کیا ہمارے دانشور کی ترجیحات بدل رہی ہیں؟
ایک زمانہ ہو گیا یہ شکایت کرتے کہ ہمارے دانشور کو سیاست کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ قلم ہیں کہ سیاست کیلئے رواں رہتے ہیں۔ زبانیں ہیں کہ سیاست پہ قینچی کی طرح چلتی ہیں۔ سماج کی کسی کو فکر نہیں۔ معاشرہ برباد ہو رہا ہے۔ قدریں مٹ رہی ہیں۔ اَن گنت موضوعات توجہ طلب ہیں مگر کوئی نہیں ہے جو ان پر قلم اٹھائے۔ اگر کہیں ایک آدھ کالم ہے بھی تو ناقابلِ ذکر۔ 'حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی‘۔ گیلپ سروے مگر پرنٹ میڈیا کی ایک مختلف تصویر پیش کر رہا ہے۔
اس سروے میں 1855 کالموں اور اداریوں کو شامل کیا گیا ہے جو ماہِ ستمبر کے دوران میں‘ اردو انگریزی کے بارہ اخبارات میں شائع ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ کالم اور اداریے ماحولیات پر لکھے گئے: انیس فیصد۔ اس کے بعد معیشت موضوع بنی: بارہ فیصد۔ بین الاقوامی تعلقات: گیارہ فیصد۔ کلچر اور سیاحت: نو فیصد۔ سیاست صرف آٹھ فیصد کالموں اور اداریوں کو متوجہ کر سکی۔ مشرقِ وسطیٰ کا بحران‘ مذہب‘ انسانی حقوق اورتعلیم صرف تین فیصد کالموں میں زیرِ بحث آئے۔ کیا اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارے دانشور کی ترجیحات بدل رہی ہیں؟ کیا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا رجحان بھی یہی ہے؟
سوشل میڈیا کے بارے میں اس نوعیت کا کوئی سروے میرے سامنے نہیں ہے۔ یہ فورم اتنا وسیع ہے کہ اس کا سروے آسان نہیں۔ اس دکان پر ہر طرح کا مال دستیاب ہے اور وافر۔ یہاں خریداروں کی تعداد سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیا زیادہ بک رہا ہے۔ اس حوالے سے میری معلومات بہت محدود ہیں۔ ان کی بنیاد پر میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ سیاست اور مذہب‘ دونوں سب سے زیادہ 'صارفین‘ کو متوجہ کر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے پرائم ٹائم پر بدستور سیاست ہی کا قبضہ ہے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر پرنٹ میڈیا کی تصویر مختلف کیوں ہے؟ جو لوگ اخبارات میں لکھتے ہیں‘ ٹی وی پر بھی زیادہ تر وہی دکھائی دیتے ہیں۔ کیا میڈیم کے بدلنے سے رائے بھی‘ ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں؟
میرے نزدیک اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے۔ پرنٹ میڈیا کو کسی نظم کے تابع رکھنا آسان ہے۔ وہاں چھپنے سے پہلے اسے ایک چھلنی سے گزارنا ممکن ہے۔ سیاستِ دوراں سے متعلق ان موضوعات پر بات کرنا ان دنوں مشکل ہے‘ عوام کے ایک بڑے حصے کو جن سے دلچسپی ہے۔ جب سیاسی موضوعات پر لکھنا آسان نہ رہے تو پھر لکھنے والا متبادل موضوعات کو تلاش کرتا ہے۔ اس لیے اگر آج ماحولیات اور معیشت پر بات ہو رہی ہے تو اس کی وجہ کوئی شعوری تبدیلی نہیں‘ مجبوری ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے کا مرغوب موضوع آج بھی سیاست ہی ہے۔ بس موقع ملنے کی دیر ہے۔ اس کی گواہی سوشل میڈیا دے رہا ہے جہاں سیاسی وی لاگز کی بھرمار ہے۔ اگر یہ کوئی شعوری تبدیلی ہوتی تو اس کا اظہار ابلاغ کے تمام ذرائع پر ہوتا۔
ایک سماج کی نشو ونما کیلئے یہ خوش آئند نہیں کہ رائے ساز موضوعات کے انتخاب میں آزاد نہ ہو۔ یہ آزادیٔ رائے کی بنیادی قدر سے متصادم ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں لوگ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آزاد ہونے کا مطلب قانون اور اخلاق سے بے نیاز ہونا نہیں ہے۔ لباس کے انتخاب کی آزادی تو دی جا سکتی ہے‘ عریانی کی نہیں۔ اس باب میں ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں۔ ان کا مؤثر نفاذ ہونا چاہیے تاکہ کوئی ریاست یا فرد کی تذلیل نہ کرے‘ قومی مفاد کا لحاظ رکھے۔ حکومت کو قانون کے نفاذ پر اصرار کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان میں ہتکِ عزت کے قانون ہی کا مؤثر نفاذ ہو جائے تو حکومت کی بہت سی شکایات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بجائے جب رائے کے اظہار پر پابندی لگتی ہے تو اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ فائدہ ان کو ہوتا ہے جو آزادیٔ رائے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہیرو قرار پاتے ہیں۔
اس جبر میں تاہم خیر کا یہ پہلو نکل آیا کہ ہمارا لکھاری ان موضوعات کی طرف متوجہ ہوا جن پر بات کرنا از بس ضروری تھا۔ اقتدار کی سیاست اور سیاسی شخصیات کا ضرورت سے زیادہ موضوع بننا بھی قومی ذوق کیلئے نقصان دہ ہے۔ عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سماج کے اصل مسائل کیا ہیں۔ میڈیا میں جب غیر ضروری موضوعات پر سطحی گفتگو ہو گی تو اس سے عوام کی فکری سطح بھی پست ہو گی۔ آج عام آدمی نہیں جانتا کہ ماحولیاتی آلودگی کس طرح انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ حالیہ سیلاب نے جو قیامت ڈھائی ہے‘ اس کا ماحولیات سے کیا تعلق ہے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سماج کو حساس بنانا ضروری ہے۔ اگر آج کم ازکم پرنٹ میڈیا کی سطح پر یہ موضوعات زیرِ بحث آنے لگے ہیں تو اسے وہ خیر سمجھنا چاہیے جو شر کے پردے سے نمودار ہوا ہے۔
اس بحث سے جڑا ایک سوال یہ ہے کہ ان دنوں پر نٹ میڈیا رائے سازی میں کتنا مؤثر ہے؟ موضوعات کی یہ تبدیلی کیا سماجی تبدیلی میں کوئی مؤثر کردار ادا کر پائے گی؟ پرنٹ میڈیا بظاہر اس قابل نہیں کہ رائے عامہ پر اثر انداز ہو۔ تاہم اخبارات کے ای ایڈیشن پڑھے جا رہے ہیں۔ یوں پرنٹ میڈیا بھی سوشل میڈیا کا حصہ بن گیا ہے۔ گیلپ کا جو سروے اس کالم کی بنیاد ہے‘ اس میں قارئین کے حلقے کا ذکر نہیں ہے‘ صرف موضوعات کا بیان ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان موضوعات پر چھپنے والی تحریروں کی رسائی اس طبقے تک بھی ہے جو معلومات کیلئے سوشل میڈیا پر انحصار کرتا ہے۔ بہرصورت‘ جبر کے زیرِ اثر ہی سہی‘ یہ موضوعات زیرِ بحث تو آئے۔
میڈیا کو اپنے اندازِ نظر میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بطلِ حریت ہونے کیلئے ہر وقت تصادم پر مائل رہنا لازم نہیں ہوتا۔ میڈیا کو بات کہنے کیلئے متبادل راستوں کی طرف دیکھنا ہو گا۔ کبھی علامت‘ کبھی موضوعات کی تبدیلی‘ کبھی بالواسطہ‘ کبھی بلاواسطہ... بات کہنے کے بہت سے اسالیب ہیں۔ فیض صاحب نے ایسے ہی اسلوب کی طرف توجہ دلائی ہے:
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے ؍ ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
پھر یہ کہ اَن گنت موضوعات ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے اور جو اقتدار کی سیاست سے زیادہ اہم ہیں۔ وہ مستحق ہیں کہ ان پر لکھا جائے۔ اگر سیاستِ دوراں پہ لکھنا مشکل ہے تو پھردوسرے موضوعات پر لکھیں تاکہ سماج رکنے نہ پائے۔ سیاستدانوں کا رویہ تو قابلِ فہم ہے کہ ان کی دلچسپی ہی اقتدار کی سیاست سے ہے۔ میڈیا کا مخاطب تو پورا معاشرہ ہے۔ اس کا ہر شعبہ‘ اس کا ہر ادارہ۔ جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور میں ٹی وی ڈرامہ نے جس تخلیقی قوت کا مظاہرہ کیا اس کی دوسری مثال موجود نہیں۔ اسی طرح اقتدار کی سیاست کے بجائے اگر صرف سیاست کو موضوع بنایا جائے تو اقتدار کی سیاست بالواسطہ زیرِ بحث آ جائے گی۔ مثال کے طور پر طریقۂ انتخاب پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ کیا ہمارے لیے موزوں ہے؟ سیاسی جماعتیں کیسے مضبوط ہو سکتی ہیں؟ یہ سوالات سیاست سے متعلق ہیں جن پر بات ہونی چاہیے۔ ان کو موضوع بنانے پر تو میرا خیال ہے کہ کوئی پابندی نہیں۔
ناسازگار حالات میں راستہ تلاش کرنا بھی ایک ہنر ہے جو سیکھنا چاہیے۔ تصادم سے بچنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ اگر قدرت نے یہ موقع پیدا کر دیا ہے کہ سنجیدہ موضوعات زیرِ بحث آنے لگے ہیں تو اس کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں ریاست کے ساتھ سماج کو بھی زندہ کرنا ہے۔ اس جدوجہد میں کوئی مزاحم نہیں ہو گا۔ اگر پرنٹ میڈیا ماحولیات اور معیشت کی طرف آ گیا ہے تو اللہ کرے دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی یہ توفیق ارزاں ہو۔