کیا آپ وبائوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟

ہم ایک جدید دور میں پیدا ہوئے جس میں علاج معالجے کی بہترین سہولتیں دستیاب ہیں۔ بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کو حفاظتی ٹیکے لگتے ہیں جن کی وجہ سے وہ پولیو‘ خناق‘ تشنج‘ خسرہ‘ نمونیا اور ٹی بی جیسی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ مائیں زچگی کے مراحل گھروں کے بجائے ہسپتال میں گزارتی ہیں اس طرح زچہ بچہ کی جان محفوظ رہتی ہے۔ ورنہ پہلے تو سینکڑوں مائیں اور بچے زچگی کے دوران ہی اپنی جان سے چلے جاتے تھے۔ جدید سہولتوں اور ماڈرن طرزِ زندگی نے اوسط عمر میں بھی اضافہ کیا ہے‘ یہاں تک کہ کینسر، ٹی بی، برین ٹیومر اور دیگر مہلک بیماریوں کا علاج بھی ہوجاتا ہے اور لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادویات بھی لوگوں کو اچھی اور بھرپور زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں۔ ویکسین، ادویات اور علاج زندگیاں بچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اتنی جدید سہولتوں کے ہوتے ہوئے ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم سب ایک ان دیکھے وائرس کی وبا کی لپیٹ میں آجائیں گے اور یہ ایسی وبا ہوگی کہ ساری دنیا کا نظام مفلوج ہوکر رہ جائے گا اور اس کا کوئی علاج بھی نہیں ہوگا۔ کورونا نے بنی نوع انسان کو بہت نقصان پہنچایا ہے‘ لاکھوں زندگیوں کو نگل لیا اور کروڑوں لوگ معاشی طور پر بدحال ہوگئے۔ اس وبا میں سانس لیتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا کہ نجانے کون سا سانس ہمیں کورونا میں مبتلا کردے۔ لوگ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے تھے‘ لاک ڈائون کی تنہائی اور تکلیف ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ پہلے صرف کتابوں میں پڑھا تھا کہ وبائیں کیسی ہوتی ہیں‘ اب ہم نے خود دیکھ بھی لیا کہ یہ کتنی خوفناک ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ سال International Day of Epidemic Preparedness یعنی وبائوں سے بچائو کی تیاری کا عالمی دن منانے کاآغاز کیا تھا۔ امسال 27 دسمبر کو یہ دن منایا گیا۔ اس کا مقصد دنیا کو تیار کرنا ہے کہ وبا کی صورت میں کیا اقدامات کرنا ہیں‘ اس کا کیسے مقابلہ کرنا ہے اور کیسے بچنا ہے۔ کورونا ایک عالمی وبا ہے جس کے خاتمے کیلئے پوری دنیا کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے‘ پوری دنیا اس سے متاثر ہوئی ہے۔ ہمیں وبائوں سے بچائو کے عالمی دن کو ہرسطح پر منانا چاہیے تاکہ عام عوام میںآگاہی پھیلے۔ اس کیلئے ممالک اور صحت کے اداروں کے درمیان کیسے پارٹنرشپ کرنی ہے‘ اس بات پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اقوام متحدہ اس بات پر بھی ضرور دیتی ہے کہ تمام ممالک صحت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں تاکہ دنیا کو مہلک بیماریوں سے بچایا جا سکے۔ مذکورہ عالمی دن کا فوکس اس بار بھی کورونا تھا؛ اس کے پھیلائو کو روکنا‘ مریضوں کی صحت یابی، اس کی ویکسین کو دنیا بھر میں دستیابی، ہسپتالوں میں سہولتیں فراہم کرنا اور ہیلتھ ورکرز کی زندگیوں کی حفاظت کرنا۔ اس کے ساتھ وبا کے نفسیاتی‘ معاشی اور سماجی سمیت دیگر اثرات اور لوگوں کی بحالی پر کام کرنا بھی اس دن کو منانے کے مقاصد میں شامل ہے۔
پہلے بھی دنیا وبائوں کی زد میں آئی جن میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ ان میں سوائن فلو، ایشیائی فلو، سپینش فلو، طاعون، گردن توڑ بخار، ہیضہ، چیچک، خسرہ، ملیریا، کانگو وائرس، زیکا بخار، زرد بخار، سارس اور ایبولا وغیرہ شامل ہیں۔ طاعون‘ جسے سیاہ موت کہا جاتا ہے‘ کے حوالے سے تو اتنے دردناک واقعات تاریخ میں درج ہیں کہ پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ لوگ اس کے سبب گھروں میں تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے‘ ان کا کوئی علاج نہیں کرنے والا تھا‘ جب لاشوں کا ڈھیر لگ جاتا تو ایک ریڑھی پر ڈال کر انہیں شہر سے باہر گڑھوں میں پھینک دیا جاتا اور آگ لگا دی جاتی۔ اس بیماری نے یورپ کی آدھی آبادی کو نگل لیا تھا۔ اس کے بعد ہسپانوی فلو نے 19 ویں صدی کے اوائل میں تباہی مچائی۔ خاص طور پریورپ کو اس نے ٹارگٹ کیا اور لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ 19ویں صدی کے وسط میں ایشیائی فلو نے 20 لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور امریکا‘ یورپ اور ایشیا سمیت پوری دنیا میں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ پھرایڈز، ایبولا، کانگو، سارس جیسی وبائیں آئیں لیکن انہوں نے پوری دنیا کو اس طرح اپنی لپیٹ میں نہیں لیا جس طرح کورونا نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ یہ اپیڈیمک (وبا) نہیں پینڈیمک (عالمی وبا) ہے۔
کورونا وائرس چونکہ انسان کے سانس سے پھیلنے والی بیماری تھی اس لیے اس نے دنیا کو مفلوج کردیا اور لاک ڈائون لگانا پڑے، سماجی فاصلہ اپناتے ہوئے لوگوں نے ایک دوسرے سے دوری اختیار کی۔ معاشرہ اور معیشت دونوں جمود کا شکار ہوگئے۔ لوگوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں، بہت سے لوگوں کے کاروبار بند ہوگئے‘ کچھ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی رک گیا۔ پھر اس کی ویکسین بن گئی تو زندگی رفتہ رفتہ دوبارہ معمول پرآگئی اور لوگ اپنے کام کاج میں مشغول ہوگئے؛ تاہم اب اس کا ایک نیا ویری اینٹ آ گیا ہے جو کئی گنا زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، اسے اومیکرون کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مریض پاکستان میں بھی سامنے آ چکے ہیں‘ اس کا مطلب ہے کہ خطرہ ابھی پوری طرح ٹلا نہیں ہے۔ سب سے پہلے تمام لوگ ویکسین لگوائیں تاکہ اس بیماری کا پھیلائو کم سے کم ہو اور ہلاکتوں کی شرح کو کم کیا جا سکے؛ تاہم صرف دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں۔ باتوں سے کچھ نہیں ہوگا‘ اس کے لیے کام کرنا ہوگا اور مسلسل کرنا ہوگا۔
مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور افغانستان میں خاص طور پر حالات کافی خراب ہیں۔ وہاں کے عوام کو کورونا سے بچائو کی ویکسین کی ضرورت ہے‘ اس کے ساتھ ہسپتالوں کو ادویات اور مشینری کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا اس سے چشم پوشی نہیں کرسکتی۔ ان کے علاوہ بھی کئی ترقی پذیر ممالک اب تک اس وبا سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں‘ ان کے پاس وسائل اور فنڈز کی کمی ہے‘ ان کی بھی مدد کرنی چاہیے۔ دوسری طرف عوام کی ایک بڑی تعداد اس بیماری کو مذاق اور ویکسین کو لے کر توہم پرستی کا شکار ہے حالانکہ یہ بیماری ایک کھلی حقیقت ہے اور اس کی ویکسین مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اس کو لگانے والے بڑی تعداد میں اس وبا سے محفوظ رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جن لوگوں کو ویکسین لگائی گئی‘ اگر ان پر کورونا کا حملہ ہوا بھی تو اس کے اثرات بہت کم تھے اور وہ جلد ہی ٹھیک بھی ہوگئے۔
عالمی دنوں کا منانا جانا ایک اہم کام ہے‘ اس سے لوگوں میں شعور اجاگر ہوتا ہے اور عوام الناس میں آگاہی پھیلتی ہے۔ عالمی یومِ انسدادِ وبا وبائوں اور ان کی روک تھام کے حوالے شعور اجاگر کرتا ہے۔ اس دن اس عزم کو دہرایا جاتا ہے کہ انسانوں کو وبائوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ خاص طور جو طبی عملہ اس وبا کا سامنا براہ ِراست کررہا ہے‘ اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر مریضوں کا علاج کررہا ہے‘ انہیں محفوظ بنانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ کورونا کی وبا کے دوران بہت سے ڈاکٹر اور پیرا میڈیک سٹاف اپنی جانوں کی بازی ہار گیا۔ میرے نزدیک یہ سب شہیدِ انسانیت ہیں۔ اس کے ساتھ وہ تمام لوگ‘ جنہوں نے کورونا کی وبا کے دوران کام کیا اور لوگوں کو ویکسین لگائی‘ ان کا علاج کیا‘ وہ تمام ہیلتھ ورکرز جو دیگر بیماریوں کے علاج کی ویکسین گھر گھر تک لے کر گئے‘ وہ سبھی ہمارے ہیروز ہیں۔ وہ تمام لوگ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ اقوام متحدہ کا عزم ہے کہ 2030ء ایجنڈا کے تمام گول حاصل کر لیے جائیں، اس ایجنڈے کے تحت صحت کی سہولتوں کو عام کرنا ہے‘ بیماریوں اور وبائوں سے تحفظ کی ویکسین کوعوام کودسترس میں پہنچانا ہے۔ ویکسین ہمارے جسم میں قوتِ مدافعت پیدا کرتی ہے اور ہمارا جسم بیماریوں‘ جراثیموں اور وائرسز کا مقابلہ آسانی سے کرپاتا ہے۔ کورونا ایک حقیقت ہے‘ اس کے خطرے کا ادراک کریں‘ ماسک پہنیں‘ سماجی کنارہ کشی کریں اور ویکسین لگوائیں۔ سب ذمہ داری حکومت‘ اقوام متحدہ یا عالمی ادارۂ صحت کی نہیں ہے ،ہم سب کو وبائوں کا مقابلہ ایس او پیز پر عمل پیرا ہو کر کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں