پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بلوچستان میں سرگرم شدت پسندوں کیلئے ''فتنہ الہندوستان‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے قوم کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ اس سے قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو‘ جو افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے تھے ''فتنہ الخوارج‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ''فتنہ الہندوستان‘‘ کی یہ اصطلاح 21 مئی کو خضدار میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد سامنے آئی جس میں آٹھ طلبہ شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے واقعات اس حقیقت پر مہر ِتصدیق ثبت کرتے ہیں کہ بلوچستان میں بدامنی‘ اضطراب اور بے چینی کے پیچھے بھارت ہے۔ دو دہائیوں میں پہلی بار بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تفصیلات اور بھارت کاکردار پوری قوم کے سامنے ہے۔
پاکستانی قوم کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے محسنوں اور ان کے کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے‘ جن پر آنے والی نسلیں فخر کرتی ہیں۔ 22 مئی کو ایوانِ صدر میں ہونے والی ایک شاندار تقریب میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کوصدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے بیٹن آف فیلڈ مارشل سے نوازا ۔ انہیں یہ اعزاز بے مثال قیادت اور ملکی دفاع کے لیے گرانقدر خدمات کے اعتراف میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد دیا گیا۔معرکۂ حق کے دوران فیلڈ مارشل عاصم منیر نے جس جرأت اور تدبر سے افواجِ پاکستان کی سربراہی کی وہ پوری قوم کیلئے باعثِ افتخار ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے خطے کی سنگین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947ء کے خطاب کی روشنی میں ملک کے سیاسی‘ انتخابی‘ معاشی اور پارلیمانی نظام کو عوام کی حقیقی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے آئین میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں تاکہ سیاسی نفرت‘ آلودگی اور مفاد پرست گروہوں کا خاتمہ ممکن ہو۔ عوام اب پرانے سیاسی چہروں سے بیزار ہو چکے ہیں۔پاکستان نے روایتی جنگ میں بھارت پر اپنی برتری ثابت کر دی اور صرف چند گھنٹوں میں بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔روایتی جنگ میں شکست کھانے کے بعد بھارت اب بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دے کر سی پیک کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے ردِعمل میں پاکستان کو فوری جوابی اقدامات کرنا ہوں گے۔
دیکھا جائے تو اس وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ستارے گردش میں ہیں اور وہ اس سال نومبر میں ہونے والے بہار کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ نریندر مودی ایک اوسط درجے کا سیاستدان ہے جس کی کم عقلی کی وجہ سے خطے کا امن تباہ ہو رہا ہے۔ وہ نہ صرف بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی حمایت کرکے پاکستان میں امن کو نقصان پہنچا رہاہے بلکہ اپنے ملک میں بار بار کے فالس فلیگ آپریشنز کی وجہ سے اپنے عوام کو بھی دہشت گردی کی آگ میں جھونک رہا ہے۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد جب اس نے اس واقعہ کا الزام پاکستان پر لگا کر سات مئی کو پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان کی طرف سے بھرپور جوابی کارروائی کی گئی۔ اس جوابی کارروائی کے بعد سے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت بھارت کی سات سے زائد ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جو بھارتی سرکار کیلئے بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ بھارت اپنے عوام اور دنیا کی ان تحریکوں سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کے ساتھ محاذ گرم رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت ایک طرف آبی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ بھارتی سرکار کی یہ ذہنیت چانکیہ کے فلسفے کی عکاس ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ میں اس وقت کئی تھنک ٹینکس موجود ہیں پاکستان میں مگر ایسا کوئی مؤثر تھنک ٹینک موجود نہیں جو بھارتی سازشوں کے خلاف کوئی حکمت عملی ترتیب دے سکے۔ اسلام آباد میں اس وقت چند پالیسی ساز ادارے غیر رسمی طور پر کام کر رہے ہیں مگر وہ بعض ایسے گروہوں کے زیرِ اثر ہیں جن کی سوچ قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں۔ ان اداروں کی سرگرمیاں صرف سیمینارز تک محدود رہ گئی ہیں۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور تصادم کے دوران ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے اہم رہنماؤں نے بھارت کی کھل کر مذمت نہیں کی اور نہ ہی نریندر مودی کے خلاف کوئی بیانیہ دینے کی زحمت گوارا کی۔ سابق حکمرانوں نے بھی بھارت کے مذموم عزائم پر پردہ ڈالے رکھا۔ اعلانِ تاشقند کے بعد پاکستان میں بھارت کے خلاف ہر قسم کا سرکاری پروپیگنڈا بند کروا دیا گیا‘ جنگی ترانوں پر پابندی لگا دی گئی حتیٰ کہ کشمیر پر فلمیں اور بھارت مخالف ڈرامے‘ مکالمے اور شاعری بھی ممنوع قرار دے دی گئی۔اس کے برعکس بھارت پاکستان کے کچھ ادیبوں اور شعرا میں بھاری رقوم تقسیم کرتا رہا اور پاکستانی دانشوروں اور اوسط درجے کے لکھاریوں کو مالی مراعات سے خریدا گیا۔ پاکستانی حکومت کے بازپرس کرنے پر انہوں نے بھارت میں پناہ لے لی اور حالات بہتر ہونے پر وطن واپس آکر ملک کی نظریاتی بنیادوں پر وار کرتے رہے۔
پاکستان سے روایتی جنگ میں شکست کے بعد بھارت اب گوریلا وارفیئر کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ ایسے تمام افراد جو بیرونی فنڈنگ سے مستفید ہو نے کیلئے ملکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ ان کا کڑا احتساب ضروری ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے کیساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی واپسی کی مہم بھی چلا رہا ہے۔ چند روز قبل بنگلہ دیش کے عبوری وزیراعظم ڈاکٹر محمد یونس نے داخلی سازشوں کے پیشِ نظر استعفے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا لیکن پھر انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔پاکستان میں بھی ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو بیرونی ایما پر حالات خراب کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس وقت زخم خوردہ بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے پاکستان کے خلاف بھرپور عالمی اور سفارتی سازشوں میں مصروف ہے جبکہ خود بھی وہ ان امن دشمن کارروائیوں کی اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ بھارت میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 96 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بھارت کا شیرازہ بکھرنے کے قریب ہے۔ پاکستانی پنجاب سے متصل بھارتی پنجاب کی سکھ برادری کو 1947ء میں ہونے والی ناانصافی کا شدید احساس ہے‘ اور خالصتان تحریک اب ان کے دل کی آواز بن چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر‘ پنجاب اور آسام کے علاوہ بھارت کی دیگر کئی ریاستیں بھی سوویت یونین کی طرز پر بھارت سے علیحدگی کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔1944ء میں اُس وقت کے وائسرائے ہند نے ہندوستان میں سات خودمختار ممالک بنانے کی تجویز دی تھی۔ یہ تاریخی تجویز آج بھی لندن کی انڈیا لائبریری میں موجود ہے۔ اگر اس وقت کانگرس‘ آل انڈیا مسلم لیگ اور خالصتان تحریک کے سردار بلدیو سنگھ اور بنگال کی سیاسی قیادت اس تجویز کو تسلیم کر لیتی تو یہ سات ممالک یورپی یونین کی طرز پر ایک کنفیڈریشن بنا کر ایک عالمی اور معاشی طاقت بن سکتے تھے۔
اگر ملک کی معاشی صورتحال کی بات کی جائے تو پاکستان کو معاشی بدحالی کی طرف دھکیلنے والوں کا آج تک احتساب نہیں ہوا۔ حیرانی ہے کہ آئی ایم ایف نے کبھی بیوروکریسی‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور حکومتی اہلکاروں کی عیاشیوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا تمام تر دباؤ بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور عوام کی بدحالی پر ہی مرکوز رہا۔اگر ملک کو واقعی خوشحالی کی جانب گامزن کرنا مقصود ہے تو حکومت اور افسر شاہی کی مراعات میں کمی کرنا ہو گی۔ صرف عوام پر معاشی دباؤ ڈالنے سے ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن نہیں ہو سکے گا۔اس وقت پوری قوم کی نظریں فیلڈ مارشل عاصم منیر پر لگی ہوئی ہیں۔