میں کرکٹ کی کوئی ماہر تو نہیں لیکن جب ہماری کرکٹ ٹیم مسلسل شکست سے دوچار ہوتی ہے تو بطور شائق میرا بھی دل دُکھتا ہے۔ ہم پاکستانی عمومی طور پر کھیلوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہماری نئی نسل فٹ بال‘ ہاکی‘ بیڈ منٹن‘ ٹینس اور سکواش جیسے کھیلوں میں عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرے لیکن سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ اول تو ہمارے ملک میں پارکس اور کھیلوں کے میدانوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے‘ اور جو موجود ہیں وہاں بھی سپورٹس کمپلیکس کی سہولت موجود نہیں۔ جہاں سپورٹس کمپلیکس موجود ہیں وہاں دیگر ضروری سہولتوں کا فقدان ہے‘ غرضیکہ کھیلوں کا فروغ ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ پارکس اور سپورٹس کمپلیکس کی کمی کی وجہ سے پہلے بچے گلی محلوں میں کھیل لیتے تھے لیکن اب جبکہ انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کا استعمال عام ہو چکا ہے‘ گلی محلوں میں کھیلنے کا رواج بھی متروک ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں مجھے سائیکلنگ کا بہت شوق تھا‘ میرے والدین نے مجھے سائیکل لے کر دی ہوئی تھی۔ اسی طرح میرے پاس بیڈمنٹن کا سامان بھی موجود تھا۔ مجھے باسکٹ بال کھیلنے کا بھی بہت شوق تھا۔ ٹیبل ٹینس کی تو میں بہت اچھی پلیئر تھی۔ میری سہیلیاں کرکٹ اور باسکٹ بال کی بہت اچھی پلیئر تھیں‘ لیکن سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے وہ ان کھیلوں میں آگے نہ بڑھ سکیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے لیے کھیل کے میدان میں بہت ہی کم مواقع موجود ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی کھیلوں سے دوری کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی کھیلوں سے برتی جانے والی بے اعتنائی ہے۔ ملک میں گنتی کے پارکس اور سپورٹس کمپلیکس اس کی بڑی مثال ہیں۔ جن بڑے بڑے ہوٹلوں یا کلبوں نے اپنے سپورٹس کلب بنا رکھے ہیں وہاں عام لوگوں کی رسائی ہی نہیں‘ کیونکہ وہ ایسی جگہوں کی ممبرشپ افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
جب اولمپکس یا کھیلوں کا کوئی عالمی مقابلہ ہوتا ہے تو دیگر ملکوں کے کھلاڑی دھڑا دھڑ میڈلز جیتتے ہیں لیکن پاکستانی کھلاڑی زیادہ تر شکست سے دوچار ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ سہولتوں کا فقدان ہی ہے۔ اور اگر کوئی ایتھلیٹ کسی کھیل میں کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو نہ حکومتی اور نہ ہی عوامی سطح پر اُس کی کوئی حوصلہ افزائی یا پذیرائی ہوتی ہے۔ یہ رویہ اُس کی کامیابی کے تسلسل میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ ان ایتھلیٹس کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ساری قوم کا دھیان ایک ہی کھیل کی طرف ہے اور وہ ہے کرکٹ۔ بچے ہوں یا نوجوان‘ درمیانی عمر کے لوگ ہوں یا بزرگ‘ اکثریت کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہی ہے۔ اکثر خواتین بھی بہت شوق سے کرکٹ میچ دیکھتی ہیں۔ گلی محلوں میں بھی یہی ایک کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کی دنیا میں مثال دی جاتی تھی‘ پاکستانی فاسٹ باؤلرز کے آگے کوئی بیٹسمین ٹک نہیں پاتا تھا۔ اسی طرح ہماری بیٹنگ لائن بھی بہت مضبوط ہوتی تھی۔ پاکستان نے ورلڈ کپ سمیت متعدد عالمی اعزازات اپنے نام کیے۔ ہمارے کرکٹرز عالمی سیلبرٹیز تھے۔ان کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا تھا۔اگر حالیہ دنوں میں امریکہ میں جاری ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی اب تک کی کارکردگی کی بات کریں تو یہ انتہائی مایوس کن رہی ہے۔اگرچہ ہار اور جیت ہر کھیل کا حصہ ہے لیکن کھلاڑیوں میں جیت کی تڑپ تو نظر آنی چاہیے۔ امریکہ اور بھارت سے کھیلے جانے والے میچز میں قومی کرکٹ ٹیم میں جیت کا جنون دور دور تک نظر نہیں آیا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا یہی غیر ذمہ دارانہ رویہ کرکٹ شائقین کو پسند نہیں آ رہا۔
ہماری حکومت بھی سب سے زیادہ پیسہ کرکٹ پر خرچ کرتی ہے۔ مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد کرکٹ ٹیموں نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تو کرکٹ بورڈ نے بھاری رقم خرچ کرکے متحدہ عرب امارات میں میزبان کی حیثیت سے ہوم سیریز کرائیں۔ حتیٰ کہ پاکستان سپر لیگ کا ابتدائی سیزن بھی متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے۔ لیکن حکومت اور کرکٹ بورڈ کی کاوشوں سے نہ صرف بین الاقوامی ٹیمیں دوبارہ پاکستان میں کھیلنے آئیں بلکہ پاکستان سپر لیگ کے سیزن بھی پاکستان ہی میں منعقد ہونے لگے۔ کرکٹ سے پاکستانی عوام کی اتنی زیادہ وابستگی ہونے اور حکومت کے اتنا زیادہ پیسہ خرچ کرنے کے باوجود جب قومی کرکٹ ٹیم اچھا کھیل پیش نہیں کرتی تو شائقینِ کرکٹ کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
کرکٹ میں پیسہ اور شہرت بہت ہے۔ کرکٹرز ماڈلنگ بھی کرتے ہیں اور اشتہاروں میں کام بھی کرتے ہیں۔ بیرونِ ملک کاؤنٹیز کھیل کے بھی انہیں اچھا پیسہ مل جاتا ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ اچھا کھیل اب ہمارے کھلاڑیوں کی ترجیح نہیں رہا‘ دیگر چیزیں اُن کی ترجیح بن چکی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیرونی دوروں پر کھلاڑیوں کا زیادہ زور کھانوں‘ دعوتوں اور سیر و تفریح پر ہوتا ہے۔ وہ شاپنگ میں مگن ہوتے ہیں یا اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے منعقد کی گئی تقریبات میں۔ ان سب مصروفیات میں پریکٹس اور اچھا کھیل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ کھانوں‘ دعوتوں‘ سیرو تفریح اور شاپنگ میں کوئی قباحت نہیں‘ بلاشبہ کھلاڑیوں کی ذاتی زندگی بھی ہوتی ہے لیکن اس سب میں اُس مقصد میں ناکام لوٹنا جس کے لیے بورڈ نے اتنا پیسہ خرچ کرکے اُنہیں باہر بھیجا‘ جس کھیل سے عوام کی توقعات وابستہ ہوں‘ یہ درست نہیں ہے۔ایسی ٹیم کا کیا فائدہ جس کے کھلاڑی ماڈلنگ تو بہت اچھی کرتے ہوں‘کھیل کی وجہ سے اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریبات میں تو بہت مزے سے شرکت کرتے ہوں لیکن کھیل کے میدان میں کارکردگی صفر ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں ماڈلنگ اور اشتہاروں پر دھیان دینے والے کھلاڑیوں کو اسی پروفیشن میں اپنا کیریئربنانا چاہیے اور کرکٹ بورڈ کو ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل نئی ٹیم تشکیل دینی چاہیے جس کی اولین ترجیح اچھا کھیل پیش کرنا ہو۔ کوئی شک نہیں کہ موجودہ ٹیم میں ہر کھلاڑی اپنی ذات میں ایک قد آور شخصیت ہے لیکن بدقسمتی سے ٹیم میں اتحاد کی کمی ہے۔ جب تک کھلاڑی ایک متحد ٹیم کی مانند نہیں کھلیں گے‘ جیت ہمارا مقدر نہیں بن سکتی۔
اس ضمن میں ایک اور بات جو بہت ضروری ہے‘ وہ یہ کہ کرکٹ بورڈ کو سابق کھلاڑی ہی بہتر طور پر چلا سکتے ہیں‘ اس ادارے کو کوئی سیاستدان یا بزنس مین اچھے طریقے سے نہیں چلا سکتا۔ میرے خیال میں کرکٹ بورڈ بلکہ ہر سپورٹس بورڈ کی چیئرمینی صرف کھلاڑیوں کے پاس رہنی چاہیے۔ اسی طرح کارکردگی کی بنا پر ہر سال ٹیم میں نئے کھلاڑی شامل کیے جانے چاہئیں۔ جب ملک میں میرٹ کی پامالی عام ہو‘ ہر شعبہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔میرٹ پر عملدرآمد سے بھی ٹیم کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ سفارش کا کلچر ختم کرنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں‘ تقریباً 25کروڑ آبادی والے ملک میں سے 11بہترین کھلاڑی میدان میں اتارنا کوئی ناممکن بات نہیں۔ امریکہ اور بھارت سے شکست کے بعد پاکستانی شائقینِ کرکٹ پہلے مرحلے میں ہی جوڑ توڑ میں لگ گئے ہیں کہ فلاں ٹیم فلاں سے ہار جائے تو پاکستانی ٹیم اگلے مرحلے میں جا سکتی ہے‘ اگر مگر سے باہر نکل کر ہمارے کھلاڑیوں کو بھی اچھا کھیل پیش کرنا پڑے گا۔المیہ یہ ہے کہ اس ہزیمت اور شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ہماری کرکٹ ٹیم جس زبوں حالی کا شکار ہے مجھے کوئی خاص امید نظر نہیں آتی کہ حالات جلد اچھے ہوجائیں گے۔ جب تک بیٹنگ لائن مضبوط نہیں ہوگی پاکستانی کرکٹ ٹیم ایسے ہی مسائل کا شکار رہے گی۔