منشور کیا ہے؟ یہ ایک سیاسی جماعت کا ملک کے عوام سے عہد ہے۔
عہد یا وعدہ تین خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ حقیقت پسندانہ ہو۔ دوسرا یہ کہ معاہدے میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اسے پورا کر سکے۔ تیسرا یہ کہ اس میں کر گزرنے کا جذبہ بھی ہو۔ جوئے شیر نکالنے یا آسمان سے تارے توڑ لانے کی بات شاعری میں اچھی لگتی ہے۔ زندگی شاعری نہیں۔ یہ ان حقائق سے عبارت ہے جن کا ہم روزانہ مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں۔ زندگی جوئے شیر نکالنے کا مطالبہ نہیں کرتی مگر اسے پینے کو پانی چاہیے کہ اس کے بغیر جینا محال ہے۔ یہ آسمان سے تارے توڑ لانے کی خواہش بھی نہیں رکھتی‘ صرف یہ چاہتی ہے کہ اس کا گھر بجلی کے چراغ سے روشن رہے۔ (ن) لیگ کا منشور کیا ان خصوصیات کا حامل ہے؟
پہلی بات: یہ منشور حقیقت پسندانہ ہے۔ اس میں کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا گیا جو 'عاشقانہ‘ ہو۔ سبز باغ نہیں دکھائے گئے۔ وہ اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا حصول ممکن ہے۔ جیسے پانچ برس میں ترقی کی شرح کو چھ فیصد تک لے جانا۔ یہ ممکن ہے۔ ہم عصر دنیا میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چین‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں جی ڈی پی کی شرح اس سے بھی زیادہ رہی۔ اس لیے یہ کوئی ایسا وعدہ نہیں جسے جوئے شیر لانا کہا جائے۔ دوسری بات: کیا (ن) لیگ میں اس کی صلاحیت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایسا کرکے دکھا چکی۔ اس کے سابقہ دورِ اقتدار میں یہ واقعہ ہو چکا۔ جو ایک دفعہ کر سکتا ہے‘ امکان ہوتا ہے کہ وہ دوسری دفعہ بھی کر گزرے گا۔ رہا جذبہ تو اس کی بھی فراوانی ہے۔ یہ شعور اب کہیں زیادہ ہے کہ سیاسی جماعت محض وعدوں سے زندہ نہیں رہ سکتی۔ اسے کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔
اس منشور میں یہ کہا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح 40فیصد سے کم کرکے اسے 10فیصد سے کم سطح پر لایا جائے گا۔ یہ ہدف مشکل ضرورہے مگر ناقابلِ حصول نہیں۔ اس منشور میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ اسے موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس طرح مرتب کیا گیا کہ اگلا قدم خلا میں نہیں‘ زمین پر رہے۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جس سطح پر ہیں اور مستقبل میں اس پروگرام کی جو نوعیت ہو گی‘ مہنگائی کی شرح کا تعلق بھی اسی سے ہے۔ خیال یہی ہے کہ (ن) لیگ کو موقع ملنے کی صورت میں معاشی استحکام کی ذمہ داری اسحاق ڈار صاحب کو سونپ دی جائے گی۔ ان کے حکمتِ عملی کے بارے میں دو آرا رہی ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ انہوں نے ہمیشہ معیشت کو آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں جذبہ موجود ہے۔ اس لیے ان سے اُمید باندھی جا سکتی ہے۔
جمہوریت مضبوط بلدیاتی اداروں کے بغیر پنپ نہیں سکتی۔ جب تک نچلی سطح پر اقتدار میں شرکت کا تصور ایک نظام میں متشکل نہیں ہو گا‘ صوبوں اور دوسری انتظامی اکائیوں کی شکایات دور نہیں ہوں گی۔ مرکز سے شکایات اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب عام آدمی کو چھوٹے چھوٹے امور کے لیے اسلام آبادکی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ اختیار کو چھوٹے سے چھوٹے انتظامی یونٹ تک منتقل کیا جائے۔ (ن) لیگ نے منشور میں وعدہ کیا ہے کہ 90دن میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔
خارجہ پالیسی میں ایک طرف امتِ مسلمہ کی روحانی وحدت کو بنیاد بنا کر فلسطین‘ کشمیر اور اسلامو فوبیا جیسے مسائل پر عالمِ اسلام کی سطح پر اتفاق اور ہم آہنگی کی بات کی گئی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اس بات کو ضروری قرار دیا گیا ہے کہ 5اگست 2019ء کے اقدام کو واپس لیا جائے اور مسئلہ کشمیر کو اقدامِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی امن کی بات کی گئی ہے۔
اس منشور میں ماحولیات‘ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل کے ساتھ آبادی کے غیرمعمولی اضافے کو ایک مسئلہ سمجھتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ منشور کے اس حصے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھا گیا ہے۔ مذہبی‘ سماجی اور معاشی حوالے سے اس کا جائزہ لینے کے بعد ایک حکمتِ عملی تشکیل دی گئی ہے۔ میرا احساس ہے کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر دوسرا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہاں سڑکوں کی توسیع‘ ٹریفک کا بہاؤ کم نہیں کر سکی۔ اس کے لیے آبادی کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانا ضروری ہے‘ بالخصوص بڑے شہروں میں۔ منشور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے مستقل وزارت کی بات کی گئی ہے۔ منشور میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے انضمام کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ اس سے ریڈیو کے ادارے اور ملازمین کو فائدہ ہو گا۔ پی آئی اے کے مستقبل کے بارے میں البتہ یہ منشور خاموش ہے۔
اس ملک کے چند بنیادی مسائل ہیں۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا انہیں منشور کا حصہ بنایا گیا ہے؟ جیسے سول ملٹری تعلقات ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ بہت سی باتیں زبانِ قال سے نہیں‘ زبانِ حال سے کہی جاتی ہیں۔ ایک منتخب عوامی حکومت جب عوام کی خدمت کرتی اور سیاسی و سماجی اداروں کو مضبوط بناتی ہے تو زبانِ حال سے وہ توازن پیدا کرتی ہے جو ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جس دن عوامی حکومت مستحکم ہو گی‘ اسی دن یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جو تصادم سے یا دوسرے کو نیچا دکھا کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ امورِ جہاں بانی سے لاعلم ہیں۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے اور اس کو اسی طرح آگے بڑھنا ہے۔
منشور انقلابی نہیں‘ حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں۔ انقلاب آج ایک متروک تصور ہے اور یہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انقلابی تحریکوں نے عالمِ انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی جماعت تو کسی صورت میں انقلابی نہیں ہو سکتی۔ اسے ایک موجود نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتری لانا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی جب تک وہ الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہ ہو۔ گویا وہ پہلے اس نظام کو قبول کرنے کا اعلان کرتی ہے‘ اس کے بعد متحرک ہو سکتی ہے۔ سسٹم میں کوئی جوہری تبدیلی لانے کیلیے بھی سسٹم کے اندر ہی سے راستہ نکالنا ہوتا ہے۔
(ن) لیگ کے منشور کی تیاری کے لیے جس ٹیم کا انتخاب کیا گیا‘ اس نے اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی کے ساتھ ادا کیا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کی علم و فضل اور طبعی سنجیدگی و متانت سے یہی امید تھی کہ وہ کوئی ایسا خواب نہیں دکھائیں گے جس کی کوئی تعبیر نہ ہو۔ منشور کے حسنِ تربیت میں ان کی شخصیت کی جھلک ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان‘ صاحبِ علم ہونے کے ساتھ ریاست کے نظام کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ اس کا حصہ رہے ہیں۔ پرویز رشید سیاست و ریاست کو جس گہرائی سے سمجھتے ہیں‘ کم لوگ ہی اس معاملے میں ان کے ہم سر ہوں گے۔ مریم اورنگزیب صاحبہ بھی اداروں کو چلانے کا سلیقہ اور مہارت رکھتی ہیں۔ سعد رفیق اہلِ سیاست میں اپنی سنجیدگی اور متانت کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ یہ منشور ان سب کی کاوشوں کا حاصل ہے۔ اس کا انتساب بہر حال نواز شریف صاحب ہی کی طرف ہو گا۔ کریڈٹ بھی ان کے نام کہ اس کی روح میں ان کا وژن کار فرما ہے۔
میری دعا ہے کہ (ن) لیگ کو اگر اس ملک کے عوام موقع دیں تو وہ اپنے وعدوں کو وفا کر سکے۔ دیگر جماعتوں کے بارے میں بھی دعا یہی ہے۔