مسلے‘ کچلے پھول

پاکستان کی آبادی زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں بیٹے کی خواہش میں بیٹیوں کی لائن لگادی جاتی ہے۔ گھر میں کھانے کو اناج نہیں ہوتا لیکن پانچ‘ چھ بچے ضرور ہوتے ہیں۔ یہ بچے اچھی خوارک‘ تعلیم‘ صحت کی سہولتوں حتیٰ کہ کھلونوں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ کچھ والدین کو لگتا ہے کہ زیادہ بچے اگر ہوں گے تو چھوٹی عمر میں ان کو کسی کام پر ڈال دیا جائے تویہ بھی گھر کی گاڑی چلانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس حوالے سے اندرونِ سندھ وپنجاب سے بڑی تعداد میں بچے بڑے شہروں جیسے کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں بھیجے جاتے ہیں جوکہ میڈ‘ ملازم‘ نوکر یا ہیلپر بن کر گھروں میں کام کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ غلامی کے الگ الگ نام ہیں۔ چند ہزار روپوں کے لیے غریب والدین اپنے بچوں کو دوزخ میں دھکیل دیتے ہیں۔ ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ تنخواہ آٹھ سے دس ہزار روپے ملتی ہے جبکہ رہائش کے نام پر ان کو سیڑھیوں کو نیچے ایک چٹائی ملتی ہے یا سٹور میں ان کا بستر لگادیا جاتا ہے۔ لباس کے نام پرایک دو بوسیدہ چیتھڑے تھما دیے جاتے ہیں جو موسم کی شدت سے بھی نہیں بچاپاتے جبکہ ان میں کئی چھید بھی ہوتے ہیں۔ روٹی کے نام پر ان بچوں کو پرانا‘ باسی کھانا دیا جاتا ہے اور پیٹ بھرکر کھانا بھی ان کو کم ہی نصیب ہوتاہے۔ اکثر بچوں کو اپنے والدین سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور جہاں ان کو رکھا جاتا ہے‘ وہاں بھی ان سے کوئی بات نہیں کرتا۔
چوبیس گھنٹے کی غلامی میں ان کو فون‘ ٹی وی اور آرام تک کا بھی ٹائم نہیں دیا جاتا۔ صبح سویرے ان کو اٹھا کر پہلے گاڑی صاف کرائی جاتی ہے، اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کرائی جاتی ہے،فرش دھلوایا جاتا ہے، ناشتہ بنوایا جاتا ہے، برتن دھلوائے جاتے ہیں، کپڑے استری کرائے جاتے ہیں، جھاڑو پونچھاکرایا جاتا ہے۔ یہ بچے چونکہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذاان کو اکثر چیزوں کی زیادہ سمجھ نہیں ہوتی، اگر کوئی مشین‘ ریموٹ وغیرہ ان سے خراب ہوجائے تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کوئی کانچ کا گلاس ٹوٹ جائے تو ان معصوم پھولوں پر تھپڑوں کی بارش کردی جاتی ہے۔ ان کے کانچ سے دل ٹوٹ جائیں کسی کو پروا نہیں‘ ان کے معصوم چہرے تھپڑوں کی شدت سے لال ہوجائیں‘ کسی کو احساس نہیں، ان کی معصوم آنکھوں سے آنسوئوں کے دریا بہہ جائیں‘ کوئی سوچتا تک نہیں۔ یہ بچے امرا کے گھر میں غلاموں کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ کئی نو دولتیے تو ان کی نمائش کر کے شو مارتے ہیں کہ دیکھو! ہمارے پاس ملازم ہے‘ ہمارے پاس نوکر ہے‘ میڈ ہے۔ ان کو لے کر بازاروں‘ دعوتوں اور پبلک مقامات کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ صاحب بہادر‘ ان کی بیگم صاحبہ اور بچے تو زرق برق لباس میں ملبوس ہوتے ہیں‘ بیگم صاحبہ تو اضافی بوٹوکس اور فلرز کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہیں۔ نقلی ناخن‘ نقلی پلکیں اور سیاہ دل! مگر ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ کام کرنے والا بچہ پھٹے ہوئے کپڑوں اور ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ اپنے مردہ بچپن کی لاش کو گھسیٹ رہا ہے۔ وہ اپنے مالکان کے ساتھ پارک جاتا ہے‘ فوڈ کورٹ جاتا ہے لیکن امرا کے ماحول میں اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ وہ نہ تو کسی جھولے کو ہاتھ لگا سکتا ہے نہ ہی تازہ کھانا کھاسکتا ہے۔ اگر ایسا کیا توامرا کی دنیا میں بھونچال آجائے گا کہ ایک غریب کی ہمت کیسے ہوئی کہ ان کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ جائے یا ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے۔ اگر کسی غریب نے اپنی معاشی مجبوری کی وجہ سے اپنا بچہ یا بچی ان کے حوالے کرہی دی ہے تو شاید ہی یہ انسانیت دکھائیں۔ اکثر یہ لوگ شیطان بن جاتے ہیں اور معصوم بچے یا بچی کی روح تک مسخ کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو پتا ہے کہ یہاں قانون کمزور ہے‘ اس لیے وہ ظلم کے باوجود صاف بچ نکلیں گے۔آخر ان امرا کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے کہ ایک گلاس ٹوٹنے پر‘ کام دیر سے ہونے پر یہ غریب بچوں کی کھال تک نوچ لیتے ہیں۔ ان کے سروں پر توا اور ڈنڈے مارتے ہیں۔ ان کے ہاتھ او ربازو استری سے جلا دیتے ہیں۔ اتنی دولت بھی ان کو انسان بنانے اور سکون دینے سے قاصر ہے تو کیا فائدہ ایسی دولت اور ایسے رتبوں کا‘ جو انسان کو انسان نہ بناسکیں۔
ہر کچھ عرصے بعد خبر آتی ہے گھریلو ملازمت کرنے والے بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا‘ یا گھر میں کام کرنے والے ملازم کو مار کر نالے میں پھینک دیا گیا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سلسلہ رک کیوں نہیں رہا؟ بچے قتل ہورہے ہیں‘ تشدد کا شکار ہورہے ہیں مگر ان کے لواحقین کی کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ اپنی معاشی مجبوریوں کے تحت لوگ اپنا بچہ کسی امیر کے گھر میں بھرتی کراتے ہیں کہ شاید اس کو یہاں کام کے ساتھ اچھی خوراک اور رہائش مل جائے اور اگر مالکان اچھے ہوئے تو بچہ قرآن پاک پڑھ جائے گا۔ بہت ہی فرشتہ صفت ہوئے تو اس کو سکول بھی بھیج دیں گے مگر ایسا نہیں ہوتا! امیر لوگ غریبوں کے بچوں کو مارپیٹ کا نشانہ بناتے ہیں‘ ان پر ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں۔ اگر اس ظلم و ستم میں یہ بچے مر جائیں تو ان کے گھر والوں کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قتل کو خودکشی یا حادثے کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ کچھ برس میں کتنے ہی ایسے واقعات سامنے آئے۔
لاہور میں 2014ء میں ارم نامی ایک بچی کو اُس گھر میں ماردیا گیا جہاں وہ کام کرتی تھی۔ خاتونِ خانہ نے پیسوں کی چوری کا الزام لگا کر ارم کو مارا پیٹا اور اندھیرے کمرے میں بند کردیا جہاں وہ دم توڑ گئی۔ پھر دسمبر 2016ء میں طیبہ کیس سامنے آیا۔ وہ اسلام آباد کے ایک گھر میں ملازمہ تھی‘ جس وقت اس کو بازیاب کرایا گیا‘ اس کے بال کٹے ہوئے اور منہ سُوجا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں اور ہونٹ نیلے ہورہے تھے۔ ملزمان بااثر تھے لہٰذا معافی نامہ ہوگیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور بعد ازاں تشدد کرنے والے جوڑے کو سزا ہوئی۔ 2018ء میں گوجرانوالہ میں ایک گیارہ سالہ بچی کو گلے میں پھندہ ڈال کر مار دیا گیا اور کہا گیا کہ بچی اچانک مر گئی ۔ 2018ء میں ہی ایک سیاستدان کے بیٹے کو گرفتار کیا گیا جس نے اپنی دو ملازمائوں‘ یاسمین اور صائمہ پر چوری کا الزام لگاکر ان کو مارا پیٹا تھا اور محبوس رکھا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ملزم کی گرفتاری ممکن ہوئی۔ ننھی کنزیٰ بھی سب کو یاد ہو گی جس کو راولپنڈی میں ایک ڈاکٹر کے گھر میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 2019ء میں لاہور کے پوش علاقے میں کام کرنے والی کمسن حنا کی لاش سوئمنگ پول سے ملی تھی، اس کو ملازمت کرتے ابھی صرف پندرہ دن ہوئے تھے۔ اسی سال عظمیٰ نام کی ایک گھریلو ملازمہ کو صرف اس لیے جان سے مار دیا گیاکہ اس نے گھر میں پکنے والا تازہ کھانا چکھا تھا۔ ملازمت پر رکھنے والی خاتون نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ عظمیٰ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش کو نالے میں پھینک دیا۔ 2020ء میں راولپنڈی میں ایک آٹھ سالہ بچی کو اس حالت میں ہسپتال لایا گیا کہ اس کے سارے بال کاٹے ہوئے تھے اور پورا جسم زخمی تھا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ مالکان کا پالتو طوطا اس کی وجہ سے اُڑ گیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں اس کو اتنا مارا گیا کہ وہ ہسپتال میں دم توڑ گئی۔ 2021ء میں لاہور میں کرن کو اُس گھر میں‘ جہاں وہ کام کرتی تھی‘ جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا۔ کرن کے لواحقین کو چپ کرانے کیلئے ایک لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ 2022ء میں دو بھائیوں کو ہسپتال لایا گیا‘ ایک دم توڑ چکا تھا جبکہ دوسرا شدید زخمی تھا۔ ان کا جرم فریج سے کھانا ''چوری‘‘ کرنا تھا۔ کوئی کیس میڈیا پر آجائے تو شاید انصاف مل جاتا ہے وگرنہ ایسے کیسز میں کسی کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ غریب کا بچہ مر جائے‘ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اوپر سے پاکستان میں چائلڈ لیبر اور گھریلو ملازمت کے حوالے سے کوئی ڈیٹا ہی دستیاب نہیں۔ آج کل حکومت کورم کی پروا کیے بغیر عجلت میں بل پہ بل پاس کررہی ہے‘ ایک بل بچوں کی پروٹیکشن کیلئے بھی لے آئیں اور جبری مشقت اور ان کی گھریلو ملازمت پرمکمل پابندی لگا دیں اور اس پر عمل درآمد بھی کرائیں۔ رضوانہ کے نام سے نیا بل لائیں اور غریب بچوں کو مفت تعلیم، صحت اور کھیل کی سہولتیں دیں۔ الیکشن سے پہلے تو تجوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں تو ان کچلے‘ مسلے پھولوں کیلئے بھی کچھ کردیں۔ رضوانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اتنا ہولناک ہے کہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ پتا نہیں ان امیروں کو کیا ہوگیا ہے کہ انسان کو انسان ہی سمجھنا چھوڑدیا ہے۔ دعا ہے کہ رضوانہ جلد صحت یاب ہو اور مجرم کیفرِکردار تک پہنچیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں