بھارت کی عورتوں کا نوحہ

دیکھا جائے تو عورت ہر دور میں استحصال کا شکار رہی ہے۔ خاص کر اگر بھارت اور افغانستان کی طرف دیکھیں تو وہاں خواتین پر ایسے مظالم بھی ہوئے جن کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ دہشت گردی‘ قتل و غارت‘ تیزاب گردی‘ جبری شادیاں‘ ریپ‘ گھریلو تشدد‘ غرض وہاں خواتین پر مظالم کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان ممالک میں خواتین ماضی میں بھی استحصال کا شکار تھیں اور اب بھی ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارت سرکار خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتی اُلٹا وہاں یہ صورتحال ہے کہ خواتین اب عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہیں۔ وہاں خواتین کے ساتھ ریپ کے ایسے ایسے ہولناک واقعات ہوئے کہ دنیا ہل کر رکھ کر گئی لیکن بھارت کی سرکار‘ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے اب بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ میں اپنے قارئین کو چند سال پیچھے لے جانا چاہتی ہوں جب بھارت کی ریاست گجرات میں دنگے ہو رہے تھے۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا‘ اسی کی ایما پر وہاں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا۔ خون کی ندیاں بہائی گئیں‘ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ بھارت سرکار کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات فسادات میں تقریباً 2500مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا جبکہ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بلقیس بانو ریپ کیس نے تو دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ بلقیس بانو کو گجرات کے فسادات کے دوران ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی تین سالہ بیٹی سمیت گھرکے14 افراد کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔قتل سے پہلے بلقیس کے والدہ اور ایک کزن کو بھی ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔تیس درندہ صفت لوگوں کا ہجوم ریپ کے بعد بلقیس بانو کو برہنہ کرکے پھینک گیا۔ یا اللہ! یہ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں‘ کس ظلم کا نشانہ اس معصوم خاتون کو بنایا گیا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک مسلمان تھی‘ ہندوستان میں پیدا ہونے والی مسلمان۔ بلقیس کے گھر کے صرف دو افراد زندہ بچے۔ بعد میں بلقیس بانو انسانی حقوق کی تنظیموں کی معاونت سے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑتی رہی۔ لیکن گجرات میں اس کیس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی‘ پھر یہ کیس ممبئی منتقل ہو گیا۔ جہاں سانحے کے کوئی چھ سال بعد 2008ء میں گیارہ ملزمان کو قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم نریندد مودی‘ جس کو گجرات کا قصائی بھی کہا جاتا ہے‘ نے اپنی حکومت کی معافی پالیسی کے تحت اگست 2022ء میں ان درندہ صفت افراد کو جیل سے رہا کر دیا۔ اس حکومتی عمل پر سب حیران رہ گئے کہ ریپ جیسے سفاک جرم پر کون معافی دیتا ہے؟ پر مودی سرکار کی مسلمان دشمنی تو عیاں ہے۔ وہ ماضی میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری‘ اس کی تین سالہ بچی کا قتل‘ اس کے خاندان کا قتل‘ اتنے سنگین جرائم کے باوجود مجرمان آزاد ہو گئے‘ اس پر عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ایسا کیسے ہوگیا‘ ایسا کیوں ہوا‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن طاقت ور ہمیشہ مظلوم پر ظلم کرتا آیاہے۔ مذہبی اتنہا پسندی کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے اور جب بی جے پی بھارت پر حکومت کر رہی ہو تو مسلمانوں کو کہاں انصاف ملے گا۔
اس کے بعد دہلی ریپ کیس نے دنیا کو جھنجوڑ کررکھ دیا۔ ریپ کا یہ واقعہ 16دسمبر 2012ء کو جنوبی دہلی میں پیش آیا تھا۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق ملزموں نے بس میں ایک 23سالہ طالبہ کا اجتماعی ریپ کیا اور اسے انتہائی بے دردی کے ساتھ زدوکوب کیا تھا۔ جس کے بعد سنگاپور کے ایک ہسپتال میں اس لڑکی کی موت واقع ہو گئی تھی۔ یہ کیسی انسانیت ہے۔ ایسے مظالم تب بھی بھارت میں ہو رہے تھے اور اب بھی ہو رہے ہیں اور اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک بھارت میں قانون و انصاف کا نظام کمزور ہے۔ ہندوستان کی خواتین اس سانحے کے بعد خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگیں۔ یہاں تک کہ بھارت میں جانے والی بین الاقوامی خواتین سیاحوں کو بھی ان کے سفاتخانوں کی طرف سے ہدایات جاری کی جانے لگیں کہ وہ بھارت اکیلے سیر و تفریح کے لیے نا جائیں۔ یہ کیس بھی طویل عرصہ چلا اور اس میں ایک نابالغ کو مجرم ٹھہرایا گیا‘ تاہم یہ جرائم پھر بھی نہ رک سکے۔ اس کے بعد بھی وہاں خواتین اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا‘ جس میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع کٹھوا کی ایک آٹھ سالہ مسلمان بچی آصفہ بھی شامل تھی۔ جنوری 2018ء میں آٹھ سالہ آصفہ کو گھر کے قریبی جنگل میں جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا جس کی لاش 11دن بعد ایک مقامی مندر کے باہر سے ملی تھی۔ گوکہ بچی کے والدین کی جانب سے رپورٹ درج کروائے جانے کے بعد فروری میں اس کیس میں ملوث پولیس اہلکاروں سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں سے کچھ کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ اللہ جانے وہ اب کہاں ہیں‘ کہیں انہیں بھی معافی دے کر چھوڑ تو نہیں دیا گیا؟ ننھی آصفہ‘ جو کشمیری خانہ بدشوں کی بیٹی تھی‘ اس نے ضرور اللہ کو شکایت کی ہوگی کہ مجھے کیوں ایسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ آصفہ کے درد ناک واقعہ سے ہر درد مند کانپ اٹھا تھا۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی بچے کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔
آج کل سوشل میڈیا پر بھارتی ریاست منی پور میں کوکی خواتین کے ساتھ پیش آئے افسوسناک واقعے کی بازگشت ہے۔ جہاں ایک مشتعل ہجوم نے دو خواتین کو برہنہ کرکے ان پر جنسی تشدد کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پُرتشدد واقعات اور نسلی فسادات میں سب سے بڑی قیمت کس کو چکانی پڑتی ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا یہ واقعہ لگ بھگ تین ماہ قبل پیش آیا تھا مگر یہ منظرِ عام پر اس وقت آیا جب گزشتہ ہفتے اس کی وڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہوئی۔ پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے کے مطابق اس دوران ایک خاتون کا گینگ ریپ بھی کیا گیا تھا۔ خواتین کی شکایت میں درج ہے کہ ایک تیسری خاتون کو بھی برہنہ کیا گیا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین پر جنسی تشدد کیا جا رہا ہے اور حملہ آور ان کے کپڑے اتروا کر انہیں علاقے کا چکر لگوا رہے ہیں۔ ویڈیو میں مردوں کے چہرے عیاں ہیں مگر گینگ ریپ کے الزام میں اب تک صرف ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس معاملے میں مجموعی طور پر چار افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔میری ٹویٹر‘ فیس بک‘ ٹک ٹاک اور گوگل انتظامیہ سے گزارش ہے کہ کوکی خواتین کی تمام وڈیوز انٹرینٹ سے ہٹا دی جائیں۔ وہ روتی رہیں‘ التجا کرتی رہیں لیکن ان کے ساتھ حیوانیت برتی گئی۔ بھارت میں ریپ کو خواتین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انہیں چپ کروایا جا سکے‘ انہیں اس واقعہ کے بعد عزت میں کمی کا ڈراوا دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ لیکن ریپ میں کسی کی عزت کم ہوتی ہے تو وہ ‘وہ درندہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ جس کے ساتھ یہ ظلم ہوا ‘وہ مظلوم ہے۔ بھارتی خواتین سمیت ہم سب کو اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی‘ بھارت سرکار ان کوکی خواتین کو انصاف دے‘ بلقیس بانو کو انصاف دے اور بھارت میں بسنے والی تمام خواتین کو تحفظ فراہم کرے۔
منی پور میں رواں برس مئی سے نسلی فسادات جاری ہیں پر مودی سرکار نے چپ سادھ رکھی ہے۔ وہاں کوکی اور میتی قبائل کے درمیان جاری فسادات میں اب تک 133افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان کے گھر جلائے جا چکے ہیں۔ ان کے پیاروں کو قتل کردیا گیا ہے۔ ریاست نے ان مسائل کا حل منی پور میں انٹر نیٹ پر پابندی کی صورت میں ڈھونڈا ہے۔ بھارت کوچین اور پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں