اولمپکس 2024ء کا گولڈ میڈل پاکستان آچکا اور اسے میاں چنوں کا ارشد ندیم لایا ہے۔ میں نے چند سال قبل جب ارشد ندیم کا انٹرویو کیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ نوجوان چند ہی سال میں اپنی محنت اور کوشش کے بل بوتے پر کامن ویلتھ‘ اولمپکس اور دیگر عالمی سپورٹس مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کرے گا اور سبز ہلالی پرچم بلند کرے گا‘ اور ایسا ہی ہوا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود ارشد ندیم کامیابی کے مدارج طے کرتا رہا۔ تاہم یہاں تک کا سفر ارشد کے لیے کبھی بھی آسان نہیں تھا۔
ارشد ندیم کے حریف نیرج چوپڑا کو جہاں عالمی معیار کی سہولتیں میسر ہیں وہاں ارشد ندیم کے پاس کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ بھارت نے اپنے ایتھلیٹ نیرج چوپڑا کے لیے ڈیڑھ سو سے زائد جیولن خریدے جبکہ مارچ میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم اپنے اکلوتے جیولن خراب ہونے کی وجہ سے پریشان تھا۔ عالمی معیار کے ایک جیولن کی قیمت نو سو ڈالر کے قریب ہے۔ ارشد بہت دھیمے مزاج کے وضعدار آدمی ہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں یہ بھی کہا کہ میں نے کبھی کسی سے پیسوں کا تقاضا نہیں کیا‘ لیکن اگر کوئی کچھ دینا چاہتا ہے وہ عالمی معیار کے جیولن خرید کر دے سکتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ ایک طرف ایک ایسا شخص‘ جو اولمپک مقابلوں سے محض دو ماہ قبل اپنے اکلوتے جیولن کی خراب حالت کو لے کر پریشان تھا‘ اس کا مقابلہ ایک ایسے حریف سے تھا جس کو اس کی حکومت ڈیڑھ سو سے زائد جیولن خرید کر دے چکی تھی۔ اب جب ارشد ندیم اپنی محنت اور لگن سے میڈل جیت لایا ہے تو ہر کوئی اس کی جیت کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ اس جیت کا تمام سہرا اور تمام کریڈٹ صرف ارشد‘ اس کی فیملی اور اس کے کوچز کو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان سپانسرز کو‘ جنہوں نے ارشد کو اولمپکس میں شرکت کرنے کے لیے مدد فراہم کی۔ ارشد ندیم میاں چنوں کے ایک سکول کے میدان میں جیولن تھرو کی پریکٹس کرتا تھا‘ جہاں اس کو کوئی بھی سہولت میسر نہ تھی۔ ایک کچے گھر سے‘ ایک کچے میدان سے پریکٹس کا سفر شروع کرنے والا ارشد آج پیرس اولمپکس میں فتح کا جھنڈا گاڑ کر وطن واپس آیا ہے تو ہر کوئی اس کی جیت کا کریڈٹ لینے کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ جب ارشد جیولن نہ ہونے کا گلہ کر رہا تھا‘ تب یہ مبارکباد دینے والے اور انعامات کا اعلانات کرنے والے کہاں تھے؟
اگر اولمپکس کی بات کی جائے تو پاکستان نے اپنا آخری طلائی تمغہ 1984ء میں ہاکی میں جیتا تھا‘ اس کے بعد اب 2024ء میں جیولن تھرو میں طلائی تمغہ پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ چوبیس‘ پچیس کروڑ کی آبادی والا ملک اور ایک تمغہ‘ اس پر خوشی بھی ہے اور افسوس بھی۔ خوشی اس لیے کہ ایک پاکستانی 2012ء سے ذاتی طور پر محنت کرنے میں لگا ہوا تھا اور آخرکار اس کو اپنی محنت کا پھل ملا ہے۔ افسوس اس بات کا کروڑوں کی آبادی والے ملک سے صرف سات کھلاڑیوں نے اولمپک مقابلوں میں شرکت کی اور صرف ایک میڈل آیا‘ یہ ہم سب کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے کہ ہم ہر شعبے میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ ایسا کیا ہوا کہ اب مائیں کھلاڑی پیدا نہیں کرتیں۔ یقینا مائیں اب بھی کھلاڑی پیدا کرتی ہیں لیکن ایسا نظام موجود نہیں جو ان بچوں کو سامنے لائے‘ ان کے ہنر کو سنوارے۔ سکول سکڑ کر کمروں پر محیط ہو گئے ہیں‘ بچوں کے پاس کھیلنے کے میدان ہی نہیں رہے۔ جو کوئی پبلک پارک ہوتا ہے‘ وہاں اکثر بااثر لوگ قبضہ کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بچوں کو جب کھیل کا میدان ہی میسر نہیں آئے گا تو وہ کیا کھیل کھیلیں گے؟ پہلے وقتوں میں بچے گلی محلوں میں کرکٹ کھیل لیا کرتے تھے‘ ندی نالوں میں تیراکی کر لیتے تھے۔ فٹ بال‘ ہاکی‘ بیڈمنٹن کے علاوہ چھپن چھپائی جیسے کھیل بھی کھیلتے تھے مگر آج کی نسل تو بس ٹیب‘ فون اور لیپ ٹاپ پر گیمز میں گم ہے‘ یا رِیلز اور میمز بنا کر خوش ہو رہی ہے۔ اگر میمز اور ٹک ٹاک کی کیٹیگری اولمپکس میں شامل ہوتی تو یقینا پاکستانی طلائی تمغہ لے آتے لیکن ایسی کوئی کیٹیگری نہیں ہے۔
ہمارا ملک ذیابیطس‘ فالج‘ دل کے امراض اور کینسر جیسی موذی بیماریوں میں سرفہرست شمار ہوتا ہے۔ ہر سال ان بیماریوں کی وجہ سے لاکھوں افراد موت کہ منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن کوئی میڈیکل ایمرجنسی نافذ نہیں کی جا رہی۔ جب کھیلوں کا رواج دم توڑ جائے اور ہر بات چائے سموسے سے شروع ہوکر بریانی‘ نہاری پر ختم ہو تو قوم کا قومی کھیل کھانا تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی سپورٹس نہیں۔ کوئی قومی وسائل کھانے میں لگا ہے‘ کوئی عوام کا حق چھین رہا ہے۔ جب ہر میدان کو کاٹ کر پلاٹوں میں تقسیم کر دیا جائے تو کھلاڑی کیسے جنم لیں گے؟ ویسے بھی پاکستانی اشرافیہ کی مرکزِ نگاہ کرکٹ ہے اور اسی لیے کرکٹ کا کھیل بھی تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی تھا لیکن کرکٹ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہاکی ٹیم کی کارکردگی بھی صفر کرالی۔ ہمارے کرکٹرز ماڈلنگ‘ پریمیئر لیگز اور کائونٹی میں بالکل ٹھیک ہوتے ہیں مگر جیسے ہی کوئی ورلڈکپ آئے‘ ان کی کارکردگی صفر ہو جاتی ہے۔ کرکٹ کے بخار نے دیگر کھیلوں کو پاکستان میں ختم کر دیا ہے۔ ہر بچے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے کھیل کو منتخب کرے۔ اگر موقع ملے گا تو ہی بچے کچھ کر سکیں گے۔ ملک کے معاشی حالات سب کے سامنے ہیں‘ ایسے میں سپورٹس سٹی کے اعلانات دل بہلانے کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے نام پر پہلے بھی بہت بار عوام کو بیوقوف بنایا جا چکا۔ ملک میں جہاں جہاں بھی اچھے جمنازیم موجود ہیں‘ جہاں اچھے سوئمنگ پول ہیں یا اچھے میدان ہیں‘ ان تک عوام کے بچوں کو دسترس دیں۔ پاکستان میں قائم ایلیٹ کلبوں اور اداروں میں جم‘ سوئمنگ پول اور میدان موجود ہیں‘ وہاں عوام کے بچوں کو رسائی دی جائے۔ عمومی طور پر ان کلبوں کی ممبرشپ عوام کی دسترس سے باہر ہوتی ہے‘ لیکن سپورٹس کی جگہوں پر سب کی انٹری مفت ہونی چاہیے۔ اشرافیہ کے بچوں کا مستقبل تو لندن اور نیویارک میں محفوظ ہے۔ ان کی تو شاید ان سے بھی اچھی جگہوں تک رسائی ہو‘ مگر عوام کے بچے دھول مٹی میں کھیل کر ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ صرف کرکٹ نہیں‘ دیگر کھیلوں کو بھی فروغ دیں جن میں ٹینس‘ بیڈمنٹن‘ سکواش‘ باسکٹ بال‘ فٹ بال‘ پہلوانی‘ ہاکی‘ نیزہ بازی‘ تیر اندازی‘ تیراکی‘ گالف‘ باکسنگ‘ جوڈو اور نشانہ بازی وغیرہ شامل ہیں۔
امرا کے میدانوں اور کلبوں کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے جائیں تو شاید مزید کئی ارشد سامنے آ سکیں۔ کیا کبھی اسلام آباد میں واقع جدید پولز‘ نئے جمز‘ رائڈنگ کلبز‘ کرکٹ کلبز‘ گالف کلبز اور گنز کلب نے میاں چنوں کے کسی بچے کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں؟ وہ تو اسلام آباد کی جویریہ صدیق کو بھی داخل نہ ہونے دیں‘ جب تک لاکھوں روپے کی ممبرشپ نہ خریدی جائے۔ ہمارے ملک میں مساوات نہیں ہے‘ پیسے کی بنیاد پر تفریق رکھی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بچے بھی کھلاڑی بننے سے محروم رہ جاتے ہیں جن میں ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جب تک تمام بچوں کو مساوی مواقع نہیں ملیں گے‘ وہ کامیابی کے مدارج طے نہیں کر سکیں گے۔ ہمارے ہاں ایک عمومی رویہ ہے کہ اگر کچھ بننا ہے تو ڈاکٹر‘ انجینئر یا سیاستدان بن جائو لیکن کھیلوں کی طرف جانے سے بچوں کو منع کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ بھی ایک کیریئر ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی نئی نسل پر انویسٹ کرتے ہیں تاکہ یہ بچے ملک کا نام کھیلوں کے میدانوں میں روشن کر سکیں۔ ارشد کو بہت مبارک ہو کہ وہ یہاں تک پہنچ گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ارشد سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پاتے۔
حالیہ جیت صرف ارشد ندیم کی جیت ہے‘ دیگر لوگ اس جیت کو اپنی سیاست کی نذر نہ کریں۔ اس کا تنہا سفر حکومتوں کی کھیلوں کی طرف عدم توجہی کا مظہر ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ چالیس سال بعد طلائی تمغہ پاکستان آیا ہے‘ اگر حکومت کا یہی رویہ رہا تو اگلا تمغہ کتنی دہائیوں کے بعد آئے گا؟ اس سوال کا جواب اور کسی کے پاس نہیں‘ صرف حکومت ہی اس کا جواب دے سکتی ہے۔