کوئی تو امن کی بات کرے

ملک میں احتجاجی مظاہرے‘ جلاؤ گھیراؤ‘ سرکاری و نجی املاک کونقصان پہنچانا‘ مرکزی شاہراہیں بند کرناایک معمول بن گیا ہے ۔ دوسری طرف حکومت بھی اس سب میں کہاں پیچھے ہے۔ حکومتی ایما پر پولیس اہلکاروں کے رات گئے لوگوں کے گھروں پر چھاپے‘ چادر اور چار دیواری کی پامالی عوام کو مزید مشتعل کرتی ہے۔ بالخصوص جب کسی مقبول عوامی لیڈر کے خلاف ایسی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو یہ اس کے حامیوں کے جذبات کو بھڑکاتی ہے اور یوں ملک میں امن و امان کی صورتحال بگڑ جاتی ہے۔ عوام تو جذباتی ہوتے ہی ہیں لیکن ریاست کو تو بردباری اور تحمل سے کام لینا چاہیے‘ اس کے برعکس حکومتی اراکین تو جیسے ہر وقت غصے سے بھرے رہتے ہیں۔ میں نے ان کے چہرے پر وہ طمانیت نہیں دیکھی جو حکمرانی ملنے کے بعد ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کو حکومت میں آئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے‘ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہ آئے ہوں اور حکومت ان عوام کو منتشر کرنے کیلئے طاقت کا استعمال نہ کیا ہو۔ سڑکوں پر کنٹینرز کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں اور اس بار تو حکومت کی طرف سے ملک گیر انٹر نیٹ بندش کا نیا حربہ استعمال کیا گیا۔ ایسی طرزِ حکمرانی ملک میں مزید افراتفری پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔ احتجاجی مظاہرین جب اپنے سیاسی لیڈر سے اظہارِ یکجہتی کیلئے باہر نکلتے ہیں تو حکومت اُنہیں اپنے اقتدار کیلئے خطرہ گردانتے ہوئے ان کے خلاف طرح طرح کے حربے اپناتی ہے۔ اس ساری مشق میں وہ غریب طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے جس کا اس سب سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ صرف اپنی روزی روٹی کی تلاش مگن رہتا ہے لیکن ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی سے وہ فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔
نو مئی بروز منگل کو جب رینجرز کی طرف سے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیاتو ان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تیرہ جماعتی اتحاد عمران خان کو سبق سکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس وقت ان کے خلاف درج کیسوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ملکِ عزیز میں اس سے قبل بھی کئی سابق وزرائے اعظم جیل کی ہوا کھا چکے ہیں لیکن ایسا تبھی ہوا جب وہ یا ان کی سیاسی جماعت اپنی عوامی مقبولیت کھو بیٹھی۔ خان صاحب کا معاملہ مگر اس کے برعکس ہے۔ اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد پی ٹی آئی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو جب گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت کو شدید عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ زمان پارک سے ان کی گرفتاری کی کوشش پر پیدا ہونیوالی کشیدہ صورتحال ابھی کل کی بات ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے خان صاحب کی گرفتاری پر آنے والا عوامی ردِ عمل بھی اسی عوامی رویے کا تسلسل ہے لیکن لگتا ہے کہ خان صاحب کے مخالفین ان کی عوامی مقبولیت کو یکسر نظر انداز کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ووٹر پڑھا لکھا اور باشعور ہے جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔گزشتہ برس خان صاحب سے حکومت چھین لی گئی اور اب پنجاب اور خیبر پختونوا میں انتخابات بھی نہیں کروائے جارہے لیکن پھر بھی تحریک انصاف کے حامی بروقت الیکشن کے آئینی حق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں لیکن دوسری طرف پولیس خان صاحب کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنیوالی خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بناتی رہی۔ جماعت کی سرکردہ خواتین رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ اگر اس ملک کی خواتین کو یہ حق حاصل نہیں ہے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا جائے لیکن قوم کی بہنوں‘ بیٹیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہ رکھا جائے۔ اگر انہیں بولنے اور لکھنے کی آزادی حاصل نہیں ہے تو اعلانیہ طور پر کہہ دیں‘ پر خواتین کی یوں تزلیل نہ کریں۔ جیسے اس ملک کی اشرافیہ کی بیٹیاں عزت دار ہیں‘ ویسے ہی عوام کی بیٹیاں بھی عزت دار ہیں اور تکریم کی مستحق ہیں۔ان کے ساتھ ایسا ناروا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔
عوام حکومت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آئین کی طرف سے متعین کردہ مدت میں الیکشن کروانے سے گریزاں کیوں ہے؟ عدالتِ عظمیٰ نے بھی دونوں صوبوں میں انتخابات کیلئے آج‘ یعنی 14مئی کی تاریخ مقرر کی تھی لیکن حکومت کی میں نہ مانوں کی ضد کی وجہ سے یہ بھی گزر گئی ہے۔آئینی مدت کے دوران الیکشن کا انعقاد یقینی بنانا حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن یہ دونوں اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے سے گریز پا کیوں ہیں؟اسی حکومتی رویے کے خلاف تحریک انصاف کے حامی احتجاج کرتے ہیں۔ گوکہ خان صاحب کی گرفتاری کے بعد احتجاج کے نام پر جو کچھ کیا گیا ‘ اُسے کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا‘ اس کی وجہ سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی لیکن جن وجوہ کی بنا پر آج ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے‘ اُس وجوہات کی بناپر ملکی نظام پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔گزشتہ برس ایک چلتی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ تب سے اب تک اُس جماعت کی مرکزی قیادت‘ رہنما اُس کے حامی صحافی اور سماجی کارکنان حکومت کے زیرِ عتاب ہیں۔ پولیس رات کے پچھلے پہر چادر اور چار دیواری کی پامالی کرتے ہوئے دیواریں پھلانگتی گھروں میں داخل ہو جاتی ہے۔ پولیس کا یہ طرزِ عمل گھریلو خواتین کو ہراساں کرتا ہے۔ پولیس تو عوام کی محافظ ہوتی ہے لیکن سیاسی انتقام کی آگ نے ہمارے محافظوں کو ہی ہمارے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔احتجاج اس ملک کے شہری کا آئینی حق ہے۔ اُسے یہ حق دیں تاہم مظاہرین کو بھی چاہیے کہ جو بھی صورتحال ہو‘ قومی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ کسی بھی تحریک اور کاز کو ہائی جیک مت کریں۔ احتجاج کرتے ہوئے کبھی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لیں۔ مجھے افسوس ہوا جب میں نے ریڈیو پاکستان اور جناح ہاوس جلتے دیکھے‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجھے رنج ہوا جب خواتین اور بچوں کو مارا پیٹا گیا۔ احتجاجی مظاہرین اور پولیس اہلکاروں نے اس ہنگامہ آرائی کے دوران اپنی جانیں گنوائیں۔ان کا خون کس کے ہاتھ پر ہے؟ ان کے لواحقین تو زندہ درگور ہوگئے جن کے پیارے اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ان کے زخم کبھی نہیں بھریں گے۔ اپنے پیاروں کوکھو دینا ایک ایسا غم ہے جو بیان سے باہر ہے۔
قارئین اس بات سے آگا ہ ہیں کہ مجھے ایوی ایشن سے خاص لگاؤ ہے‘ جیٹس میری کمزوری ہیں۔ میں اپنے شہدا اور غازیوں کے بارے میں شوق سے پڑھتی ہوں۔ اپنے اسلاف کی قربانیوں پر نازاں ہوں لیکن کچھ لوگوں نے خان صاحب کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران جنگی جیٹس اور شہدا کی یاد گاروں کو بھی نقصان پہنچایا۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہندوستان ہماری قوم میں یہ تقسیم دیکھ کر کتنا خوش ہوا ہوگا لیکن میں بحیثیت ایک پاکستانی یہ سب دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوں۔ ہمارا ملک انتشار کاشکار کیوں ہے‘ اس کا جواب اس ملک کا طاقت ور طبقہ ہی دے سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی تو اپنے عوام کا سوچے۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناکر پورے ملک کا نقصان کررہی ہے۔ یہ ملک صرف چند خاندانوں کا نہیں ہے‘ یہ ملک 24 کروڑ عوام کا ملک ہے‘ ان کا بھی خیال کریں۔ اقتدار کی رسہ کشی میں عوام بے حال ہوچکے ہیں۔ ہر وقت ایک انجانا خوف سر پر سوار رہتا ہے کہ کب کیا ہوجائے۔ اس وقت ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ میں اس ملک کے عوام کو پٹتے ہوئے دیکھ سکتی ہوں نا ہی سرکاری املاک کو جلتا ہوا دیکھ سکتی ہوں۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے‘ میرا دل مزید ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ کاش کہ کوئی عوام کے زخموں پر بھی مرہم رکھے اور کہے یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں