سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟

''پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘‘ ۔ یہ ایسا جملہ ہے جس کو سنتے سنتے ہم بڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت چوتھی نسل کو یہ امید دلائی جا رہی ہے کہ عنقریب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ سب اپنے لیڈرز کو لے کر اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ جب وہ آئیں گے تو پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ ہر دور میں عوام کو جھوٹے خواب ہی دکھائے گئے اور ان سے جھوٹے وعدے ہی کیے گئے۔ جیسے پرانی چیز نئی پیکنگ میں نئی نہیں ہو جاتی، اسی طرح پرانے چہرے بھی کبھی نئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ 24 کروڑ افراد پاکستان میں بستے ہیں‘ کیا کوئی اس قابل نہیں کہ ملک و قوم کی قیادت کر سکے؟ اب نئے افراد کو موقع ملنا چاہیے‘ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سیاست پر موروثیت کی گرد جمی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ کرپشن کی دیمک جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ عوام کو ہر دور میں سنہری خواب دکھائے گئے‘ کبھی 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ کبھی 'روشن پاکستان‘ کبھی 'نیا پاکستان‘ اور کبھی 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگا کر عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر عوام کی قسمت کبھی نہیں چمک سکی۔ ان کوصرف سیاسی طاقت کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا رہا۔ کبھی ووٹ لینے کے لیے تو کبھی جلسوں کے پنڈال کو بھرنے کے لیے، کبھی نعرے لگانے کے لیے تو کبھی لیڈروں کی خاطر مار کھانے کے لیے، ایسے کاموں کے لیے ہمیشہ کارکنوں اور ووٹرز‘ سپورٹرز کو ہی آگے رکھا جاتا ہے۔ مگر جب اقتدار ملتا ہے تو تمام عہدے اپنے خاندان والوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ویسے بھی سیاست کرنے کے لیے چند مخصوص ناموں کا ساتھ لگا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ ان چند ارب پتی سیاسی خاندانوں کا حصہ نہیں تو میدانِ سیاست کی طرف آنے کا سوچیں بھی مت۔ ایک تو سیاست امیروں کا کھیل بن چکی ہے، الیکشن لڑنا یا منتخب ہو کر اسمبلی تک پہنچنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی، پھر یہ چند سیاسی خاندان جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، یہ ملک پر حکمرانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کو سیاسی عمل کا حصہ بنتے نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے لیے ان کا خاندان ہی پاکستان میں جمہوریت اور اس کی بقا کا ضامن ہے۔ اگر کوئی ان سے سوال کر لے، ان کی غیر فطری ترقی اور اثاثوں میں بے تحاشا اضافے کے بارے پوچھ لے تو وہ اس کو جمہوریت پرحملہ قرار دینے لگتے ہیں۔اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ ملک ہمیشہ نازک موڑ سے گزرتا رہا ہے تو اقربا پروری، کرپشن، ڈیلز اور این آر اوز کی وجہ سے۔ اب تو صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ ہم اقتصادی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ہر جگہ لوگ ہماری ملکی قیادت کو دیکھ کر یہی سمجھتے ہیں کہ یہ قرضہ مانگنے آئے ہیں۔ ہم عالمی طور پر سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ کرپٹ اور نااہل قیادت ہے۔ جب ملک کی سیاسی قیادت ہی کو ملک پر اعتبار نہیں ہو گا، کوئی دوسرا اس پر بھروسہ کیوں کرے گا؟ اگر ہمارے سیاسی رہنمائوں کے اثاثے، ان کے بچے، ان کے کاروبار اس ملک میں نہیں ہوں گے تو وہ اس ملک کے ساتھ کیسے مخلص ہو سکتے ہیں۔ یہاں تو ایسے لوگ بھی حکمرانی کر گئے جن کے پاس پاکستان کی شہریت تک نہیں تھی۔
اس طرح یہ ملک کیسے چلے گا؟ جب ایک وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پاتا، وقت سے پہلے حکومت کو رخصت کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح سیاسی چپقلش شروع ہو جاتی ہے اور مرکز اور صوبوں میں طاقت کا توازن نہیں رہتا۔ اصولوں کے بجائے ذاتی مفاد کی خاطر لوٹا بن جانے والے سیاستدانوں کو یہاں ترجیح دی جاتی ہے۔ انہیں دیرینہ پارٹی ورکرز پر ترجیح دی جاتی ہے۔ سیاسی محاذ پر مقابلہ کرنے کے بجائے اندر خانے ڈیل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بہت سے سیاستدان اس بات کے خواہاں ہیں کہ اب ان کی اگلی نسلیں وفاق اور صوبوں پر راج کریں۔ اس کے لیے وہ ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ یہ سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش اور ذاتی مفاد کے حصول کی دوڑ ہے جس نے ملک کو آج اس نہج پہ پہنچا دیا ہے۔ پھر ان لوگوں کا سیاست میں کردار‘ جن کو سیاست نہیں کرنی چاہیے‘ وہ بھی اس ملک میں جمہوریت کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ پہلے مجھے لگتا تھا کہ شاید جمہوریت کے بار بار ڈی ریل ہونے اور مارشل لا کی وجہ سے ہم اس حال تک پہنچے ہیں لیکن یہاں تو جمہوری حکمران بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ہر کوئی مطلق العنان بادشاہ کی طرح حکومت کرنا چاہتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کو ساتھ لے کر چلنا‘ مخالفین کی رائے کو اہمیت دینا ہے۔ اگر یہ سب نہ ہو تو جمہوریت بھی ون مین شو ہو گی، اسے ہائبرڈ سسٹم تو کہہ سکتے ہیں مگر جمہوریت نہیں۔ سبھی سیاسی جماعتیں اس وقت جمہوریت کے نام پر ون مین شو اور موروثیت کا شکار ہیں۔ باپ کے بعد بیٹا، ماں کے بعد بیٹی، سسر کے بعد داماد ، شوہر کے بعد بیوی اور والدین کے بعد بچوں کی باری چلی آ رہی ہے۔ کسی متوسط طبقے کے شخص کو آگے آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔گزشتہ چند ماہ میں سیاسی کارکنان اور عہدیداروں پر جس طرح کریک ڈائون ہوا ہے‘ اس کے بعد سے عوام ویسے ہی سیاست سے دورہو گئے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا اس کے گھر پر پولیس کا چھاپہ پڑے، اس کے گھر میں توڑ پھوڑ ہو یا اس کے گھر والوں کو خوف زدہ اور ہراساں کیا جائے۔ اس ملک میں پولیس ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی حکومتیں پولیس کو عوام کی خدمت کا ریاستی محکمہ نہیں بلکہ ذاتی ملازم سمجھتی ہیں۔ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ کم کرنے اور اصلاحات کی شدید ضرورت ہے مگر جب حکومتوں میں ہی تسلسل نہیں تو ان کی پالیسیوں میں تسلسل کیسے آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر شعبہ‘ ہر ادارہ تباہی کا شکار ہو گیا ہے۔
اس وقت معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ملکی اثاثے بیچے جا رہے ہیں۔ کبھی اس کو نجکاری کا نام دیا جاتا ہے اور کبھی آئوٹ سورس کرنے کا ۔ کون سے ممالک میں ایسا ہوتا ہے کہ اثاثے بیچ کر عیاشیاں کی جائیں؟ مگر یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اشرافیہ کو بڑی گاڑیاں چاہئیں، ان کو عشائیے، ظہرانے اور عصرانے چاہئیں۔ ان کو بیرونی ممالک کے سرکاری دورے کرنے ہیں چاہے اس میں ملک کا خزانہ خالی ہو جائے۔ عوام پر ٹیکس لگا کر یا قرضے لے کر‘ کسی بھی طرح ان کے چونچلوں کو پورا کیا جاتا رہے۔ امرا کو مہنگی گاڑی، صاف پانی، بجلی، گیس سب کچھ عوام کے ٹیکسز کے پیسے سے چاہیے۔ اپنے انڈسٹریل ایمپائرز انہوں نے بیرونی ممالک میں بنا لیے ہیں‘ خود یہاں وہ وائسرے کی طرح حکومت کرنے آتے ہیں اور اس کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ جو اپنے جوتے تک بیرونِ ملک سے لیتے ہیں، ان کو اس ملک یا یہاں کے عوام سے کیا غرض؟ یہ ملک ان کے لیے محض کمائی کا ایک ذریعہ ہے، چاہے ٹیکسز سے یا بیرونی قرضے لے کر‘ بس ان کے شاہانہ اخراجات پورے ہونے چاہئیں۔
اگر پاکستان کی اقتصادیات کی طرف دیکھیں تو روپے کی قدر مسلسل گرتی رہی، ڈالر مہنگا ہوتا رہا، بجلی‘ گیس‘ پٹرول کے نرخ بڑھ گئے۔ عوام کا وہ طبقہ‘ جو کبھی متوسط تھا اب غربت کی لیکر سے نیچے جا چکا ہے، مگر اشرافیہ کے اثاثے بڑھتے ہی رہے۔ ان کی جائیدایں کئی براعظموں تک پھیل گئیں۔ ہر بار وہ یہ نعرہ لگا کر آتے ہیں کہ ہم سب ٹھیک کردیں گے لیکن صرف اپنا مستقبل سنوار کر نکل جاتے ہیں۔ اپنے خلاف انکوائریاں اور کیسز بند کراتے ہیں، نئے معاہدے کرتے ہیں، مزید کک بیکس لیتے ہیں اور پھر سامان اٹھا کر اپنے بدیشی وطنوں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا سسٹم اس سب کو سپورٹ کرتا ہے۔ اس کے خلاف بات کرنے والوں کو یہاں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہاں کبھی انقلابی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ایسے لیڈران‘ جو مشکل حالات دیکھ کر ڈیل کر لیں‘ ملک چھوڑ جائیں‘ بیرونِ ملک اپنے محلات میں عیاشی کریں وہ ملک کے عوام کے درد کا احساس کیسے کر سکتے ہیں؟ یہاں عوام بھوکے مر رہے ہیں اور اشرافیہ کی یورپ میں چھٹیاں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔ یہ لوگ کبھی عوامی مفاد کی وجہ اکٹھے نہیں ہوتے مگر جب ان کو اپنا مفاد نظر آتا ہے تو فوری یکجا ہو جاتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک نے ہمیشہ ایک نازک موڑ ہی پر کھڑے رہنا ہے‘ یہاں انقلابی تبدیلی آنا ناممکن ہے۔ اس کے لیے ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو موروثی سیاست نہ کرے اور جس کی جڑیں عوام میں ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں