میرے شہر کو کس کی نظر لگ گئی؟

ایک وقت تھا کہ میرا شہر اسلام آبا اتنا پُرسکون اور حسین ہوا کرتا تھا کہ اس پر جنت کے ٹکڑے کا گمان ہوتا تھا۔ گہرے سیاہ بادل، گھنی گھٹائیں اور بارش کے بعد قوسِ قزح کا نکلنا! یہ سب ایک خواب سا معلوم ہوتا تھا۔ موسم اتنا ٹھنڈا ہوتا کہ بارش کے بعد گرمیوں میں بھی ٹھنڈ ہوجاتی تھی۔ وہ دور ایک بے فکری کا دور تھا۔
میں پیدا کراچی میں ہوئی مگر پلی بڑھی مری بھوربن اور اسلام آباد میں ہوں۔ جیسے ہی کچھ شعور آیا‘ میں نے طے کرلیا تھا کہ مجھ سے ایک ہی شہر منسوب رہے گا اور وہ ہے میرا پیارا اسلام آباد۔ جو اس شہر میں آتا ہے‘ پھر اس کے سحر سے نکل نہیں پاتا۔جس وقت ہم اس شہر کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے‘ یہ پھولوں‘ پودوں اور درختوں سے بھرا ہوتا تھا۔ ہر طرف سبزے کی بہار نظر آتی اور ہر جگہ پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوتی تھی۔ ہم گلی میں کھیلتے کھیلتے کبھی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے، کبھی قریبی مارکیٹ سے چپس اور جوس لے کر سیکٹر کے پارک میں چلے جاتے۔ جب کبھی پارک جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی تو گھر میں ہی کھیل لیا کرتے۔ اس وقت ہر گھر میں کیاری یا لان کا ہونا لازم تھا۔ بعد میں بلڈنگ لاز تبدیل ہوتے گئے اور تعمیرات اور ترقی کے نام پر اسلام آباد کا حسن تباہ کر دیاگیا۔ وہ پھول‘ وہ تتلیاں‘ وہ خوبصورت پرندے اب نظر نہیں آتے۔ باہر جائو تو ٹریفک کا دھواں، شور اور آلودگی۔ بلند وبالا بے ڈھب کی عمارتیں شہر کے قدرتی حسن کو نگل گئی ہیں۔
اب اس شہر کا امن و امان بھی متاثر ہورہا ہے۔ پہلے چوری‘ ڈکیتی‘ اغوا یا قتل کا واقعہ سالوں میں ایک آدھ بار ہی سننے میں آتا تھا لیکن اب تو جیسے اس شہر میں وارداتیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔ خاص طور پر سٹریٹ کرائمز اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ اب شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔ خواتین رات کو مارکیٹ جانے یا واک کرنے سے گھبرانا شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے موبائل‘ پرس ہاتھ میں لیے بلاجھجک گاڑی سے باہر نکل جاتے تھے مگر اب سوچنا پڑتا ہے کہ ایساکرنا مناسب ہوگا یا نہیں‘ کب‘ کون کہاں سے آ جائے اور بندوق کے زور پر سب کچھ چھین کرلے جائے‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔ بینک سے نکلتے ہوئے یا اے ٹی ایم استعمال کرتے ہوئے بھی ایک انجانا سا خوف محسوس ہوتا ہے کہ نجانے کون کب کنپٹی پر بندوق رکھ کر سب کچھ چھین لے جائے۔پیسے اور چیزوں سے زیادہ انسانی جان قیمتی ہوتی ہے مگر جس طرح کا سلوک ان وارداتوں کے دوران کیا جاتا ہے وہ انسان کو عمر بھر کا صدمہ دے جاتا ہے۔ خوف اور تکلیف انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
رواں ہفتے ایسے ایسے سانحات اور واقعات اسلام آباد میں دیکھنے‘ سننے کو ملے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام آباد دوسرا کراچی بن رہا ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ سب سے پہلے ایک فوٹیج سامنے آئی جس میں ڈاکو سرعام ایک پولیس اہلکار کو نشانہ بنارہے تھے، اس کے اہلِ خانہ ڈاکوئوں کی منت سماجت کرتے رہے لیکن سفاک ڈاکوئوں نے نہ صرف ہیڈ کانسٹیبل محمد اشرف کو گولیاں مار دیں بلکہ ان کے بیٹے پر بھی گولیاں چلا دیں۔ یہ سب کچھ سیکٹر جی الیون میں تھانہ رمنا کی حدود میں پیش آیا۔ شہید کانسٹیبل محمد اشرف نے سٹریٹ کرائمز کو روکتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔ انہوں نے ڈاکوئوں کے سامنے مزاحمت کی تو ان کا بیٹا بھی مدد کو آ گیا لیکن وہ بھی ڈکیتی روکتا روکتا اپنی جان سے چلا گیا۔ ہیڈ کانسٹیبل اور ان کا بیٹا‘ دونوں اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں‘ ان کے اہلِ خانہ پر کیا بیت رہی ہوگی‘ یہ صرف وہی جان سکتے ہیں۔ یہ سارا واقعہ ان کے اہلِ خانہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جبکہ کیمرے میں قید ہو کر یہ منظر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری قوم دیکھ چکی ہے کہ کس قدر سفاکی سے ڈاکوئوں نے باپ‘ بیٹے کی جان لی۔ یہ دیکھ کر دل رنج سے بھرگیا۔ ہیڈ کانسٹیبل شہریوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کر گئے۔ ان کے اہلِ خانہ اکیلے اور بے آسرا ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کا یہ فرض بنتا ہے کہ شہید کے اہلِ خانہ کی کفالت کریں‘ ان کی مالی ضروریات کا خیال رکھیں۔ ان کے زخم تو کبھی نہیں بھرسکتے لیکن معاشی مدد سے تھوڑی ڈھارس ضرور بندھ جاتی ہے۔
اسی طرح اسلام آباد کے معروف علاقے جی نائن فور کے بازار میں ڈکیتی کی ایک واردات میں راہزانوں نے ایک افغان باشندے کو قتل کر دیا۔ یہ افسوسناک منظر بھی کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا۔ لوگوں نے بالائی منزل سے اس واقعے کو موبائل میں ریکارڈ کیا۔ کاش کوئی اس کی مدد کو آجاتا اور اس کی جان بچ جاتی۔ افغان باشندے نے مزاحمت کی اور ڈاکوئوں کو روکنے کی کوشش کی مگر جدید اسلحے سے لیس سفاک ڈاکوئوں نے اس کی جان لے لی۔ پیسہ اور مال آنی جانی شے ہیں، شہریوں کو مزاحمت سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ ہمارا ہے ہی کون جو ان درندوں سے بچائے؟ زیادہ تر شہری نہتے ہوتے ہیں اور وہ جدید اسلحے اور بندوق بردار ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؛ تاہم پھر بھی کچھ افراد ہمت کرکے مقابلہ کرتے ہیں اور کچھ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ جب بھی ایسی صورتحال دیکھیں تو وِڈیو بنانے سے پہلے ون فائیو پر پولیس کو اطلا ع دیں۔ پولیس تقریباً پانچ سے دس منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر افراد مظلوم کی مدد کے بجائے وِڈیو بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ اگر وہ پولیس کو بلاکر مظلوموں کی مدد کریں تو کتنا بہتر ہو۔
اسی طرح تیسرا واقعہ تھانہ گولڑہ کی حدود میں پیش آیا اور ایک پولیس اہلکار کے گھر میں ڈاکو گھس گئے اور اہلِ خانہ کو یرغمال بناکر گھر کا صفایاکرگئے۔ یہ ایک گروہ کی الگ الگ کارروائیاں ہیں یا مختلف گروہ ان وارداتوں میں ملوث ہیں‘ اس کا جواب کیپٹل پولیس ہی دے سکتی ہے۔ یکے بعد دیگرے ان وارداتوں کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ کیا ہم سڑکوں‘ بازاروں حتیٰ کہ اپنے گھروں کے اندر محفوظ ہیں‘ اس وقت ہر شہری کے دماغ میں یہی سوال گردش کر رہا ہے۔
چند روز قبل بارہ کہو کے پاس چار افراد نے ایک میاں بیوی کو قتل کر دیا تھا، ان کی ڈیڑھ سالہ بچی معجزانہ طور پر بچ گئی۔ یہ اتنا ہولناک واقعہ ہے کہ سوچ کر انسان لرزجاتا ہے۔ ایک معصوم بچی کے سامنے اس کے ماں باپ کو قتل کر دیا گیا۔اس جوڑے کو فائرنگ کرکے قتل کرنا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اہلِ خانہ کا خدشہ ہے کہ شاید وہ محلہ داروں کی لڑائی کی زد میں آگئے‘ ان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ وفاقی دارالحکومت‘ جہاں سب سے زیادہ سکیورٹی انتظامات ہوتے ہیں‘ جہاں اہم ترین حکومتی دفاتر اور غیر ملکی سفارتخانے موجود ہیں‘ وہاں اتنا اسلحہ کہاں سے آگیا ہے کہ لوگ سڑکوں پرکھلے عام اس کا استعمال کررہے ہیں؟ ان چوروں‘ ڈاکوئوں اور قاتلوں کو کون روکے گا؟ شہریوں کی جان کی حفاظت کون کرے گا؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت پولیس اپنی ذمہ داری سے زیادہ سیاسی ڈیوٹی کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو من مانی کرنے کا کھلا موقع مل گیا ہے۔ وہ جہاں چاہے‘ فائرنگ کریں‘ کسی کو بھی قتل کردیں‘ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ پولیس تو بس سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے میں مصروف ہے لہٰذا جرائم کا خاتمہ کسی کی ترجیح ہی نہیں۔
سکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ ان گروہوں‘ گینگز اور مافیا پر کریک ڈائون کریں، ان کو کڑی سے کڑی سزا دلائیں تاکہ شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس کم ہو۔ شاید ہی یہ شہر دوبارہ پہلے جیسا ہو جب یہاں ہریالی تھی‘ سکون تھا اور جرائم کا نام ونشان تک نہیں تھا۔ جتنا یہ شہر باقی رہ گیا ہے‘ اب اس کو ہی محفوظ کرلیں۔ اس شہر کو مزید تباہی سے بچائیں۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ آگے الیکشن آ رہے ہیں‘ لوگ انتخابی مہم چلائیں گے‘ ریلیاں ہوں گی‘ جلسے جلوس ہوں گے‘ سیاسی گہماگہمی ہو گی۔ اس میں مرد‘خواتین‘ بچے‘ بوڑھے سبھی حصہ لیتے ہیں۔ کیا انتظامیہ اور پولیس عوام کی حفاظت کے لیے تیار ہیں؟ اگر نہیں‘ تو ابھی سے تیاری شروع کر دیں۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ اپنے اصل فرائض کی طرف واپس آئیں۔ سیاسی کارکنان کی پکڑ دھکڑ سے شہر کا امن و امان ٹھیک نہیں ہوگا۔ اصل مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں