آگ بہت خوفناک چیز ہے اور بہت زیادہ تکلیف دہ بھی۔ اگر چولہا یا ہیٹر جلاتے ہوئے ہاتھ پر ماچس کی تیلی بھی لگ جائے تو پتا لگ جاتا ہے۔ دیر تک تکلیف ہوتی رہتی ہے اور بعض اوقات چھالا بھی بن جاتا ہے یا کچھ کیسز میں جلد ہی جھلس جاتی ہے۔ جلنے کی بہت تکلیف ہوتی ہے اور انسان حد سے زیادہ درد برداشت کرتا ہے۔ زخم پر دوائیاں لگاتا ہے‘ کریمیں لگاتا ہے مگر پھر بھی آرام نہیں آتا۔ جلنے کے زخم بہت کم مکمل بھر پاتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں جلنے کا نشان تمام عمر باقی رہتا ہے۔
یہ 2010ء کی بات ہے‘ میں تب نیوز رپورٹنگ کرتی تھی ۔ کراچی کمپنی میں خوفناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا۔ یہ ایک مٹھائی کی دُکان تھی جس کی بیسمنٹ میں مزدور سو رہے تھے کہ اچانک بلڈنگ کو آگ لگ گئی۔ مزدور بیچارے باہر بھی نہیں نکل سکے۔ پورا پلازہ جل کر خاکستر ہوگیا۔ میں جب وہاں کوریج کیلئے گئی تو ہر طرف شیشے، دھول، مٹی اور دھواں تھا۔ زمین اتنی گرم تھی کہ پائوں تپ رہے تھے۔ اس واقعے میں کئی لوگ جھلس گئے تھے جنہیں پمز کے برن یونٹ میں ایڈمٹ کیا گیا۔میں نے سیفٹی لباس پہنا‘ پائوں میں شو کور‘ چہرے پر ماسک تاکہ ان مریضوں سے مل سکوں لیکن برن یونٹ کے ہیڈ ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ مریضوں کو کھڑکی سے دیکھ لیں‘ اندر مت جائیں۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جلا ہوا انسان بہت کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کو دوسرے انسان سے جراثیم اور انفیکشن لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔سو میں نے اندر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور باہر جاکر ساتھی رپورٹرز کو بھی بتایا کہ اندر نہیں جانا‘ بس ڈاکٹر سے پوچھ کر بیپردے دیں۔ اس وقت ٹی وی نیوز رپورٹنگ‘ لائیو بیپر‘ ڈی ایس این جیز‘ سب کچھ نیا نیا تھا۔ رپورٹرز بھی دبائو میں ہوتے تھے کہ سب کچھ لائیو نشر کیا جائے لیکن مجھے ہمیشہ مریضوں اور لوگوں کی پرائیویسی کا خیال رہا۔ ہم نے ڈاکٹرز کے کہنے پر اندر جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا لیکن جو منظرمیں نے کھڑکی سے دیکھا‘ شاید ہی کبھی بھول سکوں۔ لوگوں کا پورا پورا جسم سفید پٹیوں میں ملبوس تھا۔ کچھ افراد بعد میں زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے تھے۔ یہ سب مناظر انتہائی تکلیف دہ تھے۔ آگ سے زیادہ کیوں نقصان ہوا؟ اس لیے کہ وہاں کوئی ایمرجنسی ایگزٹ نہیں تھا، نہ ہی آگ بجھانے والے آلات تھے اور پاس ہی گیس کے سلنڈرز پڑے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے آگ مزید بھڑکی اور لوگوں باہر نہیں نکل سکے۔
اسی طرح جب میریٹ ہوٹل میں دھماکا ہوا تھا تو بعد میں ہوٹل میں آگ لگ گئی تھی۔ یہ آگ اتنی شدید تھی کہ شاید ہی پہلے اسلام آباد میں کسی نے ایسا منظر دیکھا ہو۔ ہر طرف چیخ و پکار‘ ہر طرف آگ اور دھواں۔ اس واقعے کی کوریج کرتے ہوئے میرے جوتے اور لیدر بیگ تک جھلس گیا تھا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہم سب ایسے سانحات اور حادثات سے محفوظ رہیں۔ ایک ماچس کی تیلی سے اتنی تکلیف ہوتی ہے تو سوچیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر آگ انسانوں کے لیے کتنی تکلیف کا باعث بنتی ہوگی۔
میں بہت عرصے سے یہ صدا بلند کررہی ہوں کہ جن جگہوں پر زلزلے آتے ہیں‘ وہاں اونچی عمارتیں مت بنائیں۔ ترکی بھی زلزلوں کی لپیٹ میں رہتا ہے مگر وہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ عمارت اتنی اونچی نہ ہو کہ کسی حادثے میں مزید خطرے کا باعث بنے۔ اس کے علاوہ ہرکچھ عرصے بعد عمارتوں کا معائنہ کیا جاتا ہے‘ جو زیادہ مخدوش ہوں‘ ان کو گرا کر دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے اور عماراتی قوانین کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جہاں زلزلہ آنے کا خدشہ ہوتا ہے وہاں زیادہ تر چار سے چھ منزلوں تک بلند عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔ بہت کم عمارتیں اس سے زیادہ اونچی ہوں گی۔ ہمارے ملک میں مگر الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جن علاقوں میں سیلاب‘ زلزلے‘ طوفان اور شدید ہوائوں کا خدشہ رہتا ہے‘ وہاں اونچی اونچی عمارتیں بن رہی ہیں اور بلڈنگ لاز کا بھی خیال نہیں کیا جا رہا۔ چند سال قبل عوامی مرکز اسلام آباد میں آگ لگ گئی تھی۔ اس دن زیادہ تر دفاتر بند تھے لیکن کچھ لوگ ٹاپ فلور پر کام میں مشغول تھے۔ جب آگ لگی تو وہ اوپر ہی پھنس کر رہ گئے اور ان کو ریسکیو بھی نہیں کیا جا سکا۔ چھلانگ لگانے کی وجہ سے دو جوان جان کی بازی ہار گئے۔اس وقت بھی ہم سب نے یہ آواز اٹھائی تھی کہ ریسکیو کے اداروں کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں نہ ہی فائر بریگیڈ کے عملے کے پاس اتنی اونچی سیڑھیاں ہے کہ درجنوں منزلہ بلند عمارات میں ریسکیو ورک کر سکیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسے سانحات میں مارے جاتے ہیں۔ اگر فوری طور پر ریسکیو کا کام شروع ہوجائے اور آگ ابھی زیادہ نہ پھیلی ہو تو شاید ایسا نہ ہو مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جب تک آگ پھیل نہ جائے تب تک کسی کو ہوش ہی نہیں آتا کہ کچھ کرنا بھی ہے۔
جب ہمارے ملک میں ریسکیو ٹیموں کے پاس ہیلی کاپٹر یا اونچی سیڑھیاں ہی نہیں ہیں تو ہائی رائز بلڈنگز کا کیا جواز ہے؟ اگر کسی اونچی عمارت میں آگ لگ جائے اور لوگ اس کے ٹاپ فلورز پر پھنس جائیں تو کیا ہو گا؟ اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ ایک ارب پتی اور منافع بخش ادارہ ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر میں پانچ مرلے کا گھر بھی ایک کروڑ سے اوپر کا ہے۔ مگر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ یہ ادارہ فائر بریگیڈ اور ریسکیو کے نظام کی طرف توجہ نہیں دے رہا؟ اسلام آباد میں ایک بڑا کمرشل پلاٹ اربوں میں فروخت ہوتا ہے اور اس کی بلڈنگ اگر اربوں نہیں تو درجنوں کروڑوں میں تو تعمیر ہوتی ہی ہے۔ پھر کیا سبب ہے کہ ان بلڈنگوں میں فائر ایمرجنسی کا انتظام نہیں ہوتا، آگ بجھانے کا اپنا سسٹم نہیں ہوتا؟ جس ادارے نے بھی 15 سے 20 فلور تک بلند تعمیر کی اجازت دی ہے‘ اس کو ریسکیو اور ریلیف کا سسٹم بھی کم از کم اتنا بلند تو رکھنا ہی چاہیے۔
اسلام آباد کا سینٹورس مال اب ایک لینڈ مارک بن چکا ہے۔ یہ جدید فنِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ ہزاروں لوگ یہاں کاروبار کررہے ہیں اور سینکڑوں اس میں رہائش پذیر ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر ماہ اس مال کا وزٹ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب یہاں فوڈ کورٹ میں آگ بھڑک اٹھی تو سکیورٹی نے اپنے فرائض اچھے طریقے سے انجام دیے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ‘ اسلام آباد پولیس‘ پاکستان ایئر فورس اور پاکستان نیوی نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا اور لوگوں کو بحفاظت نکال لیا لیکن آگ اتنی شدید تھی کہ فوڈ کورٹ سے بالائی منزل کی طرف چلی گئی جہاں فائر بریگیڈ کاپانی کا پائپ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہاں پر بہت سے سوال جنم لیتے ہیں۔ وہ چیزیں جو مفادِ عامہ سے جڑی ہیں‘ ان پر کسی کی توجہ کیوں نہیں ہے؟ اگرچہ آگ پر قابو پا لیا گیا اور کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ آگ بجھانے کے لیے سب اداروں نے مل کر محنت کی اور وہ تمام عملہ اور لوگ قابلِ ستائش ہیں جنہوں نے خریداروں اور دکانداروں کو وہاں سے بحفاظت نکالا؛ تاہم یہ بات ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ ریسکیو کے اداروں کے پاس وہ سازوسامان نہیں تھا‘ جو موجود ہونا چاہیے تھا۔
اس وقت انتظامیہ نے اس مال کے تینوں ٹاورز بند کر رکھے ہیں۔ اس مال سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے‘ اس کو کیسے مسلسل بند رکھا جاسکتا ہے؟ ایک خبر کے مطابق دو ٹاورز کوکوئی نقصان نہیں پہنچا، ان کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد ان کو تو کھول دیا جائے جبکہ متاثرہ ٹاور کا معائنہ کیا جائے کہ وہ رہائش اور کاروباری سرگرمیوں کے قابل بچا ہے یا نہیں‘ اس کی بحالی کے کام کو جلد مکمل کیا جائے تاکہ لوگ اپنا روزگار کماسکیں۔ اگر فائربریگیڈ کے پاس جدید آلات ہوتے اور اس مال کا اپنا بھی کوئی مؤثر فائرسیفٹی سسٹم ہوتا تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ مالکان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا جلد حل نکالے اور تاجروں کو مزید نقصان سے بچائے۔ جن کی دکانیں یا رہائش گاہیں جل گئی ہیں‘ ان کو حکومت کی طرف سے امداد دی جانی چاہئے۔ ویسے مجھے اس کی امید تو نہیں ہے لیکن اپیل تو کی ہی جا سکتی ہے۔ دو سال پہلے اردو بازار راولپنڈی میں آگ لگی تھی۔ عمران خان اس وقت وزیر اعظم اور عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب تھے‘ حکومت کی جانب سے تاجروں کی کوئی مدد نہیں کی گئی تھی۔ اب دیکھتے ہیں یہ حکومت کچھ کرتی ہے یا نہیں۔