2020ء میں روٹین کی زندگی جاری تھی کہ فروری‘ مارچ میں ایک دن اچانک خبر آئی کہ کووڈ 19 وائرس کو عالمی وبا قرار دے دیا گیا ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا لاک ڈائون میں چلی گئی‘ دکانیں مارکیٹیں بند ہو گئیں‘ کاروبارِ زندگی معطل ہو گیا‘ حتیٰ کہ تعلیمی سرگرمیاں بھی آن لائن کر دی گئیں۔ ہم چونکہ برڈ فلو‘ سوائن فلو اور دیگر عالمی وبائوں سے محفوظ رہے تھے لہٰذا اسی غلط فہمی کا شکار رہے کہ کووڈ ہمارے ملک میں نہیں آئے گا۔ مگر یہ وبا آئی اور ہزاروں جانیں نگل گئی۔ البتہ پاکستان کے طبی عملے اور حکومت نے محدود ذرائع کے باوجود اس بیماری کا سامنا کیا اور تمام شہریوں کو مفت ویکسین مہیا کی۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی کووِڈ سے بہت تلخ یادیں جڑی ہیں۔ قارئین اس بات کے گواہ ہیں کہ کسی نے یہ بیماری جھیلی‘ کسی نے تنہائی کاٹی‘ کسی نے محتاجی دیکھی‘ کسی نے اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم دیکھا۔ یہ بیماری ہولناکی اور تباہی کی ایک داستان رقم گئی۔ تاہم اس بیماری کی وبا ختم ہونے کے باوجود اب بھی لوگ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ایک ہفتے سے زائد رہنے والا بخار پھیپھڑوں اور قوتِ مدافعت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اس کے بعد انسان بہت کمزور ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو بہت شدید سائیڈ ایفکٹس ہوتے ہیں اور کچھ خوش قسمت لوگ اس سے بچ بھی جاتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر کووِڈ میں مبتلا ہونے والے افراد اس چیز کی شکایت عام کرتے ہیں کہ وہ جلدی تھک جاتے ہیں‘ ان کا سانس پھول جاتا ہے اور وہ کمزوری محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح سونگھنے کی حس بھی لگ بھگ ختم ہو جاتی ہے۔ ابھی تو ہم سب کووِڈ کی تباہ کاریوں ہی سے پوری طرح نہیں نکل پائے کہ اب ایک نئی آفت ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ منکی پاکس نامی بیماری‘ جسے اب ایم پاکس کا نام دیا گیا ہے‘ عالمی ادارۂ صحت نے اس کے بڑھتے کیسز کی پیش ِنظر گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔
افریقہ سے شروع ہونے والی اور وہاں پھیلنے والی اس وبا کے کیسز اب عالمی سطح پر بھی پھیل رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس سال افریقہ میں ایم پاکس سے تیرہ ممالک میں 517 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ لگ بھگ 17ہزار کیسز کنفرم بھی ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ اموات کانگو میں ہوئی ہیں۔ چونکہ یہ ایک متعدی مرض ہے لہٰذا اس کے پھیلنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس بار جو ویریئنٹ پھیل رہا ہے اس کا زیادہ شکار وہ مرد ہو رہے ہیں جو ہم جنس پرستی میں مبتلا ہیں۔ ایک سے زیادہ پارٹنر اور مخلوط جگہوں سے یہ وائرس زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بھی لوگ اس کے خطرے سے دوچار ہیں جو جانوروں کے قریب رہتے ہیں۔ بندر‘ گلہری اور چوہے جیسے کُترنے والے جانوروں سے یہ بیماری انسانوں کو بھی لگ سکتی ہے۔ رواں سال دنیا بھر میں ایم پاکس کے کیسز کی تعداد 70 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ امریکہ میں بھی اس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق امریکہ‘ میکسیکو‘ برازیل‘ سپین‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ اور پرتگال سمیت یورپ کے کئی ممالک میں اس کے کیسز سامنے آئے ہیں اور اس بیماری کا شکار ہونے والے اکثر افراد ایڈز میں بھی مبتلا تھے۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ وائرس متاثرہ مریض میں دو سے تین ہفتے تک پوشیدہ رہ سکتا ہے اور اس کے بعد اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ صحت مند افراد میں یہ وائرس متاثرہ شخص کے لباس‘ اشیا اور جسم کو چھونے سے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ جس طرح کووڈ کی وبا نے پہلے ایک شخص کو ٹارگٹ کیا تھا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئی تھی‘ اسی طرح یہ وبا کووڈ سے بھی زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیل سکتی ہے۔
اگر ہم ایم پاکس کا جائزہ لیں تو 1958ء میں پہلی بار یہ مرض دریافت ہوا کہ بندروں میں پاکس یعنی چیچک اور خسرہ جیسی بیماری پھیل رہی تھی۔ بعد ازاں یہ بیماری بندروں سے انسانوں میں منتقل ہو گئی اور اسی وجہ سے اسے منکی پاکس کا نام دیا گیا۔ 1970ء میں کانگو میں پہلا کیس رپورٹ ہوا۔ اب بھی جو ویریئنٹ پھیلنا شروع ہوا ہے‘ اس کا پہلا کیس کانگو ہی میں رپورٹ ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ بیماری ہم جنس پرستوں میں پھیلی مگر اب عام افراد بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی علامات میں سردی لگنا‘ جسم پر کپکپی طاری ہونا‘ متلی‘ کھجلی‘ جوڑوں میں درد‘ پورے جسم پر چھالے بن جانا نمایاں ہیں۔ اب جو نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں ان میں حلق اور جنسی اعضا پر چھالے جیسی علامات بھی شامل ہیں۔ اگر یہ وبا کنٹرول میں نہ آئی تو بہت جلد عالمگیر وبا بن جائے گی اور اس کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہو گی کیونکہ یہ متعدی بیماری سانس کے ذریعے بھی پھیلتی ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں‘ جن میں کلیڈ وَن اور کلیڈ ٹو شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مرض عام لوگوں میں کیسے پھیل رہا ہے‘ ایک تو اس کے مریض وہ افراد ہیں جو جانوروں‘ بندروں‘ چوہوں اور گلہریوں وغیرہ کے قریب رہتے ہیں۔ دوسرے وہ افراد ہیں جن کو اس مرض کے متاثرہ افراد سے یہ بیماری لگی ہے۔ وائرس سے آلود جگہ پر جانے سے یا متاثرہ شخص کی استعمال شدہ چیزوں جیسے تولیہ‘ تکیہ‘ بیڈ شیٹ اور بستر کو چھونے سے بھی یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس ناک اور منہ کے ذریعے صحت مند انسان میں داخل ہو سکتا ہے۔ اگر ایم پاکس کا مریض کسی ہوائی اڈے پر ہے‘ یا کسی پارک میں ہے یا شاپنگ مال میں ہے تو کوئی بھی شخص سانس کے ذریعے سے اس بیماری کی زد میں آ سکتا ہے۔ اب چونکہ یہ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے اور پاکستان میں بھی اس کے متعدد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں تو اس وقت ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ابھی تک اس کا کوئی مخصوص علاج دریافت نہیں ہو سکا مگر بروقت تشخیص اور اینٹی وائرل ادویات سے زیادہ تر مریض چند ہفتوں میں صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ البتہ متاثرہ افراد کو خصوصی احتیاط اور سخت آئسولیشن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وائرس کے پھیلائو کو روکا جا سکے۔ پاکستان میں رپورٹ ہونے والے تمام کیسوں میں مریض بیرونِ ملک‘ بالخصوص خلیجی ممالک سے آئے تھے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومتی اور انفرادی سطح پر بھی باہر سے آنے والے افراد کی مکمل سکریننگ کی جائے۔ اگر کسی شخص میں اس وائرس کی تشخیص ہو‘ یا اس کی علامات نظر آئیں تو فوری طور پر اس کو آئسولیشن میں منتقل کر دیں اور اس سے مناسب فاصلہ رکھیں۔ اپنے ہاتھ اور منہ کو بار بار دھوئیں۔ سینی ٹائزر کا استعمال کریں۔ بھیڑ والی جگہوں پر ماسک اور دستانے پہنیں۔ بخار سمیت کسی بھی بیماری کو معمولی نہ سمجھیں اور اپنا طبی معائنہ کرائیں۔ اگر متاثرہ شخص کی طبیعت ٹھیک ہو تو اسے گھر پر بھی قرنطینہ میں رکھا جا سکتا ہے مگر طبیعت میں بہتری نہ آئے تو ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں رکھ کر اس کا علاج کرایا جائے۔ بہت سے لوگ تین ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ جیسے بتایا کہ اس بیماری کا کوئی مخصوص علاج نہیں لیکن ڈاکٹرز اس کو اینٹی وائرل طریقہ کار اور چیچک اور سمال پاکس کی ویکسین سے ٹریٹ کرتے ہیں۔ تاہم بیماری بگڑنے کی صورت میں انسان کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کے دوران نکلنے والے دانے اور چھالے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں اور انسان ان پر خارش کرنا چاہتا ہے۔ کچھ دن تک جسم پر دانے رہنے کے بعد وہ خود ہی جھڑ جاتے ہیں‘ تاہم اس کے لیے علاج کرانا ضروری ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت کو دوبارہ ہر سرکاری‘ نیم سرکاری اور پبلک جگہوں پر ماسک کا استعمال لازم قرار دے دینا چاہیے۔ خاص طور پر نادرا اور پاسپورٹ آفسز‘ جہاں لوگ اپنا بائیو میٹرک کراتے ہیں‘ ایسے تمام دفاتر میں ہینڈ سینی ٹائزر لازمی ہونا چاہیے اور لوگوں پر ماسک پہننے کی پابندی ہونی چاہیے۔ اپنے طور پر بھی ہم سب کو بھرپور احتیاط کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہم اس مرض کے پھیلائو کو روک سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس مرض کے بارے میں جتنی آگاہی پھیلا سکتے ہیں‘ پھیلائیں تاکہ یہ وائرس ہمارے ملک میں وبا کی صورت اختیار نہ کر سکے۔