گزشتہ کچھ برسوں سے‘ ہر سال مون سون کی بارشوں سے ملک کے کسی نہ کسی حصے میں سیلاب ضرور آتا ہے۔ کچھ دن اس پر شور مچتا ہے‘ اس کے بعد سب بھول جاتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ مون سون کی بارشوں میں نقصانات سے بچنے کیلئے کوئی پیشگی انتظامات نہیں کرتی اور جب ہر طرف بارشی پانی سے تباہی پھیل جاتی ہے تو لانگ بوٹ اور چشمے پہن کر‘ چھتری ہاتھ میں لے کر ہر کوئی فوٹو سیشن کیلئے نکل پڑتا ہے کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں عوام کے ساتھ ہیں‘ ان کے دکھ میں شریک ہیں۔ پھر جب بارشیں تھم جاتی ہیں تو یہ دورے بھی رک جاتے ہیں‘ اور کسی بھی سطح پر اگلے برس سیلابی صورتحال سے بچنے کیلئے کوئی پیشگی منصوبہ بندی اور تیاری نظر نہیں آتی۔کیا ہم اس لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہیں؟ یقینا یہ بھی ایک اہم پہلو ہے لیکن ہم بار بار محض قدرت کی ناراضی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بد انتظامیوں کی وجہ سے سیلاب کی زد میں آتے ہیں۔
ترقی یافتہ‘ یہاں تک کہ ترقی پذیر ممالک میں ارضیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے قائم ہیں جو عوام کو بروقت ماحولیاتی تبدیلیوں‘ زلزلوں‘بارشوں اور سیلابوں سے بروقت آگاہ کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ادارے صرف نباتات اور جانوروں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔کچھ ادارے صرف نیشنل پارکس کی حفاظت کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ کبھی آپ نے سنا کہ سوئٹزرلینڈ میں مسافروں کی بس کھائی میں گر گئی؟ یا پکنک منانے آئے سیاح پانی میں ڈوب گئے یا سینکڑوں افراد لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں تودے کے نیچے دب گئے؟وہاں ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو ضائع نہیں کیا جاتا۔ سیاح‘ جو دنیا بھر سے ہزاروں ڈالر خرچ کرکے وہاں آتے ہیں‘ ان کو مکمل سہولتیں دی جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں تو مارگلہ کی پہاڑیوں پر چلے جائیں تو موبائل اور انٹرنیٹ کے سگنل چلے جاتے ہیں۔ آگے شمالی علاقہ جات میں کیا صورتحال ہوگی‘ اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ٹھیک ہے سوئٹزر لینڈ ایک امیر ملک ہے لیکن ہمیں بھی اپنے اداروں کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے۔ اس ملک کے عوام جو ٹیکس دیتے ہیں‘ بدلے میں انہیں کچھ سہولتیں تو ملنی چاہئیں۔ لیکن ٹیکس دہندگان کا پیسہ اُن کی خدمت کے بجائے کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ جب بھی مالیاتی بدعنوانی کا کوئی سکینڈل سامنے آتا ہے تو اربوں سے کم کرپشن نہیں ہوتی۔شاید اسی لیے قدرتی آفات کی صورت میں بیرونی ممالک اب ہماری مدد کو نہیں آتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی امداد عوامی فلاح کیلئے استعمال ہونے کے بجائے کرپشن کی نذر ہو جائے گی۔
آج ہمارے ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں سنگین صورت اختیار کر چکی ہیں تو اس کے ذمہ دار حکمران اور انتظامیہ ہے۔ جو کچھ شمالی علاقوں میں ہوا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں درخت اور جنگلات بے دریغ کاٹے جارہے ہیں۔ پہاڑ کے پہاڑ سٹون کرشنگ کے نام پر غائب کیے جا رہے ہیں۔ دریاؤں کے اندر ہوٹلز اور مکانات بنا لیے گئے ہیں۔ یہ سب انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور نہ اب اس طرف کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ سیاحتی علاقوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔ سیاحوں کیلئے ایمرجنسی کی صورت میں کوئی ہیلپ لائن نہیں۔ شمالی علاقوں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں‘ وہ سیاحوں کا ہر ممکن خیال رکھتے ہیں لیکن اصل مسئلہ وہاں بنیادی سہولتوں کی کمی کا ہے۔ ہمارے ملک کے شمال میں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں لیکن ہم ان جگہوں کو آج تک ویسے کیش نہیں کراسکے جیسے دنیا کے دیگر ممالک اپنے سیاحتی مقامات کوکراتے ہیں۔ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی‘ ایمرجنسی سروسز کی فراہمی‘ انفراسٹرکچر کی بہتری بہت ضروری ہے۔
گلگت بلتستان اور سوات میں سیاحوں کی اموات کے بعد اکثر لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ سیاح اس خراب موسم میں پہاڑی علاقوں کی طرف جاتے ہی کیوں ہیں؟ گرمی سے ستائے ہوئے عوام اور کہاں جائیں؟ ہر کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ یورپی ممالک کا رخ کرے۔ملک کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سارا سال پیسے جمع کرکے بمشکل ان علاقوں کی سیاحت کیلئے جاپاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر انہیں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں آتیں۔ گرمی کی چھٹیاں اسی لیے دی جاتی ہیں کہ میدانی علاقوں کے لوگ گرمی کی شدت سے محفوظ رہیں۔ گرمی کے ستائے عوام ان چھٹیوں میں پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں ناکافی سہولتوں اور بدانتظامی کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر متعلقہ محکمے پہلے ہی الرٹ جاری کردیں اور کسی ممکنہ حادثے سے نمٹنے کیلئے پیشگی انتظامات مکمل رکھیں تو اتنا زیادہ نقصان نہ ہو۔میں نے پہاڑی علاقوں میں کوئی ایسی خصوصی فورس نہیں دیکھی جو کسی حادثے کی صورت میں سیاحوں کے ریسکیو کیلئے موجود ہو‘ عموماً مقامی لوگ ہی سیاحوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کے اداروں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں اکثر لوگوں کو تیراکی نہیں آتی‘ اس لیے جب وہ سیاحتی مقامات پر دریاؤں یا نالوں میں نہانے کیلئے جاتے ہیں تو حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہر تفریحی مقام پر لائف گارڈز موجود ہونے چاہئیں۔
حالیہ بارشوں سے ملک کے شمالی علاقوں میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں کواور بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کو قدرتی آفات قرار دے کر متعلقہ حکام خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے۔ اربن فلڈنگ کی ذمہ دار قدرت نہیں بلکہ حکومت اور انتظامیہ ہے۔ ہر شہر میں نئے نئے رہائشی منصوبے بن رہے ہیں لیکن ان منصوبوں میں نکاسی ٔآب کے نظام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ ان رہائشوں منصوبوں میں آنے والی قدرتی آبی گزرگاہوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے اور وہاں پلاٹ بنا کر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ راولپنڈی کے نالہ لئی کے دونوں طرف تجاوزات کی بھرمار ہے اور ہر سال مون سون کی بارشوں میں نالے کے دونوں اطراف کی آبادی اربن فلڈنگ کا سامنا کرتی ہے۔ پیچھے پہاڑوں پر ڈیم بن جاتے تو بھی ایسا نا ہوتا۔ڈیم کیا بنتے یہاں تو پہلے سے موجود نالے بھی تنگ کردیے گئے ہیں‘ سیوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ اس وجہ سے پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہوجاتا ہے۔
جب تک ملک میں نئے رہائشی منصوبوں میں نکاسی ٔآب کے بہتر نظام کو ترجیح نہیں دی جائے گی‘ نئے ڈیم نہیں بنیں گے‘ عوام کو اسی صورتحال کا سامنا رہے گا۔ اسلام آباد میں تعمیر ہونے والے نئے ایونیو کی وجہ سے اب سفارتی انکلیو میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ بارش میں اس ایونیو کی سڑکیں بھی بیٹھ رہی ہیں اور انڈرپاس میں پانی بھرجاتا ہے۔ کھڑے پانی میں ڈینگی مچھر افزائش پا رہے ہیں۔ جڑواں شہروں میں جہاں جہاں نالوں کی جگہ تنگ کرکے تعمیرات کی گئی ہیں‘وہاں مون سون میں ہر سال اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کیلئے بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔عوام کو متبادل جگہ دی جانی چاہیے۔اسی طرح تمام آبی گزرگاہوں کا سروے کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ نکاسیِ آب کے بوسیدہ نظام کی تعمیرِ نو کرنی ہو گی۔ صرف باتیں نہیں‘ عملی طور پر کام کرنا ہو گا۔ ہر سال جو اربوں روپے بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں انہیں اگر ٹاؤن پلاننگ‘ شہری دفاع‘ صحت و صفائی اور سیاحت کے شعبوں پر خرچ کیا جائے تو ملک کا نقشہ بدل جائے گا۔ لیکن افسوس کہ مون سون ختم ہوتے ہی حکومت ان مسائل کو بھول جائے گی ‘ صرف انہیں یاد رہیں گے جن کے پیارے سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔