پھر وہی سب کچھ ہو رہا ہے لیکن چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ کیا ہو رہا ہے ملک میں! کرسی کے لیے رسہ کشی، بنا الیکشن کے پنجاب اور کے پی، مہنگائی کے ہاتھوں ستائے عوام، بولنے کی پاداش میں پابندِ سلاسل لوگ، ان سب کے ساتھ ایک اور چیز بھی ہو رہی ہے‘ وہ کیا ہے؟ گمشدگیاں، اغوا، سیاسی انتقام، بدامنی، بے چینی، پریشانی اور معاشی تباہی۔ جی ہاں! یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اس سے عوام کا ایک غالب طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔ عوام اس وقت شدید تکلیف اور اضطراب کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ایک ایسی تبدیلی آ رہی ہے جس سے سب متاثر ہو رہے ہیں اور اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ کرپشن‘ اقربا پروری‘ مینڈینٹ کی توہین‘ سیاسی انتقام‘ ان سب کے بہت بھیانک اثرات ہوتے ہیں لیکن میں اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کی بات کر رہی ہوں۔ پچھلے دو دن میں دارالحکومت اسلام آباد میں ایسی بارشیں ہوئیں کہ پنکھے‘ اے سی وغیرہ بند ہو گئے اور جون کے مہینے میں لوگوں نے کمبل نکال لیے۔ یہ بہت حیران کن تھا۔ اتنی سخت گرمی میں موسم نے وہ تبدیلی دکھائی کہ سب سردی کی شکایت کرنے لگے۔ بارشوں کے بعد واقعی بہت ٹھنڈ ہو گئی تھی۔ کچھ لوگ تربوز اور آم لے کر ہیٹرز کے سامنے بیٹھ گئے۔ کیا کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے؟ اس موسم میں‘ جس میں فصلیں پک کر تیار ہو رہی ہوں اور پھلوں کا بادشاہ آم مارکیٹ میں آنے والا ہو‘ اس میں اگر اولے پڑ جائیں اور تیز بارشیں ہو جائیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ فصلوں کی پیداوار پر کیا اثر پڑا ہو گا۔
بن موسم کی بارشیں کتنا نقصان پہنچا رہی ہیں‘ یہ معاملہ کسی کی ترجیح میں ہی نہیں۔ ہر کوئی اس مقصد میں جتا ہوا کہ مخالف سیاسی جماعت کا خاتمہ کس طرح کرنا ہے اور فارورڈ بلاک کیسے بنانا ہے، سیاسی وفاداریاں کیسے بدلنی ہیں اور آئندہ الیکشن میں اپنی جیت کیسے ممکن بنانی ہے۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ قدرت ہم سے ناراض ہے، کبھی زلزلے، کبھی سیلاب، کبھی بن موسم کے برسات، یہ تبدیلیاں ہمیں تباہ کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور انتظامی نااہلیوں کے باعث گزشتہ سیلاب میں جو تباہ کاری ہوئی‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اکثر علاقوں میں لوگ اب تک بے آسرا ہیں۔ ہمارے امیر حکمران مہنگے برانڈز پہن کر سوئٹزرلینڈ بھی گئے لیکن کچھ نہیں ہوا اور وہ اربوں ڈالر کی امداد کے وعدوں کے ساتھ خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ دنیا شاید اب پاکستان کی سیاسی قیادت پر اعتبار نہیں کرتی‘ اس لیے فنڈنگ کے وعدے تو ہوتے ہیں لیکن عملاً پیسے ملتے نہیں۔ اب تک کی تمام کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی نئی قسط جاری نہیں کی۔ دوسری جانب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اس قدر بڑھا دیا گیا ہے کہ اب بس سانس لینے پر ٹیکس باقی رہ گیا ہے‘ اس کے علاوہ تو ہر چیز پر ٹیکس لگ چکا ہے۔
جب ترکیہ میں زلزلہ آیا تو پوری دنیا اس کی مدد کو آ گئی۔ وہاں حکومت نے بھی فعالیت دکھائی اور چند دنوں میں سڑکیں دوبارہ تعمیر ہو گئیں۔ ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو بچا لیا گیا، گرے ہوئے انفراسٹرکچر ملبے کو صاف کیا گیا، لوگوں کو محفوط مقام پر پہنچایا گیا اور ان کی بحالی کا کام شروع ہو گیا، یہاں تک کہ تین ماہ میں ہی متاثرہ علاقوں میں الیکشن بھی ہو گئے۔ صدر رجب طیب اردوان ایک بار پھر عوام کے حسبِ منشا ملک کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سیلاب زدگان کی بہت بڑی تعداد اب بھی بحالی کی منتظر ہے۔ جس طرح کی گزشتہ چند دنوں میں خوفناک بارشیں ہوئی ہیں‘ اگر ایسی ہی بارشیں برسات کے موسم میں یعنی جولائی‘ اگست میں ہوئیں تو کیا ہو گا؟ کیا دریا ایک بار پھر چھلک پڑیں گے؟ کیا اس سال سیلابی ریلے دوبارہ گھروں اور بستیوں کو ساتھ بہا کر لے جائیں گے؟ محکمۂ موسمیات باقاعدگی سے رپورٹ جاری کرتا ہے کہ بارشوں کی کیا صورتحال ہے اور آئندہ کیا امکانات ہیں مگر ان پر کوئی توجہ دینے کو ہی تیار نہیں۔ اگر اتنی ہی شدید بارشیں دوبارہ ہونی ہیں تو کیا ہم انسانوں‘ چرند پرند‘ جانوروں‘ مویشیوں‘ فصلوں اور عمارتوں کو بچا سکیں گے؟ کیا محض طوفانی بارشوں سے یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے یا اس کے پیچھے گلیشیرز کا پگھلنا بھی شامل ہے۔ ہمیں فوری طور احتیاطی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یقینا ہم بارشوں‘ زلزلوں اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات کو روک نہیں سکتے لیکن ان کی تباہ کاریوں کو کم ضرور کر سکتے ہیں، جانی و مالی تحفظ کو یقینی ضرور بنا سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں اب آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ دو ماہ قبل اتنا شدید زلزلہ آیا تھا کہ تمام لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ ایسا لگا کہ شاید ہمارے مقدر میں بھی ترکیہ والا سانحہ لکھ دیا گیا ہے؛ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم ہم پر برقرار رکھا اور ہم معجزانہ طور پر بچ گئے مگر پھر بھی انتظامیہ کو کوئی ہوش نہیں آیا۔ اس وقت بھی فالٹ لائن والے علاقوں میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ایک جھٹکا اگر خدانخواستہ ان کو زمین بوس کر گیا تو ہمارے امدادی اداروں کے پاس نہ جدید مشینری ہے اور نہ ہی امدادی عملے کی تعداد پوری ہے۔ ہمارے ادارو ں کے پاس تو اونچی سیڑھیاں تک نہیں ہوتیں جو آگ بجھانے میں کام آ سکیں۔ جب ہمارے پاس بلند عمارتوں میں کسی ناگہانی آفت سے نمٹنے کا سامان نہیں‘ ٹرینڈ عملہ نہیں تو اتنی بلند و بالا تعمیرات کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟ جن علاقوں میں زلزلے کثرت سے آتے ہیں وہاں ایک سے دو منزلوں کی تعمیر کی اجازت ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں سب کچھ کرنے کی اجازت ہے، اور اس کے بعد سانحات کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں کی جاتی۔ کبھی متاثرین کے ساتھ فوٹو شوٹ ہوتے ہیں تو کبھی ان کے نام پر امداد لی جاتی ہے مگر ان کی بحالی کبھی نہیں ہو پاتی نہ ہی سانحات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چند سال کے بعد ہمیں ایک نئے سانحے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر بار ایک ہی جیسی کہانی دہرائی جاتی ہے۔
نہ تو ہمارے ملک میں اچھا ریسکیو کا نظام ہے نہ ہی ریلیف کا‘ تو آگے کی پلاننگ کا کون سوچتا ہو گا۔ ساری دنیا قدرتی آفات سے ہونے والے خطرات کو کم کرنے پر کام کر رہی ہے لیکن ہمارے ہاں تو صرف سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔ ہر چیز پر سیاست کی جا رہی ہے، مخالفین سے انتقام لیے جا رہے ہیں اور آڈیو‘ وڈیو لیکس جاری کی جا رہی ہیں۔ ان بے موسمی بارشوں میں اشرافیہ کافی انجوائے کر رہی ہے‘ پہاڑوں کے دامن میں موجود ریسٹورنٹس میں کھانے کھائے جا رہے ہیں۔ ان امرا کو یہ نہیں معلوم کہ یہ بے موسمی بارشیں اپنے ساتھ کتنی تباہیاں لاتی ہیں۔ کسانوں اور غریب عوام پر کیا بیتتی ہے۔ اگر اتنی ہی شدت سے بارشیں آگے بھی برسنے کو تیار ہیں تو دوبارہ سیلابی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ تمام ادارے اور صوبے مل کر بیٹھیں‘ موسمی حالات کا جائزہ لیں اور فوری طور پر اقدامات کریں۔ اگر ایسا ہی موسم بچوں کی سالانہ تعطیلات میں بھی جاری رہتا ہے تو ٹریول ایڈوائزی جاری کریں تاکہ سیاح متاثرہ علاقوں کا رخ نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کو بھی آگاہی دی جائے۔ وقتی اقدامات کے ساتھ لانگ ٹرم اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ فضائی آلودگی پر قابو پانا ہو گا‘ درخت لگانا ہوں گے‘ اپنے قدرتی اثاثوں کی حفاظت کرنا ہو گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھانا ہو گا کہ ہم ان ممالک میں شامل نہیں ہیں جو کاربن کے پھیلائو کا سبب ہیں‘ اس کے باوجود ہمیں ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے موسم بدل رہے ہیں‘ ان کا دورانیہ تبدیل ہو رہا ہے‘ گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے‘ گرمی کا دورانیہ طویل اور لمبا ہوتا جاتا ہے جبکہ سردی سکڑتی جا رہی ہے‘ سموگ اور دھویں سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان سب سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ درخت لگائے جائیں‘ ماحول دوست سرگرمیاں کی جائیں اور آنے والے خطرات سے ہونے والے نقصانا ت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ موسم جس میں آپ چائے کے ساتھ سموسے اور پکوڑے انجوائے کر رہے ہیں‘ یہ بے وقت کی بارشیں ہیں جو کسانوں کی جمع پونجی ساتھ بہا لے گئی ہیں۔