کتنی گرہیں باقی ہیں

سب کچھ بدل سا گیا ہے۔ 2020ء کے بعد سے انسانوں نے وہ کچھ دیکھا جو انہوں نے اس سے پہلے کبھی محسوس بھی نہیں کیا تھا۔ ہم سب ایک ماڈرن دور میں پیدا ہوئے۔ بہت سی بیماریوں کا علاج دریافت ہو چکا تھا، ہمیں ٹھنڈا پانی چاہیے ہوتا تو فریج سے مل جاتا۔ گرمی لگتی تو ایک بٹن دباتے اور اے سی ٹھنڈی ہوا دینا شروع ہوجاتا۔ ٹی وی سے پوری دنیا کی سیر ہوجاتی اور انٹرنیٹ سے ساری معلومات آپ کی مٹھی میں آ جاتی۔ موبائل اٹھائو اور کسی سے بھی‘ دنیا کے کسی بھی حصے میں بات کرلو۔ کھانا مائیکرو ویو میں گرم کر لو اور گرم کپڑے تک آٹو میٹک مشین میں ڈالو اور چند منٹوں میں نہ صرف دھل کر بلکہ سوکھ کر باہر نکلیں گے۔ سائنسی ایجادات نے ہماری زندگی خاصی آسان کردی ہے۔ ہم سب سہل پسندی کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم نے اپنے بڑوں جیسی سختیاں نہیں دیکھیں کیونکہ اردگرد جدید سائنسی ایجادات موجود تھیں۔ پڑھائی کے دوران نوٹس بنانے ہوں تو کمپیوٹر‘ پرنٹر‘ سکینر سب کچھ موجود تھا۔ میلوں چل کر ہمیں لائبریری نہیں جانا پڑا۔حفاظتی ٹیکوں اور پولیو ڈراپس نے ہماری نسل کو معذوری اور بیماریوں سے دور رکھا۔ کالم لکھنا ہو تو قلم‘ دوات اور کاغذ کی کیا ضرورت ہے۔ لیپ ٹاپ یا فون پرہی ٹائپ کرو۔ پھر ڈاک خانے جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بس ای میل کر دو اور چند لمحوں میں آپ کا کام مدیر اعلیٰ کے سامنے رکھا ہوگا؛ تاہم 2020ء کے بعد اس نسل نے سختی بھی دیکھی ہے۔ کورونا نام کی عجیب سی بیماری ہم سب پر مسلط ہو گئی۔ جس کو بھی یہ بیماری لگی‘ اس نے بہت تکلیف کاٹی۔ کوئی ایک ماہ میں ٹھیک ہو گیا تو کوئی ایک سال بعد ٹھیک ہوا۔ کچھ تو اس بیماری کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔ لاک ڈائون میں سب کچھ بند ہوا تو سب نے تنہائی اور خوف کو محسوس کیا۔اس کے بعد ٹڈی دَل آگئے، یہاں تک کہ 51 اضلاع میں پھیل گئے اور فصلوں کو چٹ کرگئے۔سب دنگ رہ گئے کہ پہلے کورونا ایک عذاب کی طرح ہم پر مسلط تھا‘ اب ٹڈی دَل ہماری فصلوں کو کھا رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک قدرتی آفت ہم پر مسلط ہوئی۔
سیاست دان اس سارے عرصے میں سیاست میں مصروف رہے لیکن عوام بدحال ہوگئے۔ کسی کو اپنے کسی پیارے کی کورونا سے وفات نے توڑ دیا تو کسی کا کاروبار کورونا میں ختم ہوگیا جو اس کو برباد کرگیا۔ لوگوں کی قوتِ خرید خاصی کم ہوگئی۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ کسی کے پاس دوائی کے پیسے نہیں تھے تو کسی کے پاس کھانا کھانے کے پیسے نہیں تھے۔وہ طبقہ بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا جو کبھی متوسط کہلاتا تھا۔ ہر چیز مہنگی ہو گئی۔ دودھ‘ گندم‘ دالیں‘ پھل‘ گوشت اور سبزیاں عوام کی پہنچ سے دورہو گئے۔ بے شمار لوگوں نے دسترخوان پر چیزیں کم کردیں۔ تین کے بجائے کھانا دو وقت کردیا۔ دو روٹیوں کے بجائے ایک روٹی کھانے لگے۔ کتنے ہی لوگوں نے علاج نہیں کرایا اور تکلیف سہتے رہے کیونکہ دوائی اور علاج کے پیسے نہیں تھے۔
سیاسی طبقے کو مگر اس کی کوئی پروا تھی نہ کوئی توجہ۔ سیاستدان پہلے ہی سے وفاقی حکومت گرانے اور بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ مہنگائی کا نام وہ اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ دیکھ لیں کہ جو جماعتیں مہنگائی مارچ کر رہی تھیں‘ آج جب اقتدار انہیں مل گیا ہے تو وہ مہنگائی ہے جس نے ریکارڈ تو کیا‘ عوام کی کمر بھی توڑ دی ہے۔ہر پندرہ دن بعد عوام پر ایک نیا پٹرول بم گرا دیا جاتا ہے۔ اب لوگ اپنی سواری کو نکالنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔بجلی کے بل اتنے زیادہ آئے ہیں کہ عوام آہ و بکا کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس تو کھانا کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں‘ ہم بل کہاں سے بھریں گے۔ عوام احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت نام کی شے نظر نہیں آرہی۔ اس وقت سبھی جماعتیں کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ ہیں مگر عوام کسی کی ترجیح میں نہیں ہیں۔ حکمران سیاسی جھمیلوں اور حکومت بنانے گرانے میں مصروف تھے کہ سیلاب آگیا اور ایسی تباہی ہوئی کہ شاید ہی اس کی نظیر ملتی ہو۔ اس وقت بھی سندھ سے پانچ لاکھ کیوسک کا ریلا گزرہا ہے۔ پانی جہاں جہاں گیا‘ اس نے وہ تباہی مچائی کہ انسان‘ جانور‘ نباتات‘ گھر بار‘ کاروبار‘ غرض سب کچھ بہا کر لے گیا۔ جہاں جہاں سے پانی گزرا‘ موت نے وہاں ڈیرے ڈال لیے۔ ہزاروں انسان اور لاکھوں چرند‘ پرند اپنی جان سے گئے۔انسانی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ نہ ہی اس کاخلا کبھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ جو سیلاب سے زندہ بچ گئے ہیں‘ ان کے سروں پر چھت نہیں ہے۔ پاس روٹی نہیں ہے۔ تن پر کپڑا نہیں ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ایک ایسا ملک جو معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہو‘ وہ کیسے اپنے عوام کی مدد کرے گا؟ اب دنیا بھر سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ ہمیں بچائو‘ ہماری مدد کرو۔ ان تمام تر حالات کے باوجود اس وقت بھی ملک میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ لوگوں کے دلوں میں سو طرح کے خدشات ہیں کہ پتا نہیں کہ بیرونِ ملک سے آنے والی امداد مستحقین تک پہنچے گی بھی یا نہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے‘ بدقسمتی سے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اس وقت سیلاب متاثرین کو کھانے کی اشیا‘ پینے کے صاف پانی‘ ادویات‘ علاج‘ کپڑوں اور چھت کی ضرورت ہے۔ نئے گھروں کی تعمیرات کیسے ہوں گی؟ جہاں پانی ٹھہر گیا ہے‘ وہاں سے پانی نکالنا بھی ایک مشکل کام ہے۔ جس جگہ پر پانی ٹھہر جائے‘ وہاں مختلف بیماریاں اور مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ پانی سیلاب متاثرین کے ساتھ دیگر عوام کو بھی بیماریوں میں مبتلا کررہا ہے اور ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کوپھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے۔ جو لوگ سیلاب کور کررہے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت مختلف علاقوں میں مچھر غول در غول اڑ رہے ہیں۔ دور سے دیکھنے پر محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کالا بادل ہے اور اتنی تیز آواز ہوتی ہے کہ انسان خوف محسوس کرتا ہے۔ یہ مچھر ملیریا اور ڈینگی سمیت متعدد بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔ یہ ایسی بیماریاں ہے جن کا علاج اگر بروقت نہ شروع ہو تو انسان موت کے منہ میں بھی جا سکتا ہے۔ کورونا بھی سیلاب زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ کورونا کی عالمی وبا‘ٹڈی دَل‘ مہنگائی اور سیلاب کے بعد جو نیا عذاب ہم پر مسلط ہوا ہے وہ ہیں یہ مچھر۔ میں قارئین کو یاد دلاتی چلوں کہ بادشاہ نمرود‘ جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تھی‘ کو ایک مچھر کے ذریعے ہی عذاب میں مبتلا کیا گیا تھا۔مچھر اس کے ناک کے راستے اس کے دماغ میں گھس گیا تھا اور اس کے کاٹنے سے نمرود سخت تکلیف محسوس کرتا تھا۔ روایت ہے کہ جب تک نمرود کے سر پر جوتے نہیں مارے جاتے تھے‘ مچھر اسے کاٹنا اور بھنبھنانا بند نہیں کرتا تھا۔ اسی حالت میں مبتلا رہ کر وہ مرا تھا۔ اب جب مچھر ہم پر مسلط ہو رہے ہیں تو مجھے خوف محسوس ہورہا ہے۔ ہماری قوم اور حکمرانوں کو یومِ توبہ منانا چاہیے اور اجتماعی توبہ کرنی چاہیے۔ قدرتی آفات ہم سے ٹل ہی نہیں رہیں۔ ایسا لگ رہا جیسے سارا ملک کسی نظرِ بد‘ حسد یا نحوست کی لپیٹ میں آگیا ہو۔ امید تھی کہ ٹی ٹونٹی ایشیا کپ جیت جائیں گے توشاید قوم کو کوئی خوشی ملے گی مگر وہ بھی ہم ہار گئے۔ نجانے ہر چیز میں شکست ہی ہمارا مقدر کیوں بنی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھ کے بے شمار ملک اتنے خوشحال ہیں مگر ہم بدحالی کی نئی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں اتنی سہولتیں ہیں مگر ہمارے ملک میں ہر شے کا فقدان ہے۔ کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اربوں روپے روزانہ لوٹ لیے جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسے ہی افراد کو لیڈر بنا کر ہمارے سروں پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔
اب پتا نہیں سیلاب متاثرین کی بحالی پر کتنے سال لگ جائیں گے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے مقدر میں اتنی گرہیں ہیں کہ کھلنے میں ایک مدت لگ جائے گی لیکن ہمت ہم نے نہیں ہارنی اور ان مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ مل کر حل کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کرحل کرنا ہوگا۔ انسان کی کیا اوقات ہے‘ کبھی پانی تو کبھی مچھر اس کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔آئیے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور انسانوں کی مدد کریں تاکہ اس ملک سے مسائل کا خاتمہ ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں