آپ نے اگر کوہِ طور نہیں دیکھا تواس کو دیکھنے کی خواہش یقینا رکھتے ہوں گے۔
وہی طور جسے اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلیات کے نزول کے لیے منتخب کیا۔ قربِ الٰہی کا لافانی استعارہ۔ یہی وہ پہاڑ ہے جہاں سے بطور امت‘ بنی اسرائیل کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ عالم کے پروردگار نے اپنی آخری کتاب میں اسے اپنے قانونِ جزا و سزا پر شاہد بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جس قانون کا عالمگیر ظہور قیامت میں ہوگا‘ وہ ذریتِ ابراہیم کے لیے‘ اسی دنیا میں واقعہ بن گئی۔ 'طورِ سینین‘ اسی کا گواہ ہے۔
کوہِ طور مصر میں ہے۔ مصر بنی اسرائیل کی تاریخ ہی کا نہیں‘ دنیا کے قدیم ترین تہذیبی آثار کا امین ہے۔ قلوپطرہ بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک اساطیری کردار‘ جس کے گرد تاریخ کے کئی متضاد بیانات جمع ہو گئے ہیں۔ کسی نے اسے حسن و جمال کا نمونہ بنا کر پیش کیا اور کسی نے اسے عام خدو خال کی عورت کہا۔ وہ دیکھنے میں جیسی بھی تھی‘ اس میں کوئی بات تو ایسی تھی کہ تاریخ میں امر ہو گئی۔
مصر‘ جدید تاریخ میں بھی اہم ہے کہ نہر سویز جیسا عجوبہ یہیں تخلیق ہوا۔ اس کی تفصیلات بھی حیران کن ہیں۔ عالمِ اسلام کے حوالے سے مصر کی سیاسی معنویت‘ بھی سب سے زیادہ ہے کہ اسے 'سیاسی اسلام‘ کا مرکز مانا گیا ہے۔ یہ امام حسن البنا اور سید قطب کا وطن ہے۔ یہ الاخوان المسلمون کی جنم بھومی ہے۔ مصر کو انتہا پسند مسلم تنظیموں کا منبع تسلیم کیا جاتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ مصر تاریخی اور عصری‘ دونوں حوالوں سے اتنا اہم ہے کہ اس کو سمجھے بغیر ماضی کو سمجھا جا سکتا ہے نہ دورِ حاضر کو۔ اب اگر آپ مصر نہیں جا سکتے جہاں کوہِ طورسے لے کر نہرِ سویز تک کے تاریخی مظاہر کو بچشمِ سر دیکھ سکیں تو پھر وہاں تک رسائی کا ایک ہی راستہ ہے۔ کوئے تیز نگاہ‘ چشمِ دید مناظر کو ایسے بیان کرے کہ آپ منظر کا حصہ بن جائیں۔ یہ طویل تمہید‘ میں نے ایسے ہی ادب پارے سے متعارف کرانے کے لیے باندھی ہے جس کی مدد سے آپ چشمِ تصور کے ساتھ کوہِ طور کو دیکھ سکتے ہیں اور نہر سویز کو بھی۔
کتاب کا عنوان ہے: ''مصر: خواب اور تعبیر‘‘۔ یہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مصر کے بارے میں لکھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو بارہا مصر جانے کا موقع ملا۔ ایک بار تو وہ تین سال وہاں مقیم رہے جب جامعہ الازہر میں وہ اردو اور مطالعہ پاکستان کی چیئر کے لیے منتخب ہوئے۔ مصر کو جاننے کی خواہش بھی ان کے ہم رکاب تھی۔ یوں انہوں نے اس وقت کو ضائع نہیں کیا اور 'سیروا فی الارض‘ کی قرآنی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ان تمام اہم مقامات کو دیکھ ڈالا جو اپنے دامن میں عبرت کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ جو گواہ ہیں کہ عالم کے پرودردگار نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا کیا‘ جب انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
مجھے کوہِ طور کے سفر اور نہر سویز پر ان کے مضامین پوری کتاب پر بھاری لگے۔ کوہِ طور کے سفر کو انہوں نے جس طرح تاریخ اور مذہب کے عالمانہ پس منظر اور پھر اس پر مستزاد اپنے ادبی ذوق کی روشنائی میں ڈوبے قلم کے ساتھ لکھا ہے‘ اس نے مجھے تو ان کا ہم سفر بنا دیا۔ مطالعے کے دوران مجھے بارہا یہ خیال ہوا کہ میں بھی اس قافلے کا حصہ ہوں جس نے سیدنا موسیٰ ؑ کے ساتھ رشد و ہدایت کے ایک سفر کا آغاز کیا۔ یہ قافلہ کبھی بھٹکا اور کبھی پیغمبرانہ تنبیہ سے صراطِ مستقیم پر آیا۔ پھر بھٹکا اور پھر ایسا وقت آیا کہ بھٹکتا ہی چلا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ میں فی الحقیقت بھی اسی قافلے کا حصہ ہوں۔ فرق یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ ؑ کی قوم کو اللہ نے امامت سے معزول کر کے‘ ذریتِ ابراہیم کی دوسری شاخ کو اس منصب پر فائز کر دیا جس کی سرداری کا تاج‘ اب تاقیامت سیدنا محمدﷺ کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ میں ان کا امتی ہوتے ہوئے‘ اس قافلے میں شامل ہوں اور ایک مدت سے اس کے ساتھ نشیب و فراز سے گزر رہا ہوں جس سے بنی اسرائیل گزرے تھے۔ کاش بنی اسماعیل اور اس کے متبعین بنی اسرائیل کی تاریخ کو اچھی طرح پڑھ لیتے جسے قرآن مجید نے تفصیل کے ساتھ‘ بالخصوص‘ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران میں بیان کر دیا ہے۔ واضح لفظوں میں بتا دیا کہ منصبِِ امامت چند ذمہ داریوں سے مشروط ہوتا ہے۔ اسے استحقاق سمجھنا ایک بھول ہے‘ بنی اسرائیل جس کا شکار ہوئے۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب کا سفر نامہ کوہِ طور‘ اس کی تذکیر ہے اور بہت پُراثر۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ آپ کی آنکھوں کے سامنے مشہود ہو جاتی ہے۔ عبرت کدۂ تاریخ سے وہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ چن کر لائے ہیں۔ جیسے راس الحسینؓ کا قصہ۔ قاہرہ میں ایک مسجد ہے‘ جامع حسینؓ۔ ایک روایت کے مطابق یہ مقام‘ سیدنا حسینؓ کے سر مبارک کا مدفن ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق‘ اس کا مرقد دمشق میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تاریخی روایات کا محققانہ طرز پر جائزہ لیا ہے اور اس باب میں اٹھنے والے سوالات کے جواب دیے ہیں۔ یہاں بھی تاریخ کے علم نے ان کی بھر پور معاونت کی ہے۔
ایک کالم کی تنگ دامنی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ میں اس کتاب میں شامل مضامین کے ہر پہلوکو سامنے لاؤں۔ بس یہ عرض کر سکتا ہوں کہ تاریخ‘ حالاتِ حاضرہ‘ مصر کے موجودہ ادب‘ علمی سفارت کاری کی اہمیت‘ اقبال اور مصر‘ مسئلہ فلسطین اور مصر کی درس گاہوں سمیت مصر سے متعلق اَن گنت موضوعات ہیں جن کا اس کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اسے سفر نامہ کہنا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اس میں سفرنامہ‘ افسانہ‘ شعر‘ سمیت تمام اصنافِ ادب کے مظاہر جمع ہو گئے ہیں۔ اس میں صحافت کو بھی شامل کر لیجئے کہ کالم نگاری‘ صحافت ہی سے منسوب ہے اور اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کے بہت سے کالم شامل ہیں۔
ایک بات البتہ کھٹکتی ہے۔ یہ کتاب اخوان جیسی تحریکوں اور امام حسن البنا و سید قطب جیسی بڑی شخصیات کے تذکرے سے یکسر خالی ہے۔ مصر کیا‘ عالمِ اسلام کی کوئی فکری‘ سماجی اور سیاسی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ 'الوسطیہ‘ جیسی تحریک نے یہاں جنم لیا۔ قاہرہ کا تحریر اسکوائر 'عرب بہار‘ کا مرکز رہا۔ 2023ء میں مصر پر شائع ہونے والی کوئی کتاب اگر ان موضوعات سے خالی ہے تو تشنگی کا احساس گہرا ہو جاتا ہے۔
میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ ان موضوعات پر کہنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے پاس بہت کچھ ہے۔ ان کے مشاہدات اور تجربات‘ ہماری معلومات میں بیش قیمت اضافہ کر سکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انہوں نے اسے کسی الگ تصنیف کا موضوع بنانا ہو۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب کو اللہ نے ذہنِ رسا اور رواں قلم دیا ہے۔ ادب سے گہرا شغف ان کے تحریر کو ایک ضافی رنگ دیتا ہے جو ایک قاری کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز دیتا ہے۔ کتاب کے آخر میں ان کی تصانیف کی فہرست موجودہے۔ ڈاکٹر صاحب کم وبیش پچاس کتابیں لکھ چکے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری تشنگی کا سامان کرتے رہیں گے کہ 'ہزار بادۂ ناخوردہ دررگِ تاک است‘۔
اس کتاب کو ادارہ تالیف و ترجمہ‘ پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ اس کی قیمت حیرت انگیز طور پر کم ہے۔ گویا کتاب تک رسائی بہت آسان ہے۔ اگر اتنی کم رقم کے ساتھ کوہِ طور اور نہر سویز کو چشمِ تصور ہی سے دیکھ لیا جائے تو یہ سودا ہر گز مہنگا نہیں۔ رہا علم تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی قیمت کا تعین انسان ساز پیمانہ تو نہیں کر سکتا۔