گیم آف تھرونز جاری ہے

اس وقت ملک میں گیم آف تھرونز زور و شور سے جاری ہے۔ اردو میں ہم اسے اقتدار کی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں اور اشرافیہ اس میں اپنا برابر حصہ ڈال رہی ہے۔ چند برس قبل ایک مشہور انگلش سیزن ''گیم آف تھرونز‘‘ آیا تھا جس میں رومن امپائر کے کچھ خاندانوں کو اقتدار کیلئے لڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس میں قتل و غارت گری‘ جنگیں‘ جادو ٹونے اور حسد‘ یہ سب کچھ تھا۔ اقتدار کی خاطر یہ خاندان سب تہس نہس کر دیتے ہیں۔ یہ خونی جنگ و جدل سے بھرپور سیزن تھا۔ مجھ جیسے کمزور دل ناظرین تو بس کچھ ہی اقساط کے بعد دوبارہ اس کو دیکھنے کی ہمت نہیں کرتے تھے‘ بہر حال یہ تو ایک سیزن یا ڈرامہ تھا لیکن ہمارے ملک میں تو اصلی والا گیمز آف تھرونز چل رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جنگوں کے کوئی اصول نہیں ہوتے شاید اسی لیے ہمارے سیاستدان ملک میں موجودہ انتخابی جنگ تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بس اپنے مفاد کیلئے ہی لڑ رہے ہیں۔ طاقت کے کھیل میں عوام کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے‘ وہ صرف ایک تماشائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو بہت پہلے روٹی‘ کپڑا اور مکان کی دوڑ میں لگا دیا گیا تھا اور وہ اب بھی اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ جس ملک کے حکمران خوشحال ہوں‘ وہاں کے عوام بدحال ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے عوام بدحال ہیں اور حکمران حد درجہ خوشحال۔ ویسے تو پچھلے کچھ برسوں سے سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے لیکن رواں سیزن صارفین کو پورے دن میں صرف چھ گھنٹے گیس دستیاب رہی‘ دوسری طرف کھپت میں کمی کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی سنگین صورتحال اختیار کر گئی اور عوام اسی تذبذب میں مبتلا رہے کہ وہ خود کو موسم کی سختی سے کیسے بچائیں۔ پولنگ ڈے سر پر آن پہنچا ہے لیکن وہ انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آرہی جو ماضی میں دکھائی دیتی تھی۔ اس بار ایک تو موسم کافی سرد تھا‘ دوسرا سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے عوام بس یہ سوچ کر گھروں میں بیٹھے ہیں کہ الیکشن والے دن اپنے ووٹ کے ذریعے ہی اپنا فیصلہ سنائیں گے لیکن اس کیلئے انتخابات کا شفاف ہونا ضروری ہے۔
ملکِ عزیز میں آزادیٔ اظہار سکڑ گئی ہے‘ اب یہاں کچھ بھی لکھنے یا بولنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔ اقتدار کی اس جنگ میں عوام کا کوئی مفاد نہیں لیکن سب سے زیادہ مشکلات انہیں ہی اٹھانا پڑتی ہیں۔ سب کا زور صرف عوام پر چلتا ہے‘ طاقتور کو تو کوئی سزا بھی نہیں دے سکتا۔ سب سزائیں اور قوانین صرف غریبوں کیلئے ہیں۔ طاقتور چاہے آئین توڑ دیں‘ قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کریں‘ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں‘ نہ ہی ان کی مراعات میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ ان کیلئے ہر صورت انعامات کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ دوسری طرف غریب اگر اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے روٹی بھی چوری کر لے تو اسے برسوں جیل کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ گزشتہ 76برسوں سے ملک ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے۔ ان 76برسوں میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا اور اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہو گیا۔ اس ساری مشق کی سب سے زیادہ قیمت عوام نے چکائی ہے۔ ملک میں جمہوریت نے ابھی اپنے پنجے گاڑنا شروع ہی کیے تھے کہ یہ پھر سے وہیں پہنچ گئی ہے جہاں سے اس نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ گوکہ اس حوالے سے غیرجمہوری کرداروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن خود سیاستدانوں کے طرزِ عمل نے بھی ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی جنگ نے ملک اور جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
چند روز قبل ملک کے ایک سابق وزیراعظم کو دو مختلف کیسز میں سزا سنائی جا چکی ہے۔ اس کی جماعت کے حامی و کارکنان کو بھی کئی مقدمات کا سامنا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی اس فیز سے گزر چکی ہیں۔ ہم انتقامی سیاست‘ پولیٹکل انجینئرنگ اور اقتدار کی رسی کشی کی وجہ سے دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کے روشن مستقبل کا راز وہاں رائج جمہوری نظام میں پوشیدہ ہے۔ ہمارے ملک میں عوام کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں جمہوری نظام کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ گوکہ گزشتہ تین اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے لیکن ان پندرہ سالوں میں بھی کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا اور اس دوران جو لوگ اقتدار میں آئے وہ مال بنا کر بیرونِ ملک چلتے بنے اور عوام ان کی راہ تکتے رہ گئے۔ ان حکمرانوں کی آل اولاد‘ گھر اور جائیداد سب ملک سے باہر ہے اور وہ پاکستان صرف پیسہ کمانے آتے ہیں۔ یہ حکمران عوام کے دیے ٹیکسوں اور بدعنوانی سے مسلسل خوشحال اور عوام مسلسل بدحال ہورہے ہیں۔ کئی ایک قومی اثاثے بک گئے‘ بیشتر گروی رکھ دیے گئے لیکن معیشت کی سمت درست نہ ہو سکی اور پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض حصول کیلئے اس کی تمام شرائط ماننا پڑیں جس ملک میں مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے۔ لیکن یہ مہنگائی صرف عوام کیلئے ہے‘ اشرافیہ اور حکمران اس سے مستثنیٰ ہیں۔
اب تو یہ صورتحال ہے کہ حکمران محلوں میں رہتے ہیں اور غریب سردی میں بھی کھلے آسمان تلے سوتے ہیں‘ اس کے باوجود ملک میں اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ پہلے بھی اس کھیل کی زد میں عوام ہی آتے رہے ہیں اور اب بھی وہی آرہے ہیں۔ 2007ء میں جب متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں‘ تب میں ایک طالبہ تھی‘ لیکن ان کی شہادت نے سخت مایوسی طاری کر دی تھی کیونکہ ملکی سیاست میں عورتوں کی تعداد پہلے ہی بہت کم تھی۔ انہیں دسمبر 2007ء میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں گولی کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد جائے وقوعہ پر ایک خودکش دھماکہ بھی ہوا تھا۔ افسوس کہ متعلقہ حکام میں سے کسی نے بھی ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور قاتل صاف بچ نکلے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت مفاہمت اور اقتدار کو ترجیح دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی اب وہ جماعت نہیں رہی جو ذوالفقار علی بھٹو یا بینظیر بھٹو کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی تخلیق اور اس کے مقاصد سے سبھی واقف ہیں‘ بیسیوں صدی کے اختتام تک اس کی سیاست پیپلز پارٹی کیساتھ محاذ آرائی پر مبنی رہی۔ دونوں جماعتیں باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں کہ پھر میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت نے پرویز مشرف نے اقتدار پر قابض ہوتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور میاں نواز شریف کو پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیا۔ بالآخر کچھ دوست ممالک کی مداخلت سے انہیں جیل سے تو رہائی مل گئی لیکن انہیں جلا وطن ہونا پڑا۔ یہ سب مشکلات اٹھانے کے باوجود (ن) لیگی قیادت نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج بھی اُسی ڈگر پر چل رہی ہے۔
میثاقِ معیشت کے منظر عام پر آنے سے یہ تاثر اُبھرا تھا کہ سیاسی جماعتیں اب جمہوریت کی پُرزور حامی بن چکی ہیں لیکن پھر پی ڈی ایم جس طرح اقتدار میں آئی اُس نے ساری صورتحال واضح کر دی۔ سیاستدانوں کو صرف اقتدار عزیز ہے اور ان کی اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی اور جمہوری استحکام نہیں آ جاتا تب تک ملکی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار رہے گی۔ گیم آف تھرونز بہت پُرخطر ہے‘ کانٹوں بھرے اقتدار کے لیے ملک اور اس کی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ فردِ واحد کے فیصلے بہت نقصان دہ ہوتے ہیں‘ اس لیے عوام کو اپنے ووٹ سے فیصلہ کرنے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں