'عمران خان پراجیکٹ‘ اپنے اختتام کو پہنچا۔اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے کہ تحریکِ انصاف نے باقی رہنا ہے یا نہیں۔تحریکِ انصاف سے میری مراد وہ سیاسی جماعت ہے‘جس کی شناخت عمران خان ہیں۔
سیاست کے باب میں مستقل قریب کے حوالے سے تو کوئی پیش گوئی کی جا سکتی ہے‘مستقبل بعید کے پہلو سے نہیں۔یہاں عروج و زوال ہم قدم ہو کر چلتے ہیں۔ہر عروج زوال آشنا ہے اور ہر زوال‘کسی وقت عروج میں بدل سکتا ہے۔بنو امیہ کا عہد جن حالات میں تمام ہوا‘ان سے واضح تھا کہ اس سرزمین پر اب اموی دوبارہ اقتدار حاصل نہیں کر پائیں گے۔یہ لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ جان بچا کر بھاگنے والا‘اس خاندان کا ایک سپوت‘اندلس میں ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھ دے گا۔
آج یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان صاحب کے لیے حالات سازگار نہیں ہو ں گے۔کم ازکم تین سال تو نہیں۔اس کے بعد کیا ہوگا‘یہ کوئی نہیں جانتا۔یہ بات البتہ واضح ہے کہ 'عمران خان پراجیکٹ‘ تمام ہوا۔جن کو اس اصطلاح سے اتفاق نہیں‘وہ اس حقیقت کی ایک دوسری توجیہ کر سکتے ہیں۔وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی تاریخ کا ایک باب مکمل ہوا۔دونوں توجیہات کاحاصل ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ایک دور ختم ہوا۔اب اس کا تجزیہ ہوناچاہیے کہ اس تجربے نے ایک المیے کی صورت کیوں اختیار کی؟ایسا کیوں ہوا کہ حالات نے وہ رُخ اختیار نہیں کیا‘خان صاحب‘ جس کی توقع کر رہے تھے؟
عمران خان صاحب کی توقع کیا تھی؟ان کا خیال تھا کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی ہے کہ وہ اس کی مدد سے ریاست کو بے بس کر دیں گے۔وہ ان کے خلاف اقدام نہیں کر سکے گی اورانتخابات کرانے پر مجبور ہو جائے گی جن میں ان کی کامیابی نوشتۂ دیوار ہے۔نو مئی کوانہوں نے حتمی اقدام کیا۔یہ نہ صرف نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا بلکہ واقعات نے ثابت کیا کہ عوامی تائید کے باب میں خان صاحب کے اندازے غلط تھے۔
عوام کی اپنے لیڈر سے وابستگی دو طرح کی ہو تی ہے۔ایک رومانوی‘ دوسری حقیقت پسندانہ۔پہلی وابستگی کی مثال بھٹو صاحب اور عمران خان صاحب ہیں۔ دوسری کی مثال نواز شریف صاحب ہیں۔ رومانوی وابستگی میں نظریہ اور شخصیت‘دونوں اہم ہوتے ہیں۔نظریے سے وابستگی بھی رومان پیدا کر تی ہے۔عمران خان صاحب کی سیاست میں تو نظریہ کہیں نہیں تھایوں بھی نظریاتی سیاست کا دور اب گزر چکا۔ ان کی شخصیت سے لوگوں کی دلچسپی تھی اور ہے۔خان صاحب اس اثاثے کے ساتھ میدانِ سیاست میں اترے۔
خان صاحب کا کہنا تھا کہ وہ ایک تبدیلی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔یہ تبدیلی ریاست کو کرپشن سے پاک کر نا تھی۔اس کے لیے انہوں نے جو لائحہ عمل اختیار کیا‘وہ ریاست کے موجودہ ڈھانچے میں رہتے ہوئے‘اس نظام کو تبدیل کر نا تھا۔انہوں نے خیال کیا کہ وہ ایک دفعہ اقتدار تک پہنچ جائیں‘قطع نظر اس کے کہ کیسے پہنچیں‘وہ تبدیلی لے آئیں گے۔اب ایک جمہوری طریقے سے تبدیلی کی خواہش جس طرزِ عمل کا تقاضا کرتی ہے‘بظاہر انہوں نے اسی کو اختیار کیا لیکن اپنے حلقۂ اثر میں وہ ہیجان پیدا کیا جو انقلابی تحریکوں کا شیوہ ہے۔
جمہوریت صبر کا تقاضا کرتی اور ارتقا کے ساتھ تبدیلی لاتی ہے۔اس میں ہیجان کا گزر نہیں ہو تا۔خان صاحب کواپنی بات کے ابلاغ کے لیے تمام وسائل میسر رہے۔ابتدا میں ریاست ان کے ساتھ کھڑی تھی۔اس وقت بھی جب وہ حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔میڈیا بھی ان کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا۔وہ اسی ریاستی نظام کی مدد سے اقتدار تک پہنچ گئے۔یوں تمام موجود وسائل ان کی تائید میں تھے۔
اس سازگار ماحول میں‘جب وہ نئی نسل میں ہیجان پیدا کرتے تھے تو اس میں ہیجان اور رومان دونوں جمع ہو جاتے۔اس پر مستزاد ان کی کامیاب ابلاغی حکمتِ عملی تھی۔اس میں شبہ نہیں کہ جتنے اچھے ترانے پی ٹی آئی نے بنائے‘کوئی دوسری جماعت نہیں بنا سکی۔آج تک‘وہ اس میدان میں تحریکِ انصاف سے کوسوں دور ہیں۔اس سارے ماحول نے تحریکِ انصاف کے جلسوں کو پکنک کا ماحول فراہم کر دیا۔اس کے جلسوں میں شرکت ایک تفریح سے کم نہیں تھی۔ آسودہ حال طبقے کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں‘ تیار ہو کر‘ شوق سے جلسوں میں شریک ہوتے۔ایسے مناظر بھی سوشل میڈیا نے دکھائے کہ جلسے میں شرکت کے لیے لوگ بیوٹی پارلر میں تیار ہوتے تھے۔
اس سارے عرصے میں ان کا ہیجان باقی رہا۔اس دوران میں خان صاحب کا کلٹ بھی بن چکا تھا۔گزشتہ ایک سال میں انہوں نے اس ہیجان کو عروج تک پہنچا دیا۔انہوں نے یہ خیال کیا کہ اگر اس ہیجان کو سیاسی ہتھیار بنا دیا جائے تو یہ ریاست کی قوت کا سامنا کر سکتا ہے۔خان صاحب نے طے کر لیا کہ اگر یہ نظام انہیں راستہ نہیں دیتا تو اسے کچل کر گزر جائیں گے۔اس کا مظاہرہ انہوں نے نو مئی کو کیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے سامنے ایران اور ترکیہ کی مثالیں تھیں۔ان کا خیال تھا کہ انہوں نے جو ہیجان پیدا کیا‘یہ ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے گا۔انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ ان کے کارکن یا مداح ابھی اس سخت تربیت سے نہیں گزرے جو انسان کو ٹینکوں کا سامنا کرنے پر آمادہ کر تا ہے۔پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہونے والے کا آج تک کسی مزاحمت سے سامنانہیں ہوا۔اگر وہ ایران اور ترکیہ کی تاریخ پڑھتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ لوگ تبدیلی کے مرحلے تک پہنچتے پہنچتے کتنی قربانیاں دے چکے تھے۔ کتنے لوگ جیل گئے۔کتنے مار ڈالے گئے۔ان کی تربیت ان جلسوں میں نہیں ہوئی تھی جہاں لوگوں کا ناچنے کو دل کرتا ہے۔انہیں اندازہ نہ ہو سکا کہ انقلاب کے لیے کیسی سخت جانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریکِ انصاف پہلے ہی امتحان میں بری طرح ناکام ہو گئی۔نو مئی کو شہرت اس وجہ سے نہیں ملی کہ لوگوں کی غیر معمولی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی۔اس کی شہرت کا سبب تشدد اور عسکری تنصیبات پر حملہ تھا۔لوگوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ ریاست کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہ پیدا کر سکتی تھی۔پھر جب جیل کے دروازے کھلے تو تحریکِ انصاف کی صفِ دوم کم و بیش خالی ہو گئی۔ صفِ اوّل میں خان صاحب اکیلے ہی کھڑے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کو ساتھ کھڑا کرنے کے کبھی قائل نہیں ہیں۔
یہ انجام بتا رہا ہے کہ ہیجان پیدا کرکے‘آپ لوگوں کو جمہوری تبدیلی کے لیے نہیں بلکہ انقلاب کے لیے تیار کرتے ہیں۔انقلاب خون بہائے بغیر نہیں آتا۔خان صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے انقلاب کی حقیقت سمجھے اور سمجھائے بغیر لوگوں کو انقلاب کی راہ پر ڈال دیا۔یوں اپنی سیاست کو نقصان پہنچایا اور اپنی جماعت کو بھی۔
یہ بات پیپلزپارٹی کی قیادت سمجھتی ہے اور (ن) لیگ کی قیادت بھی۔انہوں نے اپنے کارکنوں کو اس آگ میں کبھی نہیں جھونکا۔وہ جانتے ہیں کہ لوگ ووٹ تو دے سکتے ہیں کسی انقلابی جد وجہد کے لیے ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔خان صاحب پراب بھی واضح نہیں کہ وہ انقلابی راہنما ہیں یا جمہوری۔ جب وہ خودواضح نہیں تو ان کے مداح کیسے ہو سکتے ہیں؟سیاست میں ابہام سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔خان صاحب کو اس سے نکلنا ہوگا اور اپنے وابستگان کو بھی نکالنا ہو گا۔