ماحولیاتی ایمرجنسی

میں جب لاہور میں رہائش پذیر تھی تو بار بار اس مسئلے کی نشاندہی کرتی تھی کہ یہاں تعمیرات کے نام پر درختوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ ایک پودے کو درخت بننے میں کئی سال بلکہ کئی دہائیاں لگتی ہیں‘ اس لیے ہرے بھرے درختوں کا قتلِ عام نہ کیا جائے۔ پرانے درختوں کو کاٹ کر نئے پودے لگانا ٹھیک نہیں‘ لازمی نہیں ہر چھوٹا پودا پروان چڑھ کر درخت بن جائے۔ پرانے درختوں کو بھی رہنے دینا چاہیے اور مزید نئے پودے بھی لگائے جائیں۔ کچھ لوگوں نے کہا: لاہور کیلئے انڈرپاسز اور پل زیادہ اہم ہیں۔ میٹرو بس بھی عوام کیلئے ہی بن رہی ہے، مگر میں کہتی کہ یہ پہلے سے بنی سڑکوں پر بھی تو چل سکتی ہے‘ اس کیلئے اتنا طویل ٹریک بنانے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ بھی ایسے ریجن میں جہاں آئے روز زلزلے آتے ہوں۔ درختوں کی کٹائی سے ماحولیات کا مسئلہ ہو گا تو سانس تک لینا مشکل ہو جائے گا۔ سانس ہو گا‘ صحت ہو گی تو ہی لوگ ان سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ مگر لاہور بدلتا گیا، ہریالی اور درخت ختم ہوتے گئے۔ وہ شہر‘ جہاں باغوں‘ پھولوں اور پرندوں کا ذکر ہوتا تھا‘ وہ بدل گیا۔ وہ شہر جو ایک تاریخ اور تہذیب کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے تھا‘ وہ کنکریٹ کا ایک جنگل بن گیا جس کو سیاستدان ترقی کا نام دیتے ہیں۔
سیاسی اشرافیہ کے مطابق لاہور اب ایک ترقی یافتہ شہر ہے لیکن یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہو گیا ہے۔ یہ کیسا ترقی یافتہ شہر ہے جو آلودگی میں بھی صفِ اول ہے۔ کیا آپ ایسی ترقی کو تسلیم کرتے ہیں جس میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کا مستقبل ہی دائو پر لگ جائے؟ لاہور میں بے ہنگم ٹریفک، دھواں، رہائشی علاقوں میں صنعتیں، ایندھن کو مسلسل جلانا، کیڑے مار ادویات اور زرعی کیمیکلز کا استعمال،فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں‘ ایسا کیا ہے جو مضرِ صحت ہو لیکن اس شہر میں نہ ہو ؟ رہی سہی کسر نام نہاد ''ترقیاتی منصوبے‘‘ پوری کر دیتے ہیں۔ سیمنٹ‘ کنکریٹ اور لوہے نے شہر کی تمام ہریالی کو نگل لیا ہے۔حکومت کے ٹائون پلاننگ، ماحولیات اور ہائوسنگ کے محکمے کچھ نہیں کر رہے جبکہ نجی سوسائٹیوں نے کھیت‘ کھلیان اور باغات‘ سب کچھ ملیا میٹ کردیا ہے۔ یہ درست ہے کہ شہر میں رہائش بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے کے حل کیلئے ماحول کو آلودہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ دریائوں‘ ندی‘ نالوں کے راستوں پر بھی پلاٹ بنا کر لوگوں کو بیچ دیے گئے۔ پانی کے ذخائر آلودہ ہوگئے‘ ہوا زہریلی ہو گئی مگر کسی کو کوئی پروا ہی نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا صوبے کے مخصوص اضلاع میں چار دن کے لیے چھٹی دینے سے ماحولیاتی آلودگی کم ہو جائے گی؟ کیا سموگ ختم ہو جائے گی اور لاہور دوبارہ ہرابھرا ہوجائے گا؟ نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اس وقت ہم ماحولیاتی ایمرجنسی کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر اس سے نمٹنے کے لیے جلد اور ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے سالوں میں سب سے زیادہ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہی ہوں گی۔ اس وقت بھی ہر سال لاکھوں افراد آلودگی سے ہونے والی بیماریوں کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہم شاید اس مسئلے کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ آلودگی سے بہت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس سے نظامِ تنفس متاثر ہوتا ہے اور کینسر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سانس اور پھیپھڑوں کے علاوہ آنکھوں کے سنگین امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔
لاہور کے علاوہ راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور پشاور بھی شدید آلودگی کا شکار ہیں۔ میں گزشتہ دنوں اسلام آباد سے راولپنڈی جا رہی تھی تو دیکھا کہ سڑک پر ہر طرف سموگ کا راج تھا‘اس کے باوجود سڑکوں پر اتنی زیادہ ٹریفک تھی۔ مجھے سانس لینے میں دقت ہورہی تھی۔ اگر اچھی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہوتی تو کیا سڑکوں پر اتنی گاڑیاں ہوتیں؟میٹرو بس تو ایک مخصوص روٹ پر چلتی ہے‘ باقی شہر تو اس سہولت سے محروم رہ جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو افورڈ کرسکتا ہے‘ وہ اپنی سواری پر انحصار کرتا ہے۔ شدید رش‘ شور اور ٹریفک کے دھویں نے پورے ماحول کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔میں نے گاڑی کا شیشہ بند کرکے ماسک پہنا تو تھوڑا ریلیف ملا۔ کورونا کے بعد سے دھول‘ مٹی اور تیز خوشبو برداشت نہیں ہوتی۔ اگر ایک بار گلا خراب ہو جائے تو کھانسی اور زکام بہت دن تک پیچھا نہیں چھوڑتے جس کے باعث میرے کام میں بھی تعطل آ جاتا ہے۔ اکثر آواز مکمل بند ہوجاتی ہے۔ اسلام آباد میں تو پہلے ہی پولن اور دیگر الرجی عوام کاجینا دوبھر رکھتی ہیں؛ اگرچہ مجھے انہوں نے کبھی متاثر نہیں کیا لیکن کورونا نے بہت سے افراد کی قوتِ مدافعت کو خاصا کم کردیا ہے۔ اب دھول‘ مٹی بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس وقت راولپنڈی بھی شدید سموگ کی زد میں ہے۔ یہاں ٹریفک کا شور اور دھواں بھی بہت زیادہ ہے۔ شہر کے ذمہ داران کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ راولپنڈی بھی ماحولیاتی اعتبار سے لاہور جیسے مسائل کاشکار ہو جائے گا۔ اسی طرح اسلام آباد بھی اس وقت تعمیرات کی زد میں ہے۔ اونچے اونچے پلازے‘ مالز اور دفاتر بن رہے ہیں۔اسلام آباد وہ جگہ ہے جہاں تواتر سے زلزلے آتے ہیں جس سے جانی اور مالی نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہم سبق نہیں سیکھتے اور کسی سانحے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کبھی اسلام آباد خوبصورت ترین دارالحکومت سمجھا جاتا تھا مگر اب یہاں بھی آلودگی بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ جنگلات کا صفایا کر دیا گیا ہے۔
اب ہر طرف سموگ کا راج ہے اور انسان کھانس رہے ہیں‘ بیمار ہورہے ہیں۔ آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش اور کھانسی کی شکایات عام ہورہی ہے۔ مگر پروا کس کو ہے؟ چار چھٹیوں سے حکومت کو لگتا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا مگر نہیں! سب سے پہلے شجرکاری کرنا ہوگی، ان فیکٹریوں کو جرمانے کرنا ہوں گے جو ماحول کو آلودہ کررہی ہیں۔اس کے ساتھ نئے رہائشی منصوبوں کے حوالے سے یہ پابند کیا جائے کہ ہریالی کو کم نہیں کیا جائے گا۔ زیادہ دھول‘ مٹی والی جگہوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیاجائے اور کچرے کو آگ نہ لگائی جائے۔ دورانِ سموگ لوگوں کو چاہیے کہ وہ گھروں پر رہیں۔ جنہیں دمہ یا سانس کے مسائل کا سامنا ہے‘ وہ لازمی احتیاط کریں۔ایک گھر میں اگر چار گاڑیاں ہیں تو چاروں کو سڑک پر لانے سے بہتر ہے کہ چاروں لوگ ایک کار میں چلے جائیں۔ اپنی گاڑیوں کی ٹیوننگ کرائیں۔ ایسی سرگرمیوں سے اجتناب کریں جن سے ماحول میں دھواں‘ دھول‘ کاربن مونو آکسائیڈ یا میتھین گیس پیداہو۔ سموگ کا پھیلائو اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ دیوالی‘ تہواروں اور شادیوں پر ہونے والی آتش بازی بھی اس کے پھیلائو کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ دھواں انسانی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو آگاہی دی جائے کہ کن چیزوں سے یہ دھندلا بادل وجود میں آتا ہے اور ہمیں اپنی کن کن سرگرمیوں کو کم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ احتیاطی تدابیر بھی بتانا ہوں گی تاکہ عوام محفوظ رہ سکیں۔
سموگ دو طرح کی ہوتی ہے؛ ایک وہ جیسی لگ بھگ سو سال قبل لندن میں پھیلی تھی وہ صنعتی سموگ تھی۔اس میں ایندھن‘ کوئلہ‘ مٹی کے ذرات اور سلفر وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ دوسری سموگ‘ فوٹو کیمیکل سموگ ہوتی ہے جو ٹریفک کے دھویں سے پھیلتی ہے۔ انڈسٹریل سموگ سردیوں میں حملہ آور ہوتی ہے اور اس سے پھیپھڑے اور گلا متاثر ہوتا ہے جبکہ فوٹو کیمیکل سموگ گرمیوں میں بھی ہوتی ہے اور اس سے آنکھوں میں تکلیف اور جلن ہوتی ہے اور یہ گلے کو متاثر کرتی ہے جس سے شدید کھانسی ہوتی ہے۔ غیر نامیاتی کمپاونڈز اور نائٹروجن آکسائیڈ گیس وغیرہ اس سموگ کا باعث بنتی ہیں۔اس سے انسان وقتی طور پر کھانسی اور گلا خراب کا شکار ہو جاتا ہے لیکن آگے چل کر یہ مرض کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتاہے۔ہمارے ملک میں آلودگی سے ہونے والی اموات کا مکمل ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا حالانکہ پاکستان اس وقت بدترین موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے اور آلودگی میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ ان مسائل کاحل چاردن کی چھٹیاں نہیں۔ عوام تو ان کو بھی تفریح سمجھ کر گھومنے نکل جائیں گے۔ ماحولیاتی مسائل کے دور رس منفی اثرات ہیں‘ اس لیے ان کے حل کے لیے بھی طویل المدت اقدامات کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں