بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

بچے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ ان کی ذہانت، شرارت اور معصومیت دل موہ لیتی ہے۔ فطرتاً بچے کسی سے ڈرتے نہیں ہیں، کسی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتے ہیں اور جو دل میں آتا ہے‘ برملا کہہ دیتے ہیں۔ وہ دنیا کو بدلنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ نئی نسل کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتی ہے۔ پاکستان کی لگ بھگ دو تہائی آبادی ان نوجوان ہی مشتمل ہے‘ جو ہمارے لیے ابھی بچے ہی ہیں مگر یہ بچے بہت سیانے ہیں۔ اپنا ایک موقف رکھتے ہیں اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی ہے، فون ہے، انٹرنیٹ ہے۔ وہ کسی بھی معلومات تک منٹوں میں رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ اب والدین بھی اتنے سخت نہیں رہے جبکہ اساتذہ بھی ان کے تمام سوالات کا جواب دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نئی نسل بہت پُراعتماد اور ذہین ہے۔ بچے بنا ڈرے اور بنا جھجھک کے سوال پوچھتے ہیں اور اپنا موقف دیتے ہیں۔ یہ کسی کے رتبے یا قابلیت سے مرعوب ہوکر دب نہیں جاتے، اپنی بات اعتماد سے کرتے ہیں؛ تاہم بڑوں کو عزت بھی دینا ضروری ہے اور یہ بات نئی نسل کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ ہم جتنے بھی قابل ہو جائیں لیکن اپنے بڑوں کے تجربے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ نئی نسل کو ہمیشہ اپنے سے بڑوں کے سامنے مؤدب رہنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ :با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔ لہٰذا نئی نسل کو یہ بات اپنے پلے سے باندھ لینی چاہیے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ دنوں لمز یونیورسٹی کا دورہ کیا اور نئی نسل کیساتھ ایک سیشن کیا جس میں ان کے سوالوں کا براہِ راست جواب دیا۔ عام طور پر ہمارے ملک کی بڑی شخصیات عوام میں گھلنے ملنے سے گھبراتی ہیں، پریس کانفرنسز میں بھی وہ خود ہی خطاب کرکے چلی جاتی ہیں۔ سوال کے جواب مخصوص افراد کو ہی ملتے ہیں، جو صحافی یا رپورٹر ان کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں یا سخت سوالات پوچھتے ہیں ان کو پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاکس میں بلایا ہی نہیں جاتا۔ اگر کوئی بڑی شخصیات سے سوشل میڈیا پر سوال کرتا ہے تو اس کو فوری طور پر بلاک کردیا جاتا ہے بلکہ اب تو اس کے پیچھے سوشل میڈیا ٹیمز کے ٹرولز کو لگادیا جاتا ہے تاکہ وہ اسے اتنا زچ کریں کہ آئندہ وہ کسی شخصیت سے سوال نہ کر سکے۔ اس سب کے باوجود‘ سوال کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ خصوصاً بچے سوال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں بہت کچھ پل رہا ہوتا ہے۔ وہ سوال پوچھ کر اس کشمکش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نگران وزیراعظم سے نئی نسل نے تندوتیز سوال پوچھے اور حکومت پر تنقید بھی کی۔ ملک میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ نئی نسل کے ذہن میں اس حوالے سے بہت سے سوالات ہیں جن کے کوئی جواب نہیں دے رہا۔ جب سوالوں کے جواب نہیں ملتے تو مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس لیے نگران وزیراعظم جناب انوار الحق کاکڑ کی جانب سے نئی نسل کے سوالات کے جوابات دینا خوش آئند ہے۔ طلبہ نے نگران وزیراعظم سے جو سوالات پوچھے، انہیں کافی سخت کہا جا سکتا ہے لیکن یہاں کاکڑ صاحب کو بھی داد دینا بنتا ہے کہ بہت حاضر دماغی سے وہ سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ ایک چیز جواس سیشن میں نئی دیکھی گئی وہ یہ کہ اس مباحثے کی کارروائی کو سرکاری ٹی وی پر لائیو نشر کیا گیا۔ عام طور پر ایسی تقریبات سے پہلے طلبہ اور طالبات سے موبائل فون لے لیے جاتے ہیں، ان کو کچھ ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بعض صورتوں میں تو یہ بھی دیکھا گیا کہ کانووکیشن سے پہلے بچوں سے باقاعدہ حلف لیا جاتا ہے کہ وہ ڈگری وصول کرتے وقت مہمانانِ گرامی کا وقار ملحوظِ خاطر رکھیں گے اور ان کے ساتھ شائستگی سے پیش آئیں گے۔
نگران وزیراعظم کا بچوں کے ساتھ مکالمہ لائیو نشر ہوا اور بچوں نے بہت سخت سوال پوچھے جس کا جواب وزیراعظم صاحب خندہ پیشانی سے دیتے رہے۔ یہاں یہ بھی سامنے آیا کہ کاکڑ صاحب بات کرنے کے فن سے واقف ہیں، وہ لفظوں سے کھیلنا جانتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ سوال کا جواب دیے بنا بھی بات بڑھائی جا سکتی ہے۔ بہت سے سوالات پر انہوں نے کھل کر جواب دیا اور چند سوالات پر وہ جواب دینے سے متامل رہے۔ ایک طالبعلم نے ان سے شکوہ کیا کہ وہ پچاس منٹ دیر سے آئے ہیں۔ دیر سے آنے پر انہوں نے یہ تاویل دی چونکہ وہ کابینہ کے اجلاس میں تھے جہاں انہیں اہم فیصلے کرنا تھے، اس لیے ان کو دیرہوگئی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مجھے دیر ہوگئی تھی تو طالب علموں کے پاس اختیار تھا کہ وہ ہال سے اٹھ کر چلے جاتے۔ وزیراعظم صاحب نے وقت کی پابندی کے بجائے طالبعلم کو نیا مشورہ دیا کہ اس کو چلے جانا چاہیے تھا، یہ شاید مناسب نہیں تھا۔ دوسری جانب نگران وزیراعظم کے طور پر ان سے انتخابات کا بھی سوال ہوا مگر وہ اس کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ میری بچپن سے سیاست میں دلچسپی رہی ہے، اس کے بعد اپنے صحافتی کیریئر میں بھی یہی دیکھا کہ ملک میں الیکشن اس وقت ہی ہوتے ہیں جب اشرافیہ کی مرضی ہوتی ہے۔ الیکشن میں کون کون حصہ لے سکے گا اور کون کون نہیں‘ یہ معاملات بھی کہیں اور ہی طے ہوتے ہیں۔ جب خاص کرم ہو تو دو تہائی اکثریت تک مل جاتی ہے اور جب زیرعتاب ہوں تو ضمانت بھی ضبط ہوجاتی ہے۔
بچوں کے نگران وزیراعظم سے سخت سوالات پر کچھ طبقات خوش نظر آئے تو کچھ نالاں۔ کچھ نے ان بچوں کو ہیرو قرار دیا تو کچھ نے ان کو بدتمیز اور گستاخ تک کہہ ڈالا۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ بچوں کے سوالات حالاتِ حاضرہ سے مطابقت رکھتے تھے۔ نوجوان نسل مہنگائی‘ کرپشن‘ الیکشن کا بروقت نہ ہونا جیسے سب اہم ملکی مسائل سے واقف تھی۔ ایک نوجوان نے کراچی کے مئیر الیکشن میں دھاندلی تو دوسرے نے پنجاب اور کے پی میں الیکشن نہ ہونے کی طرف نشاندہی کرائی۔ آئین کے مطابق کسی بھی اسمبلی کے تحلیل ہونے کی صورت میں نوے دن کے اندر انتخابات ہو جانے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس پر طالبعلموں نے نگران وزیراعظم کو یاد دہانی کرانے کی کوشش کی کہ نگران حکومت کے آئینی فرائض کیا ہیں؛ تاہم وزیراعظم صاحب نے انتخابات کرانے کو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری قرار دے کر حکومت کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی۔ طالبعلم جب سلیکٹڈ اور الیکٹڈ میں کنفیوژن کا شکار ہوئے تو انہوں نے کہا: میں نامزد ہوکر آیا ہوں۔
سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے ان بچوں کو فاتح قرار دیا اور کہا کہ بچوں نے وزیراعظم کو لاجواب کردیا؛ تاہم میں سمجھتی ہوں کہ یہ کوئی ہار‘ جیت کا مقابلہ نہیں تھا بلکہ یہ قابلِ ستائش اقدام ہے کہ نگران وزیراعظم یونیورسٹی گئے اور وہاں طالب علموں کے ساتھ براہِ راست مکالمہ کیا۔ بچے بھی باشعور ہیں اور کسی بھی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر انہوں نے وہ سوال پوچھے جو اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں ہیں۔ اس یہ بھی معلوم ہوا کہ نئی نسل صرف بالی وُڈاور ہالی وُڈ کی دلدادہ نہیں بلکہ وہ ملکی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتی ہے اور ان مسائل کے حل کی خواہاں ہے۔ میری رائے میں تمام اداروں اور تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور خصوصی نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کو بھی تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے۔ خاص طور پر وہ موروثی سیاستدان ‘ جوآئندہ وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں‘ ان کو ضرور بڑے تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ عوامی جذبات کیا ہیں اور نئی نسل ان کے حوالے سے کیا سوچتی ہے۔ یاد رہے کسی کبوتریا ہُما کا ہاتھ پر آکر بیٹھ جانا اقتدار ملنے کی گارنٹی نہیں ہے۔ عوام اس وقت مہنگائی اور کرپشن سے تنگ ہیں‘ وہ ملک میں امن و سکون کے خواہاں ہیں۔ وہ ایسا معاشرہ چاہتے ہیں کہ جہاں سیاسی استحکام ہو‘ جہاں اشیائے ضروریہ قوتِ خرید سے باہر نہ ہوں۔ عوام اس وقت غصے میں ہیں، ووٹر اس وقت خائف ہے۔ اگر انتخابات شفاف ہوئے تو شاید ڈیل اور ڈھیل والوں کو اس بار مسترد کر دیا جائے۔تمام سیاسی جماعتوں کو تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے اور ان میں مخالف کی بات سننے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ جیسے کاکڑ صاحب نے کہا کہ بچے ہیں تو شرارتیں کرتے رہتے ہیں۔بچوں کے ساتھ مکالمہ آسان نہیں ہیں کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں