کیا سیاست دانوں کی نجی زندگی نہیں ہوتی ؟

پاکستان کی سیاست میں ایک دوسرے پر الزامات کا چلن عام ہے۔ پہلے مخالفین میں ''غیر ملکی ایجنٹ‘‘ کا ٹائٹل عام تقسیم کیا جاتا تھا۔ جلسوں‘ تقاریر اور پریس کانفرنسز کرتے ہوئے حزبِ مخالف کو بھارت اور یہودیوں کا آلۂ کار بناکر پیش کیا جاتا تھا۔ عوام بھولے بھالے‘ جو بھارت اور اسرائیل سے ان کے کشمیر و فلسطین میں مظالم کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں‘ وہ ایسے بیانات کے سبب اُس شخص کو واقعی بھارتی‘ یہودی‘ صہیونی اور اسرائیلی ایجنٹ سمجھنا شروع کردیتے تھے۔ ''را کا ایجنٹ‘‘ اور ''بھارت کا ہمدرد‘‘ یہ ہماری سیاست کا مقبول ترین الزام رہا ہے۔ اس کے ساتھ فتوے بھی عام بٹا کرتے تھے اور کمیونزم کے حامیوں کو ''لادین‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ہماری سیاسی تاریخ میں مخالفین پر توہینِ مذہب کے الزام عائد کر کے ان کی زندگیاں تک خطرے میں ڈالی گئیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ الزامات نجی زندگی کو بھی متنازع بنانا شروع گئے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ بہو‘ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ رواداری سیاست میں ختم ہو گئی۔ اب سیاسی الزامات مخالفین کی بیٹیوں‘ بہوئوں‘ بیویوں اور مائوں تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ ایک دوسرے کی نجی زندگی بھی پبلک میں لے آئی ہے۔ شادی‘ بیاہ‘ نکاح‘ بچے تک سب کچھ میڈیا پر ڈسکس ہونے لگا ہے۔ چھپ کر شادیاں‘ افیئرز اور منشیات تک زیرِ بحث آنے لگی ہیں۔ پہلے خبر کے ذرائع ریڈیو اور اخبارات ہوا کرتے تھے، پھر ٹی وی چینلز آ گئے اور اب سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ روایتی میڈیا تو پھر بھی کسی ضابطۂ اخلاق کو فالو کرتا ہے لیکن سوشل میڈیا کا تو کوئی اصول و قاعدہ ہی نہیں۔ جس کی جو مرضی‘ اَپ لوڈ کر دے۔ اس سب میں خواتین کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح کی منفی خبریں اور وڈیوز سارا دن سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے! لیکن بدقسمتی سے اب یہی کچھ ہورہا ہے۔ دکھ اُس وقت زیادہ ہوتا جب مین سٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ان مہمات کا حصہ بن کر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی نجی زندگی کو موضوعِ بحث بناتے ہیں۔ میڈیا میں ایڈیٹوریل بورڈز ان سب چیزوں کی سختی سے نفی کرتے ہیں لیکن چونکہ سوشل میڈیا پر سبھی اپنی من مانی کرسکتے ہیں لہٰذا لوگ وہاں پر سب کچھ پوسٹ کرکے اپنی ذاتی دوستی یا دشمنی نبھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اصولی طور پر صحافیوں کو غیرجانبدار رہنا چاہیے‘ ان کو کبھی بھی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت میں ایک حد سے آگے نہیں جانا چاہیے‘ انہیں حقائق پر یا کسی کی کارکردگی پر بات کرنی چاہیے‘ نجی زندگی کے سیکنڈلز کسی صورت بھی مرکزی میڈیا پر اچھے نہیں لگتے۔ پہلے خبریں اخباروں کے ذریعے عوام تک پہنچتی تھیں‘ اب اس قسم کی خبروں کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک وڈیو کو بہت سے لوگ ایک ساتھ اَپ لوڈ کر دیتے ہیں جس کے بعد یہ مہم زور پکڑ لیتی ہے۔ اس وڈیو کو بنا کسی کریڈٹ کے نشر کیا جاتا ہے۔ جب ان سے پوچھیں کہ اس کا کریڈٹ کس کو دیں گے‘ کس کی پروڈکشن ہے تو آگے سے کوئی جواب نہیں آئے گا۔ بس مخالف کے کردار کی دھجیاں اڑا کر سکون لیا جاتا ہے۔ اب یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ نجی زندگی سے متعلق ایسی خبریں دے کر یوٹیوب‘ فیس بک‘ انسٹاگرام اور ٹویٹر پر ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ ایسی مہمات جو پلان کرتے ہوں گے‘ وہ ضرور اس میں بجٹ بھی لگاتے ہوں گے اور اپنی سوشل میڈیا ٹیمز کو یہ وڈیو انٹرنیٹ پر پھیلانے کے لیے دیتے ہوں گے۔ بہت سے لوگ فیک اکائونٹس کا سہارا لے کر اس طرح کی مہمات چلاتے ہیں۔
کردار کشی‘ کسی مرد کی ہو یا عورت کی‘ جرم ہے اور اگر کسی عورت پر بے بنیاد الزامات لگائے جائیں تو یہ معاملہ زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جبکہ شرعی لحاظ سے بھی یہ گناہِ کبیرہ ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ گناہ اور یہ جرم جاری و ساری ہے۔ مغربی ممالک میں تو ہتکِ عزت کے حوالے سے قوانین اتنے سخت ہیں کہ بے سروپا الزامات لگانے والوں پر فوری دعویٰ دائر کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں خواتین اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر کچھ نہیں کر پاتیں۔ نازیبا مواد سوشل میڈیا پر ویسے ہی پڑا رہتا ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ اداروں میں شکایت اور ایسے مواد کو رپورٹ کرنا بھی بیکار جاتا ہے۔
اس وقت‘ جب الیکشن قریب ہیں‘ سیاسی مخالفت میں ہر حد پار کی جا رہی ہے۔ سیاست دانوں پر ہر طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جن میں ان کے گھر کی خواتین اور سیاسی کارکنان بھی زد میں آ رہی ہیں۔ ہر ہفتے ایسی نت نئی من گھڑت کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ شریف انسان کے لیے فیملی کے ساتھ ٹی وی دیکھنا تک مشکل ہو جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اس حوالے سے سوال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج کل ایک غیر معروف اداکارہ بہت سے لوگوں کی مرکزِ نگاہ بنی ہوئی ہے۔ متعدد افراد اس کی لکھی ایک کتاب کی تشہیر کر رہے ہیں۔ اگر کتاب سائنس و ٹیکنالوجی پر ہوتی یا عوام کے مفاد میں ہوتی تو تشہیر کی سمجھ بھی آتی تھی مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ جن افراد کو بانی چیئرمین پی ٹی آئی پسند نہیں‘ ان افراد کی بڑی تعداد کتاب کی رونمائی تقریب میں بھی شریک تھی۔ کچھ رپورٹر اور صحافی بھی اس ایونٹ کو کور کرنے کے لیے اسلام آباد کے مہنگے ہوٹل میں موجود تھے۔ کتاب میں کیا لکھا ہے‘ کیا الزامات لگائے گئے ہیں‘ یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر دوسرے ہفتے ایسے سکینڈلز سامنے آتے ہیں اور دم توڑ جاتے ہیں؛ تاہم اس سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ صاف نظر آ رہی ہے۔ وہ باتیں جو شاید کبھی سات پردوں کے پیچھے ہوتی تھیں‘ اب کھلے عام سوشل میڈیا پر ہو رہی ہیں۔ سیاست دانوں کی نجی زندگی کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ بیشتر سیاستدان اپنی نجی زندگی کو نجی ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس طرح کی سستی شہرت نہیں چاہیے۔ غالباً 1990ء کی دہائی کی بات ہے‘ دو خواتین منظر عام پر آئیں‘ ایک نے دعویٰ کیا کہ پنڈی کے ایک معروف سیاستدان اس کے شوہر ہیں اور دوسری نے کے پی کے ایک سیاستدان کو اپنا شوہر قراردیا۔ غالباً اس معاملے میں کوئی صداقت نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ کچھ ہی عرصے بعد دب گیا۔ اگرچہ ایسے بہت سے دعوے سچ بھی ثابت ہوتے رہے ہیں‘ متعدد سیاستدانوں نے خفیہ شادیاں کیں مگر اس کو ایشو بنانا یا اس معاملے ہی کو ملک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دینا سخت زیادتی ہے۔ سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ جب شادی کریں تو اس کو باقاعدہ رجسٹرڈ کرائیں۔ شادی کوئی گناہ کا کام نہیں کہ اس کو چھپ کرکیا جائے۔الزامات اسی وقت لگتے ہیں جب اہم شخصیات اپنی شادی کو چھپاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شادی پر اس وقت بہت حیرت ہوئی جب پتا چلا کہ یہ شادی کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں تھی‘ بعد ازاں جب بات طلاق پر پہنچ گئی تو خاتون کے ہاتھ میں قانونی طور پر کوئی ثبوت نہیں تھا۔
سیاستدان عوام کے رول ماڈلز ہیں۔ ان کو اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے گھر کی خواتین‘ بلکہ دیگر خواتین کا بھی احترام کرتے ہیں۔ ہر ممکن کوشش کریں کہ افیئرز سے خود کو بچائیں۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے‘ کالز اور میسجز پبلک ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب سیاستدانوں کی وڈیو؍ آڈیو لیکس اور ان کی نجی زندگی پر حملوں سے محض سیاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیاستدانوں کی بھی نجی زندگی ہوتی ہے اور سب کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اپنے مخالفین کی نجی زندگی کی یوں تشہیر کی جاتی ہے جیسے باقی سب گناہ سے پاک ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے‘ دوسروں کے عیوب اور گناہوں کی پردہ پوشی کریں۔ عیب جوئی‘ غیبت اور بہتان تراشی گناہِ کبیرہ ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہر بار سیاستدان اور ان کے اہلِ خانہ ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں؟ وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں‘ ان کی زندگی میں بھی اتار چڑھائو آتے ہیں‘ وہ بھی کسی وقت کمزور پڑ سکتے ہیں۔ مخالفین کی غلط کاریوں کی تشہیر یا ان کو بدنام کرنے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ وہ خود کتنے پارسا ہیں۔ یہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو رہا یا نہیں مگر اس کا اخلاقی دیوالیہ مت نکالیں۔ ایک دوسرے سے نظریاتی اختلاف رکھیں لیکن ایک دوسرے کی عائلی و نجی زندگی اور گھریلو خواتین سے دور رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں