منی پور میں کیا ہو رہا ہے؟

منی پور کے 'کوکی قبائل‘ کی خواتین پر جنسی تشدد کی وڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد بہت سے لوگ یہ سوال کررہے ہیں خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہنے والے بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔ دو مہینے سے ریاست منی پور میں فسادات ہورہے ہیں جس میں اب تک سینکڑوں لوگ قتل ہوچکے ہیں؛ تاہم مودی سرکار چپ سادھے بیٹھی ہے۔ آخر لوگوں کی جان اور املاک بچانے کے لیے کوئی کوشش کیوں نہیں کی جارہی؟ منی پور بھارت کی ایک شمال مشرقی ریاست ہے جو گاہے گاہے شورش اور فسادات کی زد میں رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس ریاست کے بیشتر لوگ بھارت سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہاں مختلف قبائل بھی خانہ جنگی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں پر میتئی، کوکی، ناگا، بشنو اور آدی واسی جیسے کئی قبائل آباد ہیں۔ اس ریاست کا دارالحکومت امپھال ہے اور آبادی 30 لاکھ سے زائد ہے۔ اس وقت یہاں پر بی جے پی کی حکومت ہے۔ میتئی قبیلہ منی پور میں اکثریتی آبادی رکھتا ہے اور ریاستی آبادی کا لگ بھگ 53 فیصد ہے۔ اس ریاست میں ہندوئوں کے علاوہ عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد رہتی ہے اور مسلمان بھی آباد ہیں۔ یہاں تنازعات کا آغاز تقسیمِ ہند کے کچھ عرصہ بعد ہی ہو گیا تھا۔ میتئی قبیلہ اپنا الگ اور آزاد وجود چاہتا ہے جبکہ کوکی اپنی علیحدہ انتظامیہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر بیشتر افراد کمیونزم کے حامی ہیں۔ مذہبی‘ علاقائی اور نظریاتی فرق کی وجہ سے یہاں کے لوگ کافی مدت سے برسرپیکار ہیں۔اس کے علاوہ عسکری گروپس‘ مسلح جتھے اور مختلف ملیشیاز بھی یہاں کام کررہے ہیں اور اس جنگ میں عوام پِس رہے ہیں۔
اگرچہ منی پور میں حالات ہمیشہ سے کشیدہ تھے مگر اب بات خانہ جنگی کی طرف چلی گئی ہے۔ دو ماہ سے جاری فسادات میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ میتئی اور کوکی قبائل ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میتئی قبیلہ مذہبی لحاظ سے ہندو ہے جبکہ کوکی اور دیگر قبائل عیسائیت اور یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ اس وقت میتئی قبیلہ کوکی قبیلے پر ہر ممکن ستم ڈھا رہا ہے۔ سینکڑوں چرچ جلا دیے گئے ہیں، لوگوں کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے جبکہ مودی سرکار اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ ان تمام معاملات سے چشم پوشی کرتے ہوئے 'سب اچھا‘ ہونے کی گردان دہرارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر منی پور کے حوالے سے چند وڈیوز وائرل ہوئیں۔ ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ کوکی قبیلے کی خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد ان کو برہنہ کر کے سارے علاقے میں گھمایا گیا۔ یہ خوفناک مناظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بھارت اب بھی تین‘ چار صدیاں پیچھے ہے۔ یہ سب اتنا تکلیف دہ ہے کہ ہر دردِ دل رکھنے والا انسان اس پر تکلیف محسوس کررہا ہے۔ یہ اصل میں مئی میں ہونے والا ایک سانحہ ہے‘ جس کی وڈیو اب سامنے آئی ہے۔ جنگوں‘ دنگوں اور فسادات میں ہمیشہ بچے اور خواتین ہی پستے ہیں۔ منی پور میں نوے کی دہائی سے نسلی فسادات ہورہے ہیں جن کے پیچھے مذہبی تفریق‘ ذات پات‘ باہمی منافرت‘ مسلح جتھے اور قبائلی سسٹم جیسے عناصر پوشیدہ ہیں مگر بھارت سرکار نے کبھی اس حوالے سے فکرمندی یا تشویش کا اظہار نہیں کیا بلکہ اب بھی بی جے پی کے وزیراعلیٰ میتئی قبیلے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہاں اسلحے کے بے دریغ لائسنس بانٹے گئے جبکہ اکثر مسلح جتھے پولیس سٹیشنوں پر حملہ کر کے بھی اسلحہ لوٹ لیتے ہیں۔ شاید اس لوٹ مار میں حکومت کی بھی حمایت شامل ہوتی ہے۔ زیادہ تر مسلح جتھوں کے پاس وہی اسلحہ پایا گیا جو وہاں کی سکیورٹی فورسز سے ''لوٹا‘‘ گیا۔ حالیہ ہنگاموں میں دونوں اطراف کے لوگوں نے اسلحہ خانوں اور پولیس کی تنصیبات پر حملے کرکے اسلحہ لوٹا ہے۔یہاں لوگوں کے پاس اے کے 47، رائفلز اور بم تک موجود ہیں۔اس خانہ جنگی کے سبب بے شمار شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہوگئے‘ ان کا مال‘ سامان‘ مویشی اور گھر بار ان سے چھین لیا گیا۔ایک لاکھ سے زائد لوگ بے سروسامانی کے عالم میں اپنے لیے چھت‘ خوراک اور جینے کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ لاتعداد لوگ کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ نسلی فسادات‘ ذات پات کی تقسیم اور مذہبی منافرت بھارت کی اقلیتوں کو نگل رہی ہے۔
منی پور میں افیون کی بہت زیادہ کاشت ہوتی ہے۔اس علاقے میں کھلے عام منشیات کا بیوپار ہوتا ہے جبکہ یہاں ڈرگ لارڈز بھی کام کر رہے ہیں۔ اب عسکریت پسندی پر مذہبی منافرت غالب آگئی ہے۔اس وقت پوری ریاست میں انٹرنیٹ معطل ہے یہی وجہ ہے کہ علاقے کی درست صورتحال سامنے نہیں آ رہی ہے ۔ اس علاقے میں بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد تعینات ہے لیکن بھارتی فوج بھی عوام کو تحفظ دینے کے لیے کچھ نہیں کررہی۔
کوکی اور میتئی قبائل کے مابین حالیہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی جانب سے میتئی قبیلے کو شیڈول کاسٹ کا درجہ دینے کا گرین سگنل ملا۔ اس سٹیٹس سے نوکریوں سمیت کئی سرکاری مراعات میں کوٹہ مل جاتا ہے۔ اس فیصلے پر کوکی قبائل نے مظاہرے شروع کردیے جبکہ میتئی قبیلے بھی ان کے مقابل آ گئے یوں احتجاج پُرتشدد ہوگئے اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر حملے شروع ہوگئے۔ کرفیو اور انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود حالات اب بھی ویسے ہی ہیں۔ عورتوں کے ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ منی پور میں بھی لوگوں پر ویسے ہی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جیسے 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے تھے۔یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا ان مسلح جتھوں اور ڈرگ لارڈز کو مودی حکومت خود ہی اقلیتوں کے خلاف استعمال کررہی ہے یا باغی واقعی اس کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ میتئی قبائل اپنے لیے الگ ریاست کے خواہاں ہیں حالانکہ وہ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود منی پور کے صرف دس فیصد رقبے پر آباد ہیں۔ کوکی قبائل آبادی میں بھلے کم ہیں مگر وہ ریاست کے نوے فیصد رقبے پر محیط ہیں‘ اسی لیے وہ الگ انتظامیہ چاہتے ہیں۔ یہاں ہندوئوں اور عیسائیوں کے علاوہ مسلمان بھی محدود پیمانے پر آباد ہیں جن میں سے اکثر میانمار سے آنے والے پناہ گزین ہیں۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو بہت برے سلوک کا سامنا تھا‘جس کی وجہ سے وہ ادھر ہجرت کر کے آئے مگر اب یہاں پر خواتین کے ساتھ ہوئے انسانیت سوز سلوک نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اگر مجرموں کو سخت سزا نہیں دی جاتی تو یہاں یہ سلسلہ مزید بڑھ جائے گاکہ خواتین پر جنسی تشدد کرو‘ پھر اس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دو۔ ایسے سفاک جرائم کو بہرصورت روکنا ہوگا۔ صرف منی پور میں ہنگامہ آرائی نہیں ہورہی بلکہ ہمسایہ ریاستوں اوڑیسہ، تلنگانہ، جھاڑکھنڈ، میزورام، ناگالینڈ، چھتیس گڑھ، آسام اور اروناچل پردیش میں بھی مائو نواز باغی بڑے پیمانے پر موجود ہیں جوبھارت سرکار کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور آزادی کے خواہاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ دہلی سرکار سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس وقت اس پورے خطے میں سترہ بڑی باغی تحریکیں پوری شدت سے متحرک ہیں جن میں مائو ،ببرخالصہ، کوکی نیشنل آرمی،تری پورہ ٹائیگر فورس ،کربی لونگری لبریشن فرنٹ،ناگا لینڈ آزادی موومنٹ، منی پور اور تامل ناڈو آرمی قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ سب سے بڑی آزادی کی تحریک نہتے کشمیری مقبوضہ جموں و کشمیر میں چلا رہے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق بھارت سے اپنا حقِ رائے دہی مانگ رہے ہیں لیکن بھارت سرکار اپنی فوج کے ذریعے اپنا غاصبانہ قبضہ علاقے پر برقرار رکھے ہوئے ہے اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے جاری ہیں۔
منی پور میں ترقیاتی کاموں کا فقدان ہے اور کوکی قبائل خاص طور پر نئی دہلی سے بہت بدظن ہیں۔ بی جے پی کے وزیراعلیٰ نے کوکی قبائل کے ساتھ امن معاہدے کو بھی منسوخ کردیا ہے جس کے بعد حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔ مودی سرکار اور گودی میڈیا سب اچھا بتاتے رہے مگر جب خواتین کی وڈیوز سامنے آئیں تب میڈیا نے کچھ بولنا شروع کیا۔اب اس ریپ کا الزام مسلمانوں پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ مودی سرکار اب بھی اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھ رہی اور وہی سب کچھ کررہی ہے جس سے یہ آگ مزید پھیلے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں