مجھے آپ بلاجھجک کہہ سکتی ہیں۔ہمارے منہ پر ماسک تھے سر ڈھکے ہوئے تھے‘ اُس کا مقصد صرف مدد کرنا تھا اور کچھ نہیں‘ نہ اس نے ہمارا نام پوچھا نہ ہم نے اس کا۔ وہ ہم سے بات یا دوستی کا خواہاں نہیں تھا‘ بس مدد کرنا چاہتا تھا۔ وہ بھی علیل والدہ کے ساتھ تھا‘ ہم بھی علیل والدہ کے ساتھ تھیں۔ ہم سب کا دکھ مشترک تھا کہ مائیں بیمار تھیں۔وہ کون تھا‘ معلوم نہیں لیکن دعا میں وہ بھی یادآجاتا ہے اور اس کی والدہ بھی کہ انہوں نے ایک نیک بیٹا پروان چڑھایا۔جب پاکستانی مرد خواتین کے ساتھ اتنے شفیق ہیں ان کے مدد گار ہیں‘ ان کی حفاظت کرتے ہیں تو اچانک معاشرے میں وہ لوگ کیوں پیدا ہوگئے جن سے چھ سال کی ماہم محفوظ نہیں ‘ جن سے 30 سال کی قرۃ العین محفوظ نہیں‘ جن سے 26 سال کی نور مقدم نہیں بچ پاتی اور جن سے لاہور کی عائشہ محفوظ نہیں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو دین سے دور ہے ‘جو معاشرتی اقدار سے دور ہے‘ اسے اچھے برے کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔جس وقت زینب کا قتل ہوا لوگوں نے کہا کہ اس کے ماں باپ اس کو اکیلے چھوڑ کر کیوں گئے ؟اس کے ماں باپ نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا لیکن انصاف ہوا‘ قاتل پھانسی چڑھ گیا‘پھر موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی تو کہا گیا کہ عورت رات کے وقت تنہا کیوں نکلی۔پھر جب قرۃ العین شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئی تو لوگوں نے اس پر بھی تاویلیں گھڑنا شروع کردیں لیکن اخلاقیات کی رہی سہی قدر تو لوگوں نے نور مقدم کیس پر ختم کردی۔جب ملزم ظاہر جعفر کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ اس کی حمایت میں نورمقدم کی کردارکشی کرنے لگے۔نور مقدم ماڈرن تھی‘ پڑھی لکھی تھی تو قاتل سے ہمدردی کرنے والا طبقہ کہنے لگا کہ وہ اکیلی کیوں گئی؟ کیا یہ بات نہیں معلوم کہ ظاہر جعفر نے اسے محبو س کررکھا تھا‘ وہ اس پر تشدد کررہا ہے تھا لیکن ہمارے ہاں لوگ اتنے انتہاپسند ہوگئے ہیں کہ قتل کا جواز بھی نکال لیتے ہیں۔چودہ اگست کو یہ خبرآئی کہ سندھ میں کچھ لوگوں نے خاتون کی ایک دن پرانی لاش نکال کر اس کی بیحرمتی کی۔اس پر وہ تمام طبقہ کیا کہے گا جو ہر چیز کا الزام عورت پر لگ دیتا ہے؟عورت بازار میں محفوظ نہیں ‘ پبلک پارک میں محفوظ نہیں ‘ ‘ قبر میں بھی محفوظ نہیں۔
کیاہمارے ہاں اوباش قسم کے لوگ اللہ کے ڈر اور قانون کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں ؟کیا ان کیلئے ہر بچی بچہ اور عورت ایک جنسی علامت ہے ‘جس کو چاہا زیادتی کا نشانہ بنالیا‘ جس کو چاہا ہاتھ لگا لیا‘ جس کا چاہا پردہ نوچ لیا۔ایک اور چیز ہماری نئی نسل کو برباد کررہی ہے وہ ہے ٹک ٹاک اور سنیک ویڈیو‘ جس کا دل کرتا ہے گانے پر لب ہلاتا ہے ‘ ناچتا ہے‘ ذومعنی اشارے کرتا ہے اور پبلک اس کو سٹار بنادیتی ہے۔ بچے بچیاں ان ایپس سے برباد ہورہے ہیں۔ جب ایک سائنسدان اور ڈاکٹر سے زیادہ میڈیا کوریج ٹک ٹاکر کو دی جائے گی تو اور بچوں کا بھی دل چاہیے گا‘ وہ بھی شارٹ کٹ سے مشہور ہونا چاہتے ہیں اور محنت سے کتراتے ہیں۔ہیجان خیز رقص‘ فحش جملے‘ ذومعنی اشارے بازی اس سے یہ دونوں ایپس بھری پڑی ہیں۔والدین کو کچھ نہیں پتہ کہ ان کی اولاد کیا گل کھلا رہی ہے۔ لوگ ان کو لاکھوں کی تعداد میں دیکھ رہے ہیں۔ہمارے یوتھ کے ایک بڑے حصے نے شاید یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ انہوں نے صرف ٹک ٹاکر بننا ہے ڈاکٹر استاد‘ انجینئر نہیں بننا۔
عائشہ کو جس وقت بہت سے لوگوں نے مینار پاکستان میں ہراساں کیا تو بہت سے ٹک ٹاکرز نے اس واقعے کو ٹک ٹاک پر لائیو کردیا۔ ڈھٹائی کے ساتھ اس واقعے کو لائیو نشر کرتے رہے اور اس سے خوش ہوتے رہے۔عائشہ خود بھی ایک ٹاک ٹاکر ہے‘ مجھے ٹک ٹاک پسند نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی عائشہ پر حملہ آور ہوجائے۔ اس کو ہاتھ لگائے‘ اس کے کپڑے نوچ ڈالے۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی منظم سازش ہے ۔یہ اس لڑکی اور اس کے ساتھی لڑکے نے خود کیا۔یہ غلط ہے‘ کوئی بھی لڑکی ایسا پرینک نہیں کرے گی کہ چار سو کے قریب لوگ اس پر حملہ آور ہوجائیں ۔اس میں وہ مرسکتی ہے۔ کوئی بھی لڑکی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اس لئے یہ تو کوئی جواز نہیں کہ لڑکی نے یہ سب خود کیا۔ یہ بات غلط ہے۔اس پارک میں پہلے بھی اوباش لوگوں کا قبضہ ہوتا ہے یہاں عام لوگ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔میں نے خود مینار پاکستان دیکھنے کی کوشش کی لیکن ناکام لوٹی۔مینار پاکستان پر ہم سب کا حق ہے یہ پارک صرف مردوں کیلئے نہیں ہے ‘یہ پاکستان کے قیام کی نشانی ہے۔ پاکستان پر مردوں‘ عورتوں اور بچوں سب کا حق ہے ۔ہر نسل کو اس ملک میں رہنے کی آزادی ہے۔انتظامیہ اس پارک میں صرف فیملی کی انٹری رکھے‘ اکیلے لڑکوں کی آمد پر پابندی لگائے۔
میں ٹک ٹاک صارف تو نہیں لیکن جو مواد وہاں سے فیس بک اور ٹوئٹر پرآتا ہے اگر نظر پڑ جائے تو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔مرد‘ عورتیں‘ لڑکے‘ لڑکیاں خودنمائی کی عادت کا شکار ہوگئے ہیں اور ایک زمانہ انہیں دیکھنے کی لت میں مبتلا ہوگیا ہے۔اب لاہور میں جو کچھ ہوا وہ اسی فرسٹر یشن کا نتیجہ ہے۔یاد رکھیںجسم‘ جوانی سب ڈھل جائے گی صرف نیک اعمال ساتھ رہ جائیں گے‘ تعلیم اور اخلاق ساتھ رہ جائیں گے‘اس لئے ہم سب کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم سب کیا چاہتے ہیں۔ایک لڑکی وہاں جو بھی کررہی تھی‘ کسی مرد کو اختیار نہیں کہ وہ اس کو ہاتھ لگائے‘ اس کو ہراساں کرے ‘اس کا لباس تار تار کرے۔اس ٹک ٹاکر کے علاوہ بھی لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا جو سیر کرنے آئی ہوئی تھیں۔میں نے ہمیشہ ٹک ٹاک کے خلاف لکھا اس کو بین کرنے کی بات کی لیکن جو ٹاک ٹاکر عائشہ کے ساتھ ہوا وہ سب بہت شرمناک ہے۔ ان تمام درندوں کو کڑی سزا دی جائے ۔ میری آنکھیں بھرآئیں جب چھوٹے لڑکے بھی عائشہ کو چھو رہے تھے۔ اس کا مذاق بنارہے تھے‘ یہ سب لائیو کررہے تھے۔ کیا ہماری قوم اتنی بے حس اور سفاک ہوگئی ہے کہ اس کو بچانے کے بجائے لوگ اس کوچھوتے رہے ‘اس کے کپڑے پھاڑ دیے۔ چار سو کے نرغے میں وہ اکیلی تھی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں اکابرین پاکستان نے ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ اسی جگہ پر قیام پاکستان کے75 سال کے بعد اوباش نوجوان ایک لڑکی کو گدھوں کی طرح نوچ رہے تھے۔ہمارے اسلاف کی روحیں تڑپ گئی ہوں گی‘ انہوں نے یہ ملک ہمیں عزت کی زندگی دینے کیلئے بنایا تھا اور یہاں پر بنتِ ہوا کی عزت تار تار ہونے لگی۔ یہ شرم کا مقام ہے۔ہمیں اس ملک میں اخلاقیات کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ اکیلی لڑکی موقع نہیں ہے‘ وہ قوم کی عزت ہے۔جتنے بچوں پر جنسی حملے ہوتے ہیں وہ خوف کا شکار ہوجاتے ہیں‘ جن خواتین کے ساتھ ایسا ہوتا ہے وہ بھی ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں۔ہماری ایک نسل بیمار ہوجائے گی‘ خدارا ان اوباش لڑکوں کو لگام ڈالیں۔ان کے موبائل فون اورکمپیو ٹر چیک کریں کہ یہ کیا دیکھ رہیں۔ ان کو سخت سزائیں دیں۔جن چارسو لوگوں نے عائشہ پر جنسی حملے کئے ان کو ٹک ٹاک کے ذریعے سے پہچانیں اور ان کو نشانِ عبرت بنائیں۔مائیں اپنے بیٹوں کو یہ سمجھائیں کہ لڑکیوں‘ عورتوں کی عزت کریں۔
پنجاب حکومت نے مقامی ایس پی‘ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کیا ہے اور ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سمیت سات افسروں کے خلاف ایکشن لیا ہے لیکن یہاں پر اس وقت زیادہ ضروری ہے کہ نادرا کے ڈیٹا سے مجرمان کی شناخت کی جائے اور ان کو جیل میں بند کیا جائے۔عائشہ کیلئے دعائیں ‘اللہ اس کو اس سانحے کے بعد ہمت دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں