"KDC" (space) message & send to 7575

ناپاک بھارتی عزائم

آبی جارحیت کا مظاہرہ کرنے کے بعد بھارت نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انٹر نیشنل بارڈر اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے چھ مقامات پر 24 میزائل حملے کیے جن میں 31شہری شہید اور 57زخمی ہوئے۔ افواجِ پاکستان کے بروقت جواب سے اُسی رات بھارت کے پانچ لڑاکے طیارے تباہ ہوئے جن میں فرانس سے درآمد شدہ تین رافیل طیارے‘ ایک مگ 29اور ایک ایس یو 30شامل ہیں۔ اس کارروائی کے بعد بھی بھارت کی طرف سے پاکستانی حدود میں اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرونز بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور تادم تحریر افواجِ پاکستان کی طرف سے ملک کے 12 شہروں میں 25سے زائد ہیروپ ڈرونز مار گرائے گئے ہیں۔ ان بھارتی ڈرون حملوں میں ایک پاکستانی شہری شہید جبکہ چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بھارت کو پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب کے باعث جو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے‘ وہ اسے مٹانے کیلئے دنیا میں یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ ہم نے پاکستان میں دہشت گرد کیمپس کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں پاکستان میں مساجد کو نشانہ بنا کر ہندوتوا سوچ کی عکاسی کی ہے۔ ان بھارتی حملوں میں دس سے زائد پاکستانی بچوں کی شہادت دنیا کو یہ باور کرانے کیلئے کہ بھارت ایک شدت پسند ملک ہے‘ ایک ٹھوس ثبوت ہے ۔پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے عوام کو اس عزم سے آگاہ کیا گیا ہے کہ پاک فوج اپنے مرضی کے وقت اور مرضی کے ٹارگٹ کا تعین کرکے دشمن کے اس بزدلانہ وار کا بھرپور جواب دے گی۔
22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونیوالے دہشت گردانہ حملے کی نہ صرف حکومتِ پاکستان بلکہ پاکستانی عوام نے بھی بھرپور مذمت کی تھی مگر بھارتی حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔ پاکستانی حکومت نے اس بے بنیاد اور بلاجواز الزام تراشی کے بعد بھارت کو اس واقعہ کی کسی عالمی فورم کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی تھی لیکن چونکہ بھارت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ پہلگام واقعہ میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے‘ اسلئے مودی سرکار نے پاکستان کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش پر غور کرنے کے بجائے پاکستان کا پانی روکنے اور اسے جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ رواں ہفتے کے آغاز میں بگلیہار ڈیم کے مقام پر دریائے چناب کا پانی بند کرکے اور چھ اور سات مئی کی شب پاکستانی کی سویلین آبادی کو نشانہ بنا کر بھارت نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے پیچھے بھارت کے اصل عزائم کیا تھے۔
2011ء میں برطانوی سائنسی جریدے The Natureنے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤںسندھ‘ چناب اور جہلم پر پانی کے بہاؤ کو روکنے اور ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز اور بند تعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان 2020ء تک شدید آبی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ اس سے قبل امریکی خلائی ادارے ناسا (NASA) نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے مابین آئندہ جنگ کا محور پانی کا مسئلہ ہوگا۔بدقسمتی سے 2011ء کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھارتی آبی جارحیت کے خلاف کوئی مؤثر اور سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریا سندھ‘ چناب اور جہلم مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور بھارت جب چاہتا ہے ان دریاؤں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پاکستان کے حصے کا پانی روک لیتا ہے۔ کبھی ضرورت سے زیادہ پانی چھوڑ کر سیلابی دہشت گردی کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کالا باغ ڈیم کے خلاف مزاحمتی تحریک چلواتا ہے۔ حکومت کے ذمہ داران بھارت کی اس آبی جارحیت پر عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔حتیٰ کہ ہماری کابینہ کے بیشتر ارکان بھی اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ بھارت کو ستلج‘ بیاس اور راوی کے 100 فیصد پانی کا مالک نہیں بناتا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھارت پاکستان کو ان دریاؤں کے ذریعے نہ صرف پینے بلکہ زرعی و آبی وسائل کیلئے بھی پانی کی فراہمی کا پابند ہے۔
دریائے راوی میں پانی نہ آنے کے باعث اسکے کنارے آباد شہروں بالخصوص لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ اسی طرح دریائے ستلج بند ہونے سے وہ نہریں ختم ہو چکی ہیں جو نواب آف بہاولپور نے تعمیر کرائی تھیں۔ نتیجتاً چولستان کا علاقہ ویران ہو چکا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستان نے بھارت کو دریا فروخت نہیں کیے تھے بلکہ اسے ایک عالمی معاہدے کا پابند بنایا تھا تاکہ بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے لیکن شاطر بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیمز تعمیر کر کے راجستھان‘ ہریانہ‘ بیکانیر اور اُترپردیش کو سرسبز و شاداب بنارہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت دریائے چناب میں پاکستان کیلئے55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے لیکن بدھ کے روز دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ بیراج کے مقام پر پانی کا بہاؤ صرف 31 سو کیوسک تھا۔ بھارت نہ صرف پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریاؤں پر بڑے آبی ذخائر اور ڈیمز تعمیر کر چکا ہے بلکہ نہریں نکال کر ان کا رُخ بھی موڑ رہا ہے‘ جو کہ واضح آبی جارحیت ہے۔ پہلگام فالس فلیگ بھارت کے اُس منصوبے کی ایک چھوٹی سے کڑی ہے جو اُس نے پاکستان کا پانی روکنے کیلئے بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ ایک ہزار ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت ہمارے دریاؤں سے نہریں نکال کر راجستھان اور اپنے دیگر بنجر علاقوں تک پانی پہنچا رہا ہے جبکہ ہماری حکومت خشک دریاؤں پر رہائشی کالونیاں بنا کر بھارتی مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔پاکستان کیلئے اپنی خود مختاری قائم کرنے کیلئے بھارتی آبی دہشتگردی کا منہ توڑ جواب دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ خوش قسمتی سے افواجِ پاکستان بھارت کی طرف سے کیے گئے کسی بھی مس ایڈونچر کا مسکت جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں جس کا ثبوت پاکستان کی طرف سے بھارتی طیاروں‘ ڈرونز اور بھارت کی مہار 6بٹالین کے اُوڑی میں واقع بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کی تباہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ مودی نے اپنے ملک میں ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت جو ڈرامہ رچایا ہے‘ وہ بھارت کی تقسیم کا ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی جو خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی‘ اس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں اضطراب کی ایک لہر چل رہی ہے۔ اس وقت بھارت میں جو مودی مخالف اور علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں‘ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا بھارت کا ایک اور مقصد ان تحریکوں سے عالمی دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ ماورائے عدالت قتلِ عام ہو رہا ہے اور وہاں کے عوام میں بھارت کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ مزاحمتی تحریک شدت اختیار کر رہی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ تاشقند اور شملہ معاہدوں کے تحت پاکستان سے معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے اور کامیاب سفارتی حکمت عملی کے ذریعے پاکستان نے مشرق وسطیٰ‘ وسطی ایشیا اور مشرق بعید کے کئی ممالک کو اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔ چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں بھی پاکستان کے مؤقف کو سراہ چکی ہیں‘ لیکن بھارت اب بھی سرحدی جھڑپوں اور آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ان ناپاک بھارتی عزائم کا بروقت اور منہ توڑ جواب دینے کیلئے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کا افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا بہت ضروری ہے۔ موجودہ نازک صورتحال میں ملک میں سیاسی استحکام کا قیام ناگزیر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں