ہم پاکستانیوں کی بھی کیسی زندگی ہے‘ اتنی بے یقینی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی بے مول ہو چکی ہے۔ کب کہاں کس کی آنکھیں بند ہوجائیں‘ کچھ معلوم نہیں۔ اہلِ وطن کی نمایاں تعداد غیر طبعی موت کا شکار ہوتی ہے جس کے پیچھے حادثات اور سانحات کارفرما ہوتے ہیں۔ جو لوگ طبعی موت مرتے ہیں‘ وہ بھی کئی ایسے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ان کا کچھ قصور نہیں ہوتا، مثلاً فضائی آلودگی سے سانس اور دل کے امراض وغیرہ۔ اکثر لوگ جوانی کی عمر میں ہی آخرت کے سفر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ آخر ہم کب تک جوان لاشیں اٹھائیں گے؟ میں نے بطور رپورٹر جو پہلا دھماکا کور کیا تھا‘ وہ میریٹ ہوٹل میں ہونے والا دھماکا تھا۔ سوچیں کیسے کوئی انسان اپنے ساتھ بارود سے بھرا ٹرک لے کر آتا ہے اور سینکڑوں معصوم لوگوں کی جانیں لے لیتا ہے۔کیا سوچ اس کے پیچھے کارفرما ہوگی کہ وہ اپنی جان بھی لیتا ہے اور سینکڑوں دوسرے افراد کی بھی جانیں لے لیتا ہے۔ نفرت‘ شدت پسندی اور برین واشنگ ایک انسان کو اس نہج تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس سے پورے علاقے میں آگ لگ گئی تھی۔ اُس خوفناک آگ‘ خون‘ کانچ کے بکھرے ٹکڑوں اور لوگوں کی چیخ و پکار میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ لوگ اوپر کی منزلوں میں پھنسے ہوئے تھے‘ وہ چیخ رہے تھے‘ ہر طرف دھویں کے بادل تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے جوتوں کے تلوے تک تپش اور حدت سے جھلس گئے تھے۔
میں نے اسلام آباد میں بہت دہشت گردی دیکھی ہے۔ دل خفا ہوتا تھا کہ ہم سب کا لڑکپن دہشت گردی کھاگئی۔ ہمارے بچپن میں ایسا نہیں تھا‘ اس وقت ملک بہت پُرسکون ہوتا تھا۔ ہم سب بچے مل کر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے سیڑھیوں پر کھیلا کرتے تھے۔ اس وقت ت23مارچ کی پریڈ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ہوا کرتی تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے نہیں روکا کہ یہاں بیٹھنے یا کھیلنے کی اجازت نہیں ہے۔ پورے اسلام آباد میں صرف ایک ناکا ہوتا تھا‘ مارگلہ ہلز کی طرف جاتے ہوئے‘ لیکن وہاں بالکل سناٹا ہوتا تھا۔ پھر اس ملک کو انتہا پسندی، بدامنی، دہشت گردی اور سیاسی افراتفری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم سب نے بہت تکالیف دیکھی ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں لیکن ہمت کرتے ہیں‘ زندگی کی خوشیوں اور ارمانوں کی کرچیاں سمیٹتے ہیں اور دوبارہ زندگی کی دوڑ میں مگن ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایک نیا سانحہ دوبارہ ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے‘ ہم پھر رک جاتے ہیں‘ تھک جاتے ہیں‘ ٹوٹ جاتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اپنے کسی پیارے کو کسی سانحے میں کھونے کے بعد آپ کی زندگی کا ایک حصہ بھی ان کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان ایک مردہ وجود کے ساتھ زندگی جیتا ہے۔ پیاروں کے جانے کے بعد بیشتر لوگ زندگی کا بوجھ کندھوں پر لیے پھرتے ہیں۔ دنیا کے سامنے وہ بھلے مسکراتے ہوں لیکن تنہائی میں وہ روتے رہتے ہیں۔ اپنے کسی پیارے کو کسی سانحے، کسی دہشت گردی یا کسی حادثے میں اچانک کھو دینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو ہم سب ذہنی طور پر تیار ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ اب یہ عزیز اس تکلیف سے نکل کر اپنے خالق کے پاس چلا جائے گا‘ اس کی تکلیف کم ہوجائے گی لیکن جب کوئی اچانک چلا جائے تو بہت صدمہ پہنچتا ہے۔
گزشتہ دنوں تین ایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہوں نے مجھ سمیت پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان میں سے دو تو حادثات تھے اور ایک دہشت گردی کا واقعہ۔ ان کے سبب سب ہی رنج میں چلے گئے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں تاندہ ڈیم میں ایک کشتی ڈوب گئی جس کے نتیجے میں 52 معصوم بچے ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔ صرف اٹھارہ بچوں کو بچایا جا سکا۔ یہ سب بچے پکنک منانے گئے تھے مگر زندہ واپس نہیں آسکے۔ جن اٹھارہ بچوں کو بچایا گیا ہے‘ انہیں بھی مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکالا۔ کئی لوگ اب بھی اپنے بچوں کی لاشیں تلاش کررہے ہیں۔ اتنے سارے پھولوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھے کہ ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ تاندہ ڈیم ایک تفریحی مقام ہے‘ لوگ یہاں سیر‘ کشتی رانی اور تیراکی کے لیے آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشتی ڈوبی کیوں؟ کیا کشتی خراب تھی؟ کیا گنجائش سے زیادہ لوگوں کو بٹھایا گیا؟ ڈیم پر تیراک اور غوطہ خور موجود کیوں نہیں تھے جو بچوں کو بچاتے؟ ذرا سی غفلت کے باعث اب ایک قیامت برپا ہے۔ کئی بچوں کے والدین اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھے ہیں۔ صوبائی حکومت تو موجود نہیں‘ نگران حکومت کو ہی معاملے کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے، ابھی تک وفاق سے بھی کوئی داد رسی کو نہیں پہنچا۔ وفاقی حکومت کے نمائندے جائیں اور لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کریں۔ اگر لسبیلہ کوچ سانحے کو دیکھیں تو 42 لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک مسافر کوچ حادثے کا شکار ہوئی اور اس کے بعد اس میں آگ لگ گئی اور لگ بھگ سبھی مسافر زندہ جل کر خاکستر ہوگئے۔ لاشیں اتنی جھلس گئیں کہ اب ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ہوگا۔ مجھے کوئی بتائے کہ ان کے پیاروں پر کیا بیت رہی ہوگی جن کو اپنے عزیزوں کی لاشیں بھی نہیں ملیں۔ ملک بھر کی شاہراہوں پر حادثات اتنے عام ہیں کہ ہر دوسرے‘ تیسرے دن آپ سنتے ہیں کہ فلاں جاننے والا ٹریفک حادثے کا شکار ہوگیا۔ میری ایک کزن کا بیٹا ڈمپر کے نیچے آ کر کچلا گیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں اس دنیا سے چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنت مکین کرے‘ آمین! اسی طرح میری ایک واقف کار کا بیٹا ٹریفک حادثے کا شکار ہونے کے بعد سے اب تک کومہ میں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاذ کو زندگی دے‘ آمین! ہیوی ٹریفک کی بہتات اور زیادہ تر ڈرائیوروں کی غیر محتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے لائٹ ٹریفک والوں کی جان خطرے سے دوچاررہتی ہے۔ لسبیلہ میں جب ٹریفک حادثہ پیش آیا تو اس کے بعد پتا نہیں کتنے وقت میں وہاں امدادی ٹیمیں پہنچیں۔ 42 لوگ اس سانحے میں جھلس کر ہلاک ہو گئے۔ کیا کسی نے ان کے لواحقین کی داد رسی کی؟ کسی نے ان کی کچھ مدد کی؟ یہاں تو علاج اور تدفین میں بھی مدد نہیں کی جاتی‘ لواحقین کو کون پوچھے گا۔ زیادہ تر ہیوی ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ روڈ سیفٹی قوانین کا خیال نہیں کرتی‘ اپنی سواریوں کی دیکھ بھال نہیں کرتی اس لیے ٹریفک حادثات پیش آتے ہیں اور درجنوں مسافر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
ابھی قوم ان دو سانحات سے نہیں نکلی تھی کہ پشاور لہو لہان ہوگیا۔ میں جب 2010ء میں پہلی بار بطور رپورٹر پشاور گئی تھی تو وہاں دہشت گردی کی اتنی یادگاریں تھیں کہ میں سوچ میں پڑ گئی کہ یہ پھولوں کا شہر ہے یا سانحات کا ۔ ہر چوک میں لکھا تھا کہ یہاں فلاں سانحہ ہوا‘ اتنے لوگ جان سے گئے۔ میں یہ سب جان کر بہت رنجیدہ ہوئی۔ اب پشاور میں پھر دہشت گردی ہوئی ہے۔ پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکا ہوا ہے اور اب تک شہدا کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔ زخمیوں کی تعدادڈیڑھ سو سے اوپر ہے۔ مسجد کا ایک حصہ مہندم ہوکر نمازیوں پر گرگیا اور وہ ملبے تلے دب گئے۔ شہدا میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں‘ جن کے قطار در قطار جنازے دیکھ کر کون سی آنکھ نہیں روئی۔ مسجد کے امام صاحب بھی شہید ہوگئے۔ عبادت گاہوں پر کون حملے کرتا ہے؟ نمازیوں کو کیوں اور کس نے شہید کیا؟ یہ سوالات مسلسل میرے ذہن میں چبھ رہے ہیں۔ پہلے کالعدم ٹی ٹی پی کا نام سامنے آیا مگر اب اس نے تردید کر دی ہے۔ پھر یہ کس نے کیا ہے؟ کیا ملک میں دہشت گردوں کے نئے گروہ منظم ہو رہے ہیں؟ سینکڑوں لوگ یکدم خون میں نہلا دیے گئے، اتنے سارے تابوتوں میں پولیس کے کڑیل جوانوں کے لاشے دیکھ کر تو ہر کوئی سہم گیا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کا ہوا ہے۔ مائوں نے اپنے بیٹوں کی لاشیں دیکھیں‘ بیویوں نے اپنے سہاگ رخصت کیے‘ ہزاروں بچے یتیمی کا شکار ہوئے۔ دوسری طرف سب اپنی اپنی اَنائوں کے حصار میں بند ہیں۔ اپنی انائوں کو ایک طرف کرکے اکٹھے مل بیٹھیں اور معاشی اور امن عامہ کے مسائل کا حل نکالیں۔ مجھے بار بار 2014ء کا سانحہ اے پی ایس یاد آرہا ہے۔ کل بھی ایسے ہی پشاور میں ناحق خون بہایا گیاتھا۔ آخر کب اس ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے؟ کب ہم جوان لاشیں اٹھانا بند کریں گے؟ میں تمام شہدا کیلئے دعاگو ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس ملک کو نظر لگ گئی ہے، لیکن خزانے میں صدقہ دینے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ایسے میں دعا کے لیے ہی ہاتھ بلند کر لیں۔ یااللہ! ہم پر رحم فرما، آمین!