دسمبر ہم پر بھاری ہے

ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ملک ٹوٹ گیا۔ ہمارے بزرگ سقوطِ ڈھاکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے رو پڑتے تھے۔ شاید ہی دنیا میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود ہو کہ ایک ہی ملک کے دو حصوں میں اتنا فاصلہ ہو جتنا مشرقی اور مغربی پاکستان میں تھا۔ یہی فاصلے پھر دلوں میں بھی دَر آئے اور سیاسی رہنمائوں کے غلط فیصلے فیڈریشن کی تقسیم کا باعث بن گئے۔ تب وہ لوگ بہت روئے اور تڑپے تھے جنہوں نے قیامِ پاکستان کی خاطر قربانیاں دی تھیں۔ ان کو مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں سے محبت تھی۔ ان کیلئے بنگالی پاکستان کا لازمی جزو تھے۔ لیکن شاید سیاسی اشرافیہ اس احساس سے عاری ہوتی ہے۔ اُسے صرف اقتدار‘ دولت اور اپنی ذات سے پیار ہوتا ہے۔ عوام مگر ایسے نہیں ہوتے‘ وہ ایسے سانحات کے بعد ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس سانحے کی ذمہ داری سبھی ہندوستان پر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ اس تقسیم کے ذمہ داران کی معاونت کس نے کی‘ ان کے سہولت کار کون تھے‘ یہاں کسی کو اس بات کی پروا ہی نہیں تھی کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کم از کم کوئی سزا ہی مل جاتی۔ میں نے جب معروف براڈ کاسٹر اظہر لودھی کا انٹرویو کیا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ جب عوام کو اس سانحے کی اطلاع دی گئی تو نہ صرف عوام بلکہ ٹی وی اور ریڈیو کا سٹاف بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ 16دسمبر 1971ء ایک عجیب پُرآشوب دن تھا۔ ہماری ایک استانی صاحبہ ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کا واقعہ سناتے ہوئے بتاتی تھیں کہ اس دن ان کے علاقے کے ہر گھر سے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ سیاسی رہنماؤں کی ذاتی لڑائی ملک توڑ گئی لیکن ذمہ داروں کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔ حمود الرحمن کمیشن کی فائلیں کہیں گرد تلے دب گئیں۔
جب ہماری نسل جوان ہو رہی تھی تو ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ جنگ امریکہ کی تھی لیکن ہم پر مسلط کر دی گئی۔ پاکستان امریکہ کی اس جنگ سے لگنے والی آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی رپورٹنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ 20ستمبر 2008ء کو جب اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرایا تو مجھے اس افسوسناک واقعہ کو کور کرنا پڑا۔ ہوٹل میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ میرے جوتے آگ کی حدت سے جل رہے تھے اور میں یہ تپش اپنے پیروں تک محسوس کررہی تھی۔ سوچیں‘ جن لوگوں نے اس واقعے میں جانیں گنوا دی تھیں‘ ان پر کیا بیتی ہو گی۔ تب ہم سب اس مستقل خوف کے سائے میں جیتے تھے کہ نجانے کب اور کہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جائے۔ نجانے کب کوئی خودکش حملہ آور حملہ کردے۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہمارا قصور کیا ہے‘ پر یہ شاید سابقہ اور اس وقت کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ تھا جو ہم بھگت رہے تھے۔ گھر سے کالج‘ کالج سے دفتر اور پھر دفتر سے گھر‘ کسی بھی جگہ پہنچنا کسی جہدوجہد سے کم نہ تھا۔ شام کو جب انسان خیر خیریت گھر لوٹ آتا تو لگتا تھا کسی محاذِ جنگ سے لوٹا ہے۔
بازار‘ مساجد‘ چرچ ‘ اہم سرکاری دفاتر‘ ہر جگہ عوام کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بہت منظم حملے تھے۔ دہشت گرد اپنے اہداف کے چپے چپے سے واقف ہوتے تھے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ جو نسل دہشت گردی کے اس خوف میں جوان ہوئی ہے‘ کیا اسے اس نسل کے کرب کا بھی کوئی احساس ہے جس نے پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا؟ تو بالکل‘ اس نسل کو سقوطِ ڈھاکہ کے کرب کا احساس ہے کیونکہ جو شخص خود غموں اور تکالیف سے گزرا ہو‘ اسے دوسروں کے غموں اور تکالیف کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ویسے بھی‘ یہ تو ہم سب کے مشترکہ دکھ اور غم ہیں۔ پر یہ محسوس صرف انہی کو ہوتے ہیں جو دردِ دل یا احساس رکھتے ہوں۔ یہ درد یا کرب وہ لوگ محسوس نہیں کر سکتے جن کے کاروبار باہر کے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں‘ جن کی اربوں روپے کی کرپشن معاف ہو جاتی ہے‘ جو لندن یا دبئی کو اپنا پہلا گھر سمجھتے ہیں‘ ان کو پاکستان کے مسائل سمجھ نہیں آ سکتے۔ اس ملک کے مسائل جاننے اور انہیں حل کرنے کیلئے یہاں رہنا بہت ضروری ہے۔
پاکستان بننے کے بعد پاکستانی سمجھتے تھے کہ شاید بطور قوم ہم اتنی قربانیاں دے چکے ہیں کہ اب مزید قربانیاں نہیں دینا پڑیں گی۔ پر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ تو 16دسمبر 2014ء کو سانحۂ اے پی ایس نے ہمارے دل پر وار کیے۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہوا تو سب ہل کر رہ گئے کہ سکول میں یہ سب کون کر سکتا ہے۔ بچوں پر ظلم کون کر سکتا ہے۔ پر ایسا ہوا اور ہمارے 122 بے قصور بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ شہدا کی کل تعداد 144 تھی جس میں اساتذہ اور ایڈمن سٹاف بھی شامل تھا۔ تین سکیورٹی اہلکاروں نے بھی اس سانحے میں اپنی جان وطن پر قربان کی تھی۔ کہنے کو تو یہ صرف ہندسے ہیں لیکن اصل میں یہ 144خاندان تھے جو اُس دن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میں نے سانحۂ اے پی ایس پر کتاب لکھی ہے‘ اس لیے میں بہت سے خاندانوں کو ذاتی طور پرجانتی ہوں جو اس سانحے سے مکمل تباہ ہو گئے۔ دہشت گردی اپنے ساتھ بہت تباہی لاتی ہے۔ ایک تباہی تو اُسی دن ہوتی ہے جب وہ سانحہ پیش آتا ہے لیکن اس سانحے کے پیچھے چلی آنے والی تباہی کو کوئی نہیں دیکھتا۔ دہشت گردی سے متاثرہ خاندان اب تک اُس سانحے سے پہلے والی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکے۔ اُس ماں کی تکلیف لکھنا آسان نہیں جس نے اپنا لختِ جگر دہشت گردی کی ہولناکی میں کھو دیا ہو۔ جو بچے اس سانحے میں بچ گئے تھے‘ وہ بھی بہت عرصہ تک PTSDکا سامنا کرتے رہے۔ دکھ انسان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ یہی سب سقوطِ ڈھاکہ کے متاثرین کے ساتھ ہوا ہو گا اور یہی سانحۂ اے پی ایس کے متاثرین کے ساتھ ہوا۔تاہم سانحہ اے پی ایس کے بعد ہونے والے آپریشن نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ قوم میں ایک جذبہ تھا کہ ان ننھے پھولوں کا انتقام لینا ہے۔ یوں ایک طویل جنگ کے بعد ہم تھوڑے نارمل حالات کی طرف آئے۔ لوگ قدرے سکون میں آ گئے۔ پر پھر ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ معاشی زبوں حالی اپنے عروج کو پہنچی۔ بدعنوانی عام ہو گئی اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے کیسز معاف ہونے لگے۔ اسی افراتفری میں د ہشت گردی نے پھر سے سر اٹھا لیا۔ اب دہشت گرد نا صرف عوام بلکہ سکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ حالیہ ایک ڈیڑھ سال میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جب ملک سیاسی اور معاشی لحاظ سے غیر مستحکم ہو تو جرائم پیشہ افراد کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی مذموم کارروائیوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
دسمبر کا مہینہ ہمیشہ پاکستان پر بھاری رہا ہے۔ اس برس بھی‘ جب سے یہ مہینہ شروع ہوا ہے‘ دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اب ہمیں چوکنا رہنا ہوگا‘ ہم مزید سانحات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے منظر پر نظر رکھیں‘ ایسے عناصر کو رپورٹ کریں جو امن و امان میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا حالات درست نہیں ہو سکتے۔ ان مشکلات حالات سے نکلنے کا حل جمہوریت اور صاف و شفاف الیکشن میں پوشیدہ ہے۔ جمہوری عمل تسلسل سے جاری رہے تو حالات کافی بہتر ہو جائیں گے۔ حالیہ کچھ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونیوالے اضافے کی وجہ سے عوام ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں وہ دوبارہ اسی پُرآشوب دور میں واپس نہ چلے جائیں جس سے وہ ایک طویل جنگ کے بعد نکلے تھے۔ عوام خاطر جمع رکھیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے سکیورٹی اہلکار مسلسل برسر پیکار ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے ان خدشات کو دور کرے۔ ان کے زخم ابھی بھرے نہیں‘ وہ نئے زخم سہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حکومت دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے تاکہ ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے اور عوام بنا کسی ڈر اور خوف اپنی زندگی گزار سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں