مجھے مطالعے کا بہت شوق ہے۔ حالاتِ حاضرہ کے ساتھ میں تاریخ بھی بہت شوق سے پڑھتی ہوں کہ پرانے زمانے میں لوگ کیسے زندگی بسر کرتے تھے۔ تاریخ پڑھتے ہوئے میں لوگوں اور معاشروں کے حالات و واقعات پر ضرور نظر ڈالتی ہوں۔ اسی طرح ہم جب قرآنِ پاک کا مطالعہ کریں تو ہمیں بہت سی ایسی اقوام کا پتا چلتا ہے جن کی سرکشی اور گناہوں کے باعث ان کو شدید عذاب میں مبتلا کردیا گیا۔ جب کسی قوم میں ناانصافی بڑھ جائے‘ وہاں بے راہ روی بڑھ جائے‘ لوگ گناہ کرنے سے نہ ڈریں، حکمران عیاشی کا شکار ہو جائیں تو ایسی اقوام پر عذاب آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ جتنا ہوسکے‘ خود کو گناہوں سے دور رکھیں اور نیک کام کریں۔ یہ محل محلات‘ ہیرے موتی‘ اقتدار اور طاقت و حسن‘ یہ سب یہیں رہ جائیں گے‘ ہمارے ساتھ جائیں گے ہمارے نیک اعمال‘ یہی ہماری قبر اور اس سے آگے کی منزلوں کو آسان کریں گے۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ لوگ حکمرانی‘ طاقت اور ترقی کرکے یہ سب کچھ بھول جاتے اور سرکشی پر اتر آتے ہیں۔ قدرت انسان کو کچھ ڈھیل دیتی ہے مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم پر قدرت انسان کو وہ سبق سکھاتی ہے جس کو صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔ ایسی قومیں تباہ و برباد ہوجاتی اور دوسروں کیلئے باعثِ عبرت بھی بن جاتی ہیں۔
قدرت کے قوموں کو سزا دینے کے طریقے الگ ہیں۔ کبھی طوفان‘ کبھی سیلاب تو کبھی قحط اور کبھی زلزلے۔ کبھی آگ وہ بھی ایسی کہ شہروں کے شہر پلک جھپکنے میں نگل جائے۔ ایسا ہی ایک واقعہ لگ بھگ دو ہزار سال قبل بھی پیش آیا تھا۔ 79ء میں ایک بہت ترقی یافتہ آبادی‘ موجودہ اٹلی اور اس وقت کی سلطنتِ روم کے ایک چھوٹے سے رقبے پر موجود تھی۔ یہ جگہ ''پومپی‘‘ (Pompeii) کہلاتی تھی۔ یہ بہت خوبصورت علاقہ تھا۔ ایک طرف سرسبز پہاڑ تو دوسری طرف سمندر۔ اس علاقے کے مکین اپنے دور میں نہایت ترقی یافتہ تھے۔یہاں دو‘ دو منزلہ عمارتیں بنی ہوئی تھی۔ سڑکیں موجود تھیں اور پتھروں سے شہر کے اندر بھی پکے راستے بنے ہوئے تھے۔ پومپی شہر کے لوگ رقص و سرود اور موسیقی و شراب کے دلدادہ تھے اور اخلاقی برائیاں بھی ان میں عام تھیں۔ امیر اور غریب کے لیے انصاف کے پیمانے الگ الگ تھے۔ غریب لوگوں کی اکثریت امرا کے ہاں غلام تھی۔ غلاموں پر بہت ظلم کیے جاتے تھے۔شہر میں محلات‘ تالاب‘ بازار‘ قحبہ خانے اور عشرت کدے موجود تھے۔ امرا سارا سارا دن رنگینیوں اور عیاشی میں کھوئے رہتے تھے۔ پومپی شہر میں گرم پانی کے چشموں‘ جھرنوں‘ پھلدار درختوں اور دودھ دینے والے جانوروں کی بھی کثرت تھی۔ ہیرے‘ جواہرات اور سونا یہاں کثرت سے موجود تھا۔ یہاں کے بیشتر لوگ رئیس تھے۔ یہ قوم جادو اور توہم پرستی میں بھی مبتلا تھی۔ اس شہر میں عبادت گاہیں‘ لائبریریاں‘ کھیل کے میدان اور عوامی مراکز بھی موجود تھے۔شہر میں ایک بندرگاہ بھی تھی جو بہت مصروف رہتی تھی۔ یہاں سے شراب ، مچھلیوں ، پھلوں اور زیتون کی تجارت ہوتی تھی۔ اس جدید شہرمیں تھیڑ بھی موجود تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ہنستا بستا شہر ایک دن عبرت کا نشان بن جائے گا۔ یہ علاقہ دراصل ایک سوئے ہوئے آتش فشاں پہاڑ پر واقع تھا۔ کون جانتا تھا کہ ایک دن آتش فشاں جاگ جائے گا اور پورا شہر کھنڈر میں تبدیل ہوجائے گا۔
جس وقت پہلا زلزلہ آیا‘ لوگ معمول کے مطابق کاموں میں لگے رہے لیکن اس کے بعد دوبارہ زلزلہ آیا اور شہر پر پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ پورا شہر سیاہ پتھروں سے بھر گیا۔ یہاں پر موجود آتش فشاں پہاڑ'ویسوویس‘ پھٹا اورپورا شہر ہل کر رہ گیا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ لوگوں کو نکلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ جو جہاں تھا وہیں جم کر رہ گیا۔ آتش فشاں سے دھواں اور گیس نکلنے لگی اورپورے شہر میں پھیل گئی جس سے لوگوں کیلئے سانس لینا دشوار ہوگیا۔ ساتھ ہی آتش فشاں کے دہانے نے لاوا اگلنا شروع کر دیا اور یہ شہر لاوے کی تہوں تلے دب گیا۔ پہلے زلزلے آئے ‘پھر پتھروں کی بارش ہوئی‘ پھر گیس اور دھواں شہر میں پھیل گئے اور اس کے بعد لاوے نے اس شہر کو راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ جو جہاں تھا‘ وہاں پر راکھ اور لاوے تلے دب کر رہ گیا۔ لاوا کئی کلومیٹر تک پھیل گیا اور اس کی موٹائی تین میٹر سے بھی زائد تھی۔ اس آتش فشاں کی اونچائی 1280 میٹر تھی۔ اس کی راکھ اور لاوا پومپی سے دوسرے شہروں سٹابئی اور نیوسیرا تک پھیل گئے۔صدیوں تک یہ شہر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا اور 18ویں صدی عیسوی میں اس کے کھنڈرات دنیا کے سامنے آنا شروع ہوئے۔ ماہرین نے اس شہر پر تحقیقات کا آغاز کیا کہ اس شہر میں ہوا کیا تھا۔ آخر کار ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور ارضیاتی امور کے ماہرین کی کئی سالوں کی کھوج کے بعد اس شہرکے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھنا شروع ہو گیا۔ اس شہر کی کھدائی سے بہت سے نودرات ملے جن میں ہیرے‘ موتی‘ مجسمے اور جادو میں استعمال ہونے والی اشیا بھی شامل ہیں لیکن سب سے دہلا دینے والی چیز ان لوگوں کی لاشیں اور کھوپڑیاں تھیں جو راکھ‘ گیس اور لاوے کی وجہ سے اپنے ہی گھروں کے ملبے تلے دب گئے تھے۔ کچھ لاشیں ایسی حالات میں ملیں جیسے وہ لوگ چھپنے کی کوشش کررہے تھے۔
یہ جگہ اب یونیسکو کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے اور دیکھا جائے تو ہم سب کے لیے مقامِ عبرت ہے۔ کس طرح ایک تہذیب چند لمحوں میں خاک کا ڈھیر بن گئی۔ اب تک وہاں سے دریافت ہونے والی چیزوں میں وِلا، تھیٹر،انسانی کھوپڑیاں، مکمل انسانی باقیات، مجسمے، برتن، زیور،چارپائیاں، سکے اور گھوڑوں کی لاشیں وغیرہ شامل ہیں۔ وہاں سے دو ایسی لاشیں بھی ملیں جوآخری بار ایک دوسرے کا بوسہ لے رہے تھے۔ اس پر ایک فلم بھی بنائی گئی ہے۔ اسی طرح ایک ماں کی اپنے بچے سے جڑی ہوئی لاش‘وہ ماں اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک عورت کی لاش‘ جو منہ چھپائے بیٹھی ہوئی تھی‘ سمیت کئی لاشیں سالم حیثیت میں ملی ہیں۔
اب سیاح اس مقامِ عبرت پر جاتے ہیں اور اس تباہ حال جگہ‘ انسانی باقیات اور کھنڈرات کو دیکھتے ہیں۔ پومپی شہر میں قریب 2ہزار ہلاکتیں ہوئی تھیں۔اردگرد کے علاقوں کی ہلاکتیں ملا کر لگ بھگ 16 ہزار افراد اس آتش فشاں حادثے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس علاقے سے کچھ لاشیں ایسی بھی ملی ہیں جیسے پتھر کے بنے ہوئے مجسمے ہوں۔ ماہرین نے لگ بھگ 9 فٹ کی کھدائی کے بعد‘ پونے دوہزار سال بعد اس شہرکو دریافت کیا کیونکہ یہ راکھ اور آتش فشاں کے ملبے تلے اس طرح دب گیا تھا کہ صدیوں تک کسی نے اس طرف دیکھا بھی نہیں تھا اور اس کا کوئی نشان بھی باقی نہ رہا تھا۔ جب اس کی دریافت ہوئی تو سب لوگ حیران رہ گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ کسی نے محفوظ کر کے رکھا ہوا تھا۔ ہم یہاں پر رومن ایمپائر کی پہلی صدی کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں۔ ان کھنڈرات سے پتا چلتا ہے کہ زمین اور دیواروں پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ یہاں پر برائی کے اڈوں کے کھنڈرات بھی ملے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک ہوٹل بھی دریافت ہوا جہاں لوگ کھانا کھانے کے لیے جایا کرتے تھے۔اس جگہ کی مزید کھدائی جاری ہے اور نجانے مزید کتنے راز سامنے آئیں گے۔ ہم سب کے سامنے مگر یہ سوال ہونا چاہیے کہ یہ لوگ‘ یہ جدید شہر پتھر کا کیوں بن گیا؟ اتنے شدید زلزلے اور لاوے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سی نشانیاں ہم سب کے لیے چھوڑ دی ہیں۔ یقینا ہر چیز کو زوال ہے اور باقی رہنے والی ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ ان مقامات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ سارا ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جائے گا اس لیے ہمیں اپنے اپنے اعمال کی درستی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔