"KDC" (space) message & send to 7575

مسترد ووٹ ‘قانون کیا کہتا ہے؟

سینیٹ کے انتخابات میں متحدہ اپوزیشن کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے ووٹ مسترد ہونے کا معاملہ قانون کی روشنی میں متنازع ہے‘ جسے سپریم کورٹ آف پاکستان یا اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔(اطلاعات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے)۔ قانون کے مطابق سینیٹ الیکشن یا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کو ٹربیونل میں چیلنج اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ سینیٹ ایکٹ کی دفعہ نو کے تحت ٹربیونل کا وجود ہی نہیں ہے۔ بادی النظر میں سید یوسف رضا گیلانی کے ووٹرز نے دانستہ طور پر ووٹ کی مہر لگانے میں غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ سینیٹ رولز میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق یوسف رضا گیلانی کے مسترد ہونے والے ووٹوں پر اپوزیشن کا اٹھایا گیا اعتراض اہم ہے جس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔ سینیٹ کے پریذائیڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ کی مسترد شدہ ووٹ کے حوالے سے رولنگ اور سینیٹ ایکٹ میں تضاد لگتا ہے‘ جسے بنیاد بنا کر سید یوسف رضا گیلانی پریذائیڈنگ آفیسر کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ سینیٹ رولز کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے لیے تیار کیے گئے بیلٹ پیپر پر ایک ہی خانہ موجود ہے جس میں امیدوار کا نام لکھا گیا ہے اور نام کے سامنے مہر لگانے کے لیے جگہ چھوڑی گئی ہے۔ مہر لگانے کے لیے الگ خانہ نہیں بنایا گیا نہ ہی یہ وضاحت کہ گئی ہے کہ ووٹر مہر اس جگہ پر لگائے‘ اس لیے ووٹر کی جانب سے مہر لگاتے وقت امیدوار کے نام پر مہر لگانے کا احتمال بھی رہتا ہے۔ رولز میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ مہر باکس کے اندر لگنی چاہیے۔ اپوزیشن کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو پڑنے والے ووٹ جو مسترد ہوئے ان میں ووٹر نے مہر اُن کے نام پر لگادی ‘اس لیے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ووٹر نے کس نیت سے ایسا کیا۔ اس امر کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے کہ موجودہ رولز کی روشنی میں مہر کہاں لگنی چاہیے تھی اور مسترد شدہ ووٹوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ اس معاملے میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں کہ مسترد شدہ ووٹ ایک ہی امیدوار کے ہیں جبکہ باقی ڈالے گئے تمام ووٹوں پر مہریں بکس کے اندر لگائی گئی ہیں‘ جن میں یوسف رضا گیلانی کے 42 اور کامیاب ہونے والے حکومتی اتحاد کے امیدوار صادق سنجرانی کے 48 ووٹ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح معاملہ مشکوک شکل اختیار کر گیا ہے؛ تاہم ہارنے والے امیدوار کا حق ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت معاملے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر سکتا ہے۔
یوسف رضا گیلانی کے مسترد کیے جانے والے ووٹ ان کی پارٹی کے سینیٹرز نہیں ہو سکتے‘ شک کیا جا سکتا ہے کہ مسترد شدہ ووٹ کسی اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کے ہوں گے‘ بظاہر جنہوں نے پارٹی کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے دانستہ طور پر مہر اس جگہ لگائی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں غلط مہر لگانے والے معصوم نہ ہوں‘ مفادات کے تحت کاروباری افراد کا ٹولہ ہوں اور انہوں نے اپنے کاروباری مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ مسترد کروائے ہوں۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب حکومت کے لیے علامتی کامیابی ہے کیونکہ متحدہ اپوزیشن عنقریب چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا پروگرام بھی بنا سکتی ہے کیونکہ سینیٹ رولز میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب اور بیلٹ پر مہر لگانے کا طریق کار درج نہیں ہے جبکہ فیصلے کے لیے بیلٹ پیپر پر ووٹر کی نیت دیکھی جاتی ہے۔
بہرکیف یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہونے سے معاملہ ختم نہیں ہوا۔ میرے خیال میں اب یہ معاملہ عدالت میں قانونی جنگ اختیار کر جائے گا۔ ماضی میں ایسے کئی نظائر موجود ہیں جب مسترد کیے گئے بیلٹ پیپرز پر غلط جگہ مہر لگائی گئی تو ووٹ مسترد بھی ہوئے اور درست بھی قرار دیے گئے۔ اس حوالے سے جسٹس ناظم حسین صدیقی‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر‘ چیف جسٹس حلیم‘ جسٹس افضل ظلہ اور جسٹس شفیع الرحمن کے فیصلوں سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح 1997ء کا کیس اہم ہے جب وسیم سجاد چوتھی مرتبہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ ان کے مقابل شبلی فراز کے چچا مرحوم بیرسٹر مسعود کوثر تھے۔ وسیم سجاد کے 18 ووٹ مسترد ہو گئے۔ اُس وقت سینیٹ کا ایوان 87 رکنی تھا اور اجمل خٹک پریذائیڈنگ آفیسر تھے۔ وسیم سجاد 18 ووٹ مسترد ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جیت گئے اور اس کے بعد چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن کرایا۔ نواب اکبر بگٹی کے داماد ہمایوں مری ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار تھے۔ ان کے بھی 18 ووٹ مسترد ہو گئے لیکن وسیم سجاد نے یہ 18 ووٹ درست قرار دیے اور رولنگ دی کہ ووٹر کی نیت کا پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسے ووٹ دینا چاہتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی کے وکلا بالخصوص فاروق نائیک سینیٹ سیکرٹریٹ میں یہ سارا ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں جو ابہام پیدا ہو رہا ہے اس سلسلے میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 90 کی ذیلی شق پانچ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں اس نوعیت کے معاملے پر واضح لکھا ہے کہ ایسی صورتحال میں ووٹ مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر نام پر مہر لگا دی گئی تو ووٹ کا مسترد ہونا نہیں بنتا‘ اگر دائیں یا بائیں نیچے اوپر لگ جاتی تو ووٹ مسترد تصور ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی مہر نو خانے پر مشتمل ہوتی ہے اگر پانچ خانہ نام کے ساتھ دیکھے جائیں تو ووٹ مسترد نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رولز‘ ہدایت نامہ اور ایکٹ اس حوالے سے بڑے شفاف‘ واضح اور آسان ہیں جبکہ سینیٹ کے اپنے رولز ہیں۔ بیلٹ پیپرز کو مسترد کرتے ہوئے بڑی سوچ‘ مہارت اور دوربینی سے کام لیتے ہوئے ماضی کے فیصلوں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے‘ لیکن پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلے اور 1997ء کے ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے وقت 18 ووٹوں کے مسترد ہونے پر سابق چیئرمین وسیم سجاد کے فیصلے کا حوالہ نہیں دیا۔ اگر فاروق ایچ نائیک اور شیری رحمن وسیم سجاد کے فیصلے کو نظیر بنا کر دلائل دیتے تو سید مظفر حسین شاہ کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنا پڑتی اور پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ سید مظفر حسین شاہ سے میری شناسائی 1990ء سے ہے‘ وہ پختہ کار پارلیمنٹیرین اور سیاست دان ہیں جو 1990ء میں سندھ اسمبلی کے سپیکر‘ وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ اگرچہ حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ پریذائیڈنگ آفیسر کی رولنگ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی مگر سید مظفر حسین شاہ نے فاروق ایچ نائیک کے نقطہ اعتراض پر ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان کی رولنگ کے خلاف ٹربیونل میں جا سکتے ہیں‘ لہٰذا عدالت کے دروازے کھلے ہیں۔
قانون اور آئینی ماہرین سیاست کے معاملات میں گھرے ہوتے ہیں۔ ان کی باریک بینی کا رخ کسی اور طرف جاتا ہے۔ وہ کرپشن کے کیسز سے بَری ہونے کے لیے ماضی کے فیصلوں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔ اب یوں نظر آ رہا ہے کہ صادق سنجرانی اور مرزا محمد آفریدی کی کامیابی پر حکومت کا مورال بلند اور اپوزیشن اتحاد کمزور پڑ گیا ہے اور پیپلز پارٹی تحریک عدم اعتماد کی تجویز پر نظر ثانی کرے گی۔ اپوزیشن کا حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی اب ہوتا نظرنہیں آ رہا اور بظاہر ڈیموکریٹک موومنٹ کا مشن ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں